بھارتی ریاست پنجاب کی پولیس کی جانب سے اتوار کی صبح علیحدگی پسند خالصتانی رہنما اور وارث پنجاب دے کے سربراہ امرت پال سنگھ کی گرفتاری کے اعلان کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ ان کو گرفتار کیا گیا یا انہوں نے خود گرفتاری دی ہے؟
واضح رہے کہ پولیس گزشتہ ایک ماہ سے بھی زیادہ وقت سے امرت پال سنگھ کی تلاش میں تھی اور بالآخر اب وہ پولیس کی حراست میں ہیں
تاہم انہیں ریاست پنجاب میں رکھنے کے بجائے، دور دراز شمال مشرقی ریاست آسام کی ایک جیل میں رکھا گیا ہے۔ اس سے پہلے ان کے دیگر ساتھیوں کو بھی گرفتار کر کے آسام منتقل کیا گیا تھا۔ بھارتی میڈيا کی اطلاعات کے مطابق ملک مخالف سرگرمیوں کے متعدد الزامات کے تحت ان پر مقدمہ درج کیا گیا ہے
پولیس حکام کا دعوی ہے کہ ضلع موگا میں ان کے گاؤں کا مکمل طور پر محاصرہ کر لیا گیا تھا، جس کے بعد امرت پال سنگھ کر گرفتار کیا گیا۔ پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل سکھ چین سنگھ گل نے کہا کہ امرت پال کو مصدقہ اطلاعات کے ذریعے پتہ لگا کر ان کو گھیرے میں لے لیا گیا
انہوں نے کہا ’’جب امرت پال کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا، تو وہ گردوارے سے باہر آیا اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔‘‘
تاہم اس حوالے سے جو وڈیوز گردش میں ہیں، اس میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ اتوار کی صبح امرت پال سنگھ پہلے گاؤں کے گردوارے کے اندر داخل ہوتے ہیں اور پھر وہاں مختصر سی تقریر کرتے ہیں۔ وہاں سے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیدل چل کر پولیس کے پاس آتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو حوالے کرتے ہیں
امرت پال سنگھ کے قریبی لوگوں نے بھارتی میڈيا سے بات چیت میں کہا کہ سکھ رہنما ہفتے کی شام روڈے گاؤں پہنچے تھے اور صبح پولیس کو اپنی خود سپردگی کی اطلاع دی تھی
مقتول عسکریت پسند مبلغ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کے بھتیجے جسبیر سنگھ روڈے، جو اکال تخت کے سابق جتھیدار بھی ہیں، نے بتایا ”مجھے پولیس سے معلوم ہوا تھا کہ امرت پال خود سپردگی کرنے والے ہیں۔ جب انہوں نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کیا، تو میں ان کے ساتھ تھا۔ یہ خبریں غلط ہیں کہ امرت پال کو گرفتار کیا گیا، یا اسے خود سپردگی پر مجبور کیا گیا۔ اگر پولیس کو معلوم ہوتا کہ وہ یہاں ہیں، تو وہ انہیں گوردوارے میں ایک اجتماع سے خطاب کی اجازت ہرگز نہ دیتی“
گاؤں کے ایک اور شخص سرجیت سنگھ کا کہنا تھا کہ گردوارے میں ان کے داخل ہونے کے تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد پولیس وہاں پہنچی۔ جب امرت پال باہر آئے، تو سادہ وردی والے پولیس حکام انہیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے
سرنڈر کرنے سے قبل اپنے خطاب میں امرت پال سنگھ نے کہا، ”میں نے اس جگہ اپنی خود سپردگی کا فیصلہ کیا، جو جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کا آبائی گاؤں ہے اور جہاں میری بھی دستار بندی کی گئی تھی۔ یہ اختتام نہیں بلکہ ایک نئی شروعات ہے۔ میں جلد ہی واپس آؤں گا اور ہمارے ذریعے شروع کیا گیا امرت سنچار اور خالصہ وہیر بھی دوبارہ شروع کیا جائے گا“
امرت پال سنگھ کو ریاست آسام کی ہائی سکیورٹی ڈبرو گڑھ جیل میں ان کے معاونین سے الگ تھلگ ایک تنہا سیل میں رکھا گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق رو اور آئی بی جیسی بھارت کی مرکزی انٹیلیجنس ایجنسیاں ان سے پوچھ گچھ کی تیاری کر رہی ہیں
دوسری جانب امرت پال سنگھ کی والدہ بلوندر کور کا اپنے ایک بیان میں کہنا ہے ”ہمیں معلوم ہوا ہے میرے بیٹے نے خود کو پولیس کے سپرد کر دیا ہے۔ مجھے فخر محسوس ہوا کہ اس نے ایک جنگجو کی طرح سرنڈر کیا، ہم قانونی جنگ لڑیں گے اور جلد از جلد اس سے ملیں گے۔“
بھاری ریاست پنجاب تقریباً 58 فیصد سکھ اور 39 فیصد ہندو آبادی پر مشتمل ہے۔ اس ریاست کو 1980ء اور 1990ءکی دہائی کے اوائل میں خالصتان کے حامیوں کی ایک پرتشدد علیحدگی پسند تحریک نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس دوران ہزاروں لوگ مارے گئے تھے
بھارت نے اکثر غیر ملکی حکومتوں سے بھارتی تارکین وطن میں سخت گیر سکھوں کی سرگرمیوں پر شکایت کی ہے، جو اس کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مالی دباؤ کے ساتھ شورش کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔