اس عید الفطر کے موقع پر رلیز ہونے والی فلموں میں اس بار روایت سے ہٹ کر ایک ایسی فلم بھی شامل تھی، جو مزاح، رومان یا ایکشن پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس میں 1971ع میں بنگلہ دیش کے قیام اور اس سے جڑے الم ناک دور کو موضوع بنایا گیا ہے
اس فلم کے ذریعے پاکستان کے عوام کو سقوطِ ڈھاکہ کی درست تصویر بھی دکھائی جا سکتی تھی، اور اگرچہ فلم ’ہوئے تم اجنبی‘ کے آغاز میں یہ لکھا بھی تھا کہ یہ اصل واقعات پر مبنی ہے لیکن فلم کی کہانی پر پاکستان کے نصاب اور ریاستی مؤقف کی چھاپ نظر آتی ہے۔ جیسا کہ بھارتی فلمیں بھارتی ریاستی موقف اور پروپیگنڈا کی تشہیر کرتی ہیں
اس فلم کی ہدایات معروف اینکرپرسن کامران شاہد نے دی ہیں، جو ماضی کے معروف اداکار شاہد کے بیٹے ہیں
کہنے کو تو یہ فلم رومانوی ہے لیکن اس کی سب سے خاص بات ایکشن سین ہیں جن میں پاکستان فوج کی مشینری کا بھرپور انداز میں استعمال کیا گیا ہے۔ فلم میں بحری اور ہوائی جہازوں کے درمیان لڑائی کے سیکوئلز ہیں، جو شائقین کے جذبات کو گرمائیں گے
ناقدین کی رائے ہے کہ فلم کی کہانی میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے اسباب کا پوری طرح احاطہ نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس کے علاوہ کہانی میں نظر آنے والے کئی جھول ریسرچ کے فقدان کی جانب اشارہ کرتے ہیں
ناقدین کے مطابق فلم کی کہانی میں اس بنیادی نکتے کو نظر انداز کیا گیا ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان تنازع کا آغاز زبان کے مسئلے پر ہوا تھا۔ جب کہ فلم میں بنگالیوں کو ہندی بولتے اور ہندو مذہب کی سپورٹ کرتے ہوئے دکھا کر اس تنازع کو مذہبی تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے
فلم کی کہانی 1970ع میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں پڑھنے والے ایک لڑکے اور لڑکی کے گرد گھومتی ہے، جنہیں ایک دوسرے سے محبت ہو جاتی ہے۔ مغربی پاکستان کے ایک امیرزادے نظام الدین (میکال ذوالفقار) اور مشرقی پاکستان کی حسینہ زینت (سعدیہ خان) جب ایک دوسرے سے اقرارِ محبت کرتے ہیں تو مشرقی پاکستان کے حالات خراب ہوجاتے ہیں اور ان کی محبت کی کہانی بھی ان حالات سے متاثر ہوتی ہے
کسی بھی کہانی میں کسی ذاتی المیے کو کسی بڑے سیاسی بحران کے تناظر میں دکھانا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ ہدایت کار ’ہوئے تم اجنبی‘ میں اس تقاضے سے انصاف کرنے کی جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں، وہ اس میں کتنے کامیاب رہے، یہ فیصلہ تو ناظرین ہی کریں گے
فلم کی کہانی بار بار بازارِ حسن کی جانب پلٹ جاتی ہے اور وہاں بھی کسی گمبھیر صورتِ حال کو پیش نہیں کیا جا رہا بلکہ ایک کے بعد ایک محافلِ رقص کے آتی چلی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ کبھی کبھی تو یہ مناظر بھرتی کے طور پر محسوس ہونے لگتے ہیں
کہانی میں ایک بہت واضح جھول یہ ہے کہ فلم میں انٹرمشن سے قبل میکال ذوالفقار کا کردار شفقت چیمہ کے بیٹے کا ہوتا ہے، اور وقفے کے فوراً بعد وہ ان کا بھتیجا بن جاتا ہے اور فلم کے اختتام پر بھانجا۔ اس کی وجہ شاید فلم کا کافی عرصے میں مکمل ہونا ہے۔۔ لیکن پھر بھی یہ جھول کسی طور بھی ہضم کیے جانے کے قابل نہیں ہے
فلم کے دوران بعض کرداروں کا لہجہ بظاہر ان کے کرداروں سے میل نہیں کھاتا۔ خاص طور پر ہیروئن سعدیہ خان کا کردار جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے دکھایا گیا ہے، لیکن وہ لکھنؤئی اردو بولتی نظر آتی ہیں
ہاں، ’ہوئے تم اجنبی‘ میں لگائے گئے بڑے سیٹ شائقین کی توجہ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے
فلم کی پروموشن کے دوران ہدایت کار کامران شاہد کا کہنا تھا کہ فلم میں پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے سرمایہ نہیں لگایا ہے البتہ لاجسٹک سپورٹ فراہم کی ہے
پہلی مرتبہ کسی پاکستانی فلم میں متعدد ہیلی کاپٹروں کو زمین پر گرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جب کہ ہوائی جہازوں کے بحری جہازوں پر ہونے والے حملوں کو بھی اچھے انداز میں فلمایا گیا ہے
بم پھٹنے کے مناظر سے لے کر کلائمکس پر پاکستان فوج کے فائٹ بیک تک سب ہی مناظر کو فلمانے میں مہارت نظر آتی ہے۔ فلم میں ایک دو جگہ مسائل کے باوجود ویژول ایفیکٹس کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی
فلم کی اسٹار کاسٹ میں کئی نامور اداکار شامل ہیں جن میں فلم کے پروڈیوسر اور ماضی کے سپر اسٹار شاہد کا نام سرفہرست ہے۔ انہوں نے فلم میں معروف بنگلہ دیشی لیڈر سید فاروق رحمان کا کردار ادا کیا ہے, جو شیخ مجیب الرحمان کے معتمدِ خاص تھے۔ محمود اسلم بطور شیخ مجیب الرحمان ایک نئے انداز میں نظر آئے
فلم میں اداکار شمعون عباسی کا مکتی باہنی کے کمانڈر جبار کا کردار ہو یا ہیروئن سعدیہ خان کا زینت کا کردار، سب کی ہی فلم میں انوکھی انٹری دکھائی گئی ہے لیکن ہیرو میکال ذوالفقار کی انٹری زور دار نظر نہیں آئی۔ میکال ذوالفقار نے رومانوی سین تو اچھی طرح فلمائے لیکن ان کے سب سے زیادہ یادگار سین وہ تھے، جو جنگی قیدیوں کے کیمپ میں فلمائے گئے
ہیروئن سعدیہ خان کی ادکاری زیادہ متاثر کن نظر نہیں آتی۔ اداکارہ نشو بیگم کو چند مناظر ہی میں دکھایا گیا ہے جب کہ عائشہ عمر کو بھی ایک چھوٹا کردار دیا گیا ہے
اداکار شمعون عباسی کی بطور ولن اداکاری بہتر نظر آئی اور انہوں نے خاص طور پر ایکشن سین اچھی طرح فلمائے ہیں، جب کہ اداکار علی خان نے ایک پاکستانی فوجی افسر کا کردار بخوبی ادا کیا ہے
فلم میں معروف اداکار سہیل احمد نے بازارِ حسن کی ایک کرتا دھرتا خانم کا کردار ادا کیا ہے لیکن ان کی فنکارانہ صلاحیتوں سے پورا پورا فائدہ نہیں اٹھایا گیا
معروف ولن شفقت چیمہ نے اس فلم میں اپنے روایتی انداز میں اداکاری کی ہے، لیکن منجھی ہوئی سینیئر اداکارہ ثمینہ پیرزادہ سابق بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے کردار سے قطعی انصاف نہیں کر سکیں۔ لباس اور میک اپ کی حد تک ان کا کردار جاندار تھا لیکن وہ اداکاری سے اس کردار میں جان نہیں ڈال سکیں
بنگلہ دیش کے قیام کے پسِ منظر میں بہت کم فلمیں بنی ہیں، البتہ اس موضوع پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔فلم کی کہانی کے لیے ان کتابوں سے استفادہ کیا جاتا تو اس میں بہت سے جھول باقی نہیں رہتے۔ فلم کا آرٹ ڈپارٹمنٹ شاید یہ بھول گیا کہ فلم میں جو زمانہ دکھایا گیا ہے اس وقت ڈھاکہ یونیورسٹی کا نام ’ڈاکا یونیورسٹی‘ تھا، جسے 80 کی دہائی میں تبدیل کرکے ڈھاکہ کیا گیا تھا
شیخ مجیب الرحمان کو قتل کے وقت گھر میں اکیلے دکھانا اور 1970 میں اندرا گاندھی کا بانی پاکستان محمد علی جناح کی پرانی تقریر سن کر اپنے گھر میں چیزیں توڑنا، جیسے سین سمجھ سے بالا تر ہیں
اس فلم میں بالی وڈ فلم ‘غدر ایک پریم کتھا’ کے اس سین کا جواب دینے کی کوشش بھی کی گئی ہے، جس میں ایک پاکستانی کا کردار ادا کرنے والے امریش پوری بھارت سے آنے والے سنی دیول سے نعرۂ تکبیر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے کا کہتا ہے۔ اسی طرح جنگی قیدیوں کے کیمپ سے بھاگنے کا منظر ’دی گریٹ اسکیپ‘ سمیت ہالی وڈ کی کئی وار فلمز سے متاثر نظر آتا ہے
دوسری جانب فلم کی موسیقی شائقین کو 1970 کی دہائی کی یاد دلاتی ہے جب گانوں کی دھنیں اور شاعری دونوں بھرپور ہوتی تھیں۔ فلم کا ٹائٹل ٹریک ’ہوئے تم اجنبی‘ گلوکار علی ظفر نے بہت اچھے انداز میں پیش کیا جب کہ اسے بیک گراؤنڈ اسکور کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے
ساؤنڈ ٹریک کو موسیقار باقر عباس، نوید ناشاد اور ساحر علی بگا نے مل کر ترتیب دیا ہے جب کہ ایک گانا عابدہ پروین نے گایا اور اسے کمپوز بھی کیا ہے۔ تاہم گانوں کی بہتات اور بے ربط انداز میں انٹری نے اچھا تاثر قائم نہیں کیا اور گانے سریلے ہونے کے باوجود فلم میں استعمال ہونے والے ’فیڈ ان فیڈ آؤٹ‘ تکنیک کی طرح غائب ہوگئے
کامران شاہد نے اس فلم کے کلائمکس میں ‘تاجدارِ حرم’ کو استعمال کیا ہے
پاکستان کا مشرقی حصہ 16 دسمبر 1971 کو علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بنا تھا۔ بنگلہ دیش کے قیام کو 2021ع میں پچاس برس مکمل ہوئے تھے۔ اس واقعے کی گولڈن جوبلی پر ہدایت کار نبیل قریشی نے فلم ’کھیل کھیل میں‘ اور فلم ساز جاوید جبار نے ڈاکیومینٹری ’سیپریشن آف ایسٹ پاکستان: دی ان ٹولڈ اسٹوری‘ پیش کی تھی
اس کے ساتھ ساتھ ٹی وی پر ہدایت کار حیسم حسین نے ’جو بچھڑ گئے‘ اور احتشام الدین نے ’خواب ٹوٹ جاتے ہیں‘ میں بھی 1971 میں ہونے والے واقعات کو پیش کر کے شائقین سے داد سمیٹی تھی۔ ان تمام پراجیکٹس کے برعکس ریسرچ کی کمی کی وجہ سے ’ہوئے تم اجنبی‘ سب سے کمزور نظر آتی ہے۔