خامشی (قطری ادب سے منتخب افسانہ)

طُرفہ النعیمی (مترجم: محمد فیصل)

جھگڑے سے پہلے انہوں نے دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ دونوں انتہائی پست آواز میں بحث کر رہے تھے۔ بلکہ پست آواز کی بجائے سرگوشی کہنا زیادہ مناسب رہے گا۔۔

’خامشی‘ جس نے انہیں برسوں سے جوڑ رکھا تھا اور اس وقت اس کی جان لیوا موجودگی اپنا آپ منوا رہی تھی۔ انہیں دھڑکا لگا رہتا کہ کوئی ان کی گفتگو کا جملہ نہ سن لے، اسی لیے وہ بحث کے دوران خاموش ہو جاتیں، مگر پھر بحث ایسا رُخ اختیار کر لیتی کہ وہ سہیلیاں، جو کسی دور دراز گاؤں کے اسکول کی ہم جماعت تھیں، ایک دوسرے سے حسد اور جلن کی وجہ سے زہر اگلنے لگتیں

تینوں جماعت میں سب سے آخری قطار میں بیٹھا کرتیں اور خاموشی اختیار کر لیتیں۔ کس کے کہنے پر؟ یہ انہوں نے جاننے کی زحمت ہی نہیں کی، کہ ایسا کرنے والے بہت تھے۔ خامشی بڑھتی گئی اور ان کی چوتھی سہیلی بن گئی۔ خامشی پہلی جماعت سے ہی ان کی ہم سبق بن چکی تھی۔ تینوں اپنی مادرِ علمی میں ہی معلمہ تعینات ہو چکی تھیں۔

خامشی ان کے سنہرے سرابوں سے گٹھ جوڑ کر چکی تھی، لہٰذا وہ اسکول کے چوکیدار کی معنی خیز نظروں، اس کے ذو معنی جملوں اور مسکراہٹ سے سپنوں کے محل سجاتی رہیں۔ تینوں خامشی سے کہانیاں بناتی رہیں، جب کہ چوکیدار انہیں اپنی بیٹیوں کی نظر سے دیکھتا تھا اور اسی لیے انہیں مشفقانہ انداز سے مسکرا کر دیکھتا تھا۔ اسے تو ان کے نام بھی یاد نہ تھے۔ تینوں اس کی وجہ سے جھگڑتی تھیں اور خود اختیار کردہ خامشی کو کوستی رہیں۔ آخر تینوں نے قسم کھائی کہ وہ اسے بتا دیں گی کہ وہ ان تینوں کے درمیان جھگڑے کی وجہ بن چکا ہے مگر وہ اپنی کار میں وہاں سے جا چکا تھا۔

اس دن ایک تیز چیخ نے دل اور خامشی کو چیر دیا۔ اسکول کے سبھی افراد چیخ رہے تھے۔ آسمان پانی برسا رہا تھا، پورے علاقے میں بادلوں کی کڑک اور بجلی کی دل دہلا دینے آوازیں آ رہی تھیں۔ طوفانی بارش نے ہر چیز کو اپنی چادر میں لپیٹ لیا تھا۔
ان تینوں کی سسکیاں، آہیں اور آنسو ان کے الفاظ کو بہا کر کہیں دور لے گئے۔ وہ جو کچھ کہنا چاہ رہی تھیں، اب سب بے معنی ہو چکا تھا۔ بات کیا کرنی، وہاں تو سانس لینا محال ہو چلا تھا۔ تینوں ایک دوسرے سے جُڑ گئیں اور باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر نے لگیں۔ وہ تینوں اسٹاف روم میں بند تھیں، جب کہ باقی اسکول صحن میں جمع تھا۔ کمرے میں پانی داخل ہو رہا تھا۔ انہوں نے پناہ کے لیے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی مگر بے سود۔۔ اسکول کی عمارت کے باہر جانا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا اور اگر وہ اس کمرے میں رہتیں تو بھی بچت ناممکن تھی۔ آہستہ آہستہ ان تینوں پر ڈر کی چادر تنتی چلی گئی۔ جان سب کو پیاری ہوتی ہے، تو انہوں نے بھی کوشش شروع کر دی۔

تینوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما مگر پھر چھوڑ دیا۔ انہوں نے کمرے کا دروازہ تلاش کر لیا تھا مگر اب پانی آہستہ آہستہ بڑھتا جارہا تھا۔ تینوں پوری قوت سے چلائیں مگر سب کو اپنی پڑی تھی۔ ان میں سے ایک کسی دروازے سے ٹکرائی۔ اس نے تیرنے کی کوشش کی مگر اسے احساس ہوا کہ اس کی پسلی ٹوٹ چکی ہے۔ پانی اس کے حلق میں داخل ہوا اور وہ کسی ان دیکھی گہرائی میں ڈوبنے لگی۔ اس نے بار بار منہ کھول کر چیخ مارنے کی کوشش کی مگر اسے اپنی استانی یاد آئیں، جو ہمیشہ انہیں خاموش رہنے کا حکم دیا کرتیں۔ اس کا دل چاہا کہ وہ اس استانی کا گلا دبا دے۔۔ اس کے اندر ایک آواز گونجی۔
’’کیا تمہیں ان کی چیخیں اور کراہیں سنائی دیں؟ کیا تمہیں ان شاگردوں کی شکلیں یاد ہیں، جنہیں تم نے خاموش رہنے کا حکم دیا۔ یا پھر ان سب کی آوازیں تمہارے دماغ میں گونج رہی ہیں؟ اس چھوٹے سے گاؤں میں سیلاب آیا، کیا تمہیں نوریٰ کی آنسو بھری چیخیں سنائی دیں؟ یا تمہیں مریم کی چیخیں سنائی دیں، جو اس کا سینہ چیر کر باہر نکل رہی ہیں اور اسے بچاؤ کا راستہ نہیں مل رہا؟‘‘

مگر اس کے چاروں اور خامشی بڑھتی جا رہی تھی۔
اس کے لیے سب سے ہولناک شے موت تھی۔ ایسی حالت اور جگہ پر مرنا تو موت کی ہول ناکی بڑھا رہا تھا۔ اس نے ہمت مجتمع کی اور ایک کھڑکی پکڑ لی۔ اسے ایسا لگا کہ بچاؤ کے لیے مددگار اسکول کی عمارت میں داخل ہو رہے ہیں اور شاید اس کمرے کی کھڑکی کے پاس ہی گھوم رہے ہیں۔ آوازوں کو سن کر اس کے دل میں امید جاگی مگر اسے معلوم تھا کہ اگر اس نے یہ کھڑکی چھوڑی تو پھر وہ یقیناً ڈوب جائے گی۔ آخر اس نے جان بچانے کے لیے آخری حد تک جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے اپنی پوری زندگی پر طاری خامشی توڑنے کا فیصلہ کیا۔۔ وہ اپنے دل میں دبی باتیں سب کو سنانے سے پہلے مرنا نہیں چاہتی تھی۔۔ اس نے بچی کھچی ہمت جمع کی اور برسوں کی خامشی کو توڑتے ہوئے چیخی
’’سب کو بتادو، میں یہاں مر رہی ہوں!‘‘

اس کے دل میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کی آواز گونجتی رہے گی۔۔ اب اس آواز کو دبانا ممکن نہیں۔ مگر باہر سے ایک آواز آئی۔
’’ہم بھی جلد ڈوبنے والے ہیں۔۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close