پاکستان: اب زرعی ملک نہیں بلکہ ریئل اسٹیٹ کا ملک بن چکا ہے!

ویب ڈیسک

پاکستان میں بہت تیزی سے زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں تعمیر کی جا رہی ہیں اور جنگلات کو بھی کاٹا جا رہا ہے۔ ماہرین اس رجحان کو ماحولیات اور زراعت کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہیں

واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ڈی ایچ اے ملتان اور ڈی ایچ اے گوجرانوالہ کے حوالے سے متعدد صارفین کہہ رہے ہیں کہ یہ ہاؤسنگ سوسائٹی آموں کے باغات اور زرعی زمینوں پر رہائشی منصوبے تیار کر رہی ہے

پاکستان میں اس طرح کے الزامات بحریہ ٹاؤن اور دوسری ہاؤسنگ سوسائٹیوں پر بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔ جنگلات کا عالمی معیار کل رقبے کا تقریباﹰ 25 سے 30 فیصد حصہ ہے جبکہ پاکستان میں یہ حصہ محض 5.4 فیصد ہے

کراچی کا ضلع ملیر اور اس کا زرعی علاقہ گڈاپ بھی تیزی سے اپنی زرعی زمینیں کھو رہے ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز یہاں تیزی سے اپنے پنجے گاڑ رہی ہیں، جس سے نہ صرف زراعت بلکہ ماحول کو بھی انتہائی سنگین اثرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ساتھ ہی سندھ حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے ملیر ایکسپریس وے کو بھی ماحولیاتی ماہرین نہ صرف ملیر بلکہ کراچی کے ماحول کے لیے بھی خطرہ قرار دے رہے ہیں

ماہرین کا خیال ہے کہ زرعی زمینوں پر رہائشی اسکیمیں بننے کا سلسلہ ملک بھر میں بڑھ رہا ہے۔ اس طرح یہ ایک تسلسل بن چکا ہے، جو زرعی ملک ہونے کے دعویدار پاکستان کو ’ریئل اسٹیٹ ملک’ میں تبدیل کر رہا ہے

سندھ آبادگار بورڈ کے سینئر نائب صدر محمود نواز شاہ کہتے ہیں ”بہت سارے چھوٹے زمیندار اپنی زمین تعمیراتی شعبوں کے لوگوں کو دے رہے ہیں۔ ٹنڈو اللہ یار، سکھر، جام شورو اور کراچی کے کئی زرعی علاقوں میں اب ہاؤسنگ اسکیمیں بن رہی ہیں۔ قانونی طور پر زرعی زمین کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرنا آسان نہیں ہے لیکن پاکستان میں قوانین صرف بنائے جاتے ہیں، ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔‘‘

دوسری جانب فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی امور کے ماہر عرفان چوہدری کہتے ہیں ”گزشتہ سات عشروں میں لاہور کے اندر کئی رہائشی اسکیمیں جزوی یا مکمل طور پر زرعی زمینوں پر بنائی گئی ہیں۔ ڈی ایچ اے، پیراگون ہاؤسنگ، پنجاب یونیورسٹی ہاؤسنگ کالونی اور رائیونڈ روڈ کے اطراف کئی ایسی رہائشی اسکیمیں ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زرعی زمین پر تعمیر کی گئیں۔ شیخوپورہ میں شرقپور روڈ پر بیس کے قریب ہاؤسنگ سوسائٹیز صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر قائم ہیں اور لاہور اور شیخوپورہ کے درمیان اب اسمارٹ سٹی کے حوالے سے بھی یہی دعویٰ کیا جارہا کہ وہ زرعی زمینوں پر ہیں‘‘

فیصل آباد کو پاکستان کی صعنت کا مرکز کہا جاتا ہے لیکن گزشتہ کچھ دہائیوں میں اس صنعتی شہر کے اطراف بھی زرعی زمینوں پر رہائشی اسکیمیں بنائی جا رہی ہیں۔ عرفان چوہدری کا کہنا ہے کہ فیصل آباد میں ستیانہ روڈ کے دونوں اطراف زرعی زمینیں ہوا کرتی تھیں مگر اب وہاں پر ان کا نام و نشان بھی نہیں ہے

پاکپتن سے تعلق رکھنے والے زرعی امور کے ماہر عامر حیات بھنڈرا کا کہنا ہے ”زرعی زمین پر رہائشی اسکیمیں بنانے کا منصوبہ صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں ہے۔ بہاولنگر اور سرگودھا سمیت کئی شہروں میں تیزی سے چھوٹی چھوٹی رہائشی اسکیمیں زرعی زمین پر تعمیر کی جارہی ہیں‘‘

پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں شہر تیزی سے آباد ہو رہے ہیں اور ان کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق سن 2000ء میں دنیا میں شہری آبادی 2.6 ارب تھی، جو اب پانچ ارب سے بھی زیادہ ہو گئی ہے

پاکستان میں کراچی، لاہور، ملتان، پشاور اور فیصل آباد سمیت کئی شہروں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً شہروں کے اطراف جو زرعی زمینیں تھیں وہ اب ریئل اسٹیٹ کی ڈویلپمنٹ کے لیے کام آ رہی ہیں

لاہور میں حالیہ مہینوں میں راوی ڈویلپمنٹ پراجیکٹ تنازعے کا شکار رہا، جو ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر مشتمل ہے۔ پراجیکٹ پر کئی ملکی اور بین الاقوامی تنظیمیں تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ ماحولیات کے لیے کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی اعتبار سے یہ پراجیکٹ بڑے پیمانے پر تباہی لائے گا جبکہ زرعی ماہرین بھی اس پراجیکٹ کو خطرناک قرار دیتے ہیں

گزشتہ ماہ ہیومن رائٹس واچ نے اس پراجیکٹ کے حوالے سے ایک بیان بھی جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا کہ اس پراجیکٹ سے بڑے پیمانے پر لوگ متاثر ہو سکتے ہیں

پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں میں ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری بہت بڑے پیمانے پر بڑھی ہے۔ عامر حیات بھنڈرا کا خیال ہے کہ حکومتوں کی طرف سے بار بار کی ایمنسٹی اسکیموں نے ریئل اسٹیٹ کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے: ’’جو پاکستانی مزدور دوسرے ممالک میں کام کرنے کے لیے جاتے ہیں، وہ سب سے پہلے کوشش کرتے ہیں کہ ریئل اسٹیٹ میں پیسہ لگایا جائے۔ اس کے علاوہ کالا دھن بھی اس میں لگائے جاتا ہے جو ایمنسٹی اسکیم کی وجہ سے ملک میں آتا ہے۔‘‘

محمود نواز شاہ کا کہنا ہے کہ زراعت میں بڑھتی ہوئی لاگت زمین داروں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنی زمینیں بیچیں

عرفان چودھری کا کہنا ہے ”یہ خطرناک رجحان ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر فوڈ ان سکیورٹی بڑھے گی۔ یوکرین کے بحران نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اگر ممالک خوراک کے لیے دوسرے ممالک پر انحصار کرتے ہیں تو ان کے لیے کسی بحران کی صورت میں بہت ساری مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close