پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزام عائد کیا ہے، جو من گھڑت، بدنیتی پر مبنی، افسوسناک، قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے
دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے پاک فوج کو ’بدنام‘ کرنے کا الزام لگانے پر سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے جواب دیتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا فوجی افسران قانون سے بالاتر ہیں؟
عمران خان نے ڈی جی آئی ایس پی آر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”عزت صرف ایک ادارے کی نہیں، ہر شہری کی ہونی چاہیے“
سابق وزیر اعظم نے کہا ”مجھ پر جان لیوا حملے کی کوئی تحقیقات نہیں ہوئی، کس کی جرأت نہیں تھی کہ آگے بڑھے کیوں کہ یہ مقدس گائے ہے، قانون سے اوپر ہیں“
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے جاری بیان کے مطابق گزشتہ ایک سال سے یہ ایک مستقل طریقہ بن گیا ہے، جس میں فوجی اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اشتعال انگیز اور سنسنی خیز پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جاتا ہے
ترجمان پاک فوج نے کہا عمران خان نے بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزام عائد کیا ہے
آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم متعلقہ سیاسی رہنما سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قانونی راستہ اختیار کریں اور جھوٹے الزامات لگانا بند کریں
پاک فوج نے کہا کہ یہ من گھڑت، بدنیتی پر مبنی الزام انتہائی افسوسناک، قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے
ترجمان پاک کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ادارہ واضح طور پر جھوٹے، غلط بیانات اور پروپیگنڈے کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے
واضح رہے کہ گزشتہ سال وزیر آباد میں پی ٹی آئی سربراہ پر قاتلانہ حملے کے بعد عمران خان نے وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ اور ایک سینئر انٹیلیجنس اہلکار فیصل نصیر کو ان کے قتل کی کوشش کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور ان سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا
اس کے بعد سے چیئرمین پی ٹی آئی سمیت کئی پارٹی رہنماؤں نے اس بات کو دہرایا ہے کہ وزیر آباد قاتلانہ حملہ عمران خان کو ختم کرنے کے لیے تین شوٹرز کے ذریعے منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا
پنجاب حکومت کی جانب سے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے مبینہ طور پر عمران خان کے ان دعوؤں سے اتفاق کیا تھا کہ حملہ مختلف تین مقامات کی جانب سے کیا گیا، دو بار تشکیل پانے والی اس جے آئی ٹی کی سربراہی سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کر رہے تھے
لیکن جنوری کے شروع میں حکومت نے حملے کی تحقیقات کے لیے ایک نئی ٹیم تشکیل دی، جس کو پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا تھا
ابھی ہفتے کے روز اعلیٰ عدلیہ اور حکومت کے درمیان کشیدگی کے درمیان سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے اظہار یکجہتی کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے مختلف شہروں میں نکالی گئی احتجاجی ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجودہ سمیت حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر فیصل نصیر پر سخت تنقید کی تھی
عمران خان نے حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر کا نام لے کر الزام لگایا تھا کہ مجھے کچھ ہوا تو اس شخص کا نام یاد رکھنا، جس نے مجھے پہلے بھی دو بار مارنے کی کوشش کی
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کے جواب میں کہتے ہیں ”عزت صرف ایک ادارے کی نہیں ہر شہری کی ہونی چاہیے اور جو ادارہ اپنی کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے، وہ مضبوط ہوتا ہے“
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے لیے روانہ ہونے سے قبل ایک وڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے لیے روانگی سے قبل میں دو باتیں کرنا چاہتا ہوں، آئی ایس پی آر نے بیان دیا ہے کہ ادارے کی توہین کردی، فوج کی توہین کردی
بات کو جاری رکھتے ہوئے عمران خان نے کہا ”ایک انٹیلیجنس افسر کا نام لے دیا، جس نے دو مرتبہ مجھے قتل کرنے کی کوشش کی، آئی ایس پی آر صاحب! ذرا میری غور سے بات سنیں، عزت صرف ایک ادارے کی نہیں ہے، عزت قوم میں ہر شہری کی ہونی چاہیے“
عمران خان نے مزید کہا ”میں اس وقت قوم کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ ہوں، پچاس سال سے قوم مجھے جانتی ہے، مجھے کوئی جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے“
ایک مرتبہ پھر اپنے الزامات دہراتے ہوئے انہوں نے کہا ”اس آدمی نے دو مرتبہ مجھے قتل کرنے کی کوشش کی اور جب بھی تحقیقات ہوں گی میں یہ ثابت کروں گا یہ وہ آدمی تھا، اور اس کے ساتھ پورا ٹولہ ہے اور اس کے ساتھ کون ہیں، وہ بھی آج کے سوشل میڈیا کے زمانے میں سب کو پتا ہے“
عمران خان نے کہا ”میرا سوال یہ ہے کہ چونکہ اس آدمی کا نام آ گیا تو ملک کا سابق وزیراعظم ایف آئی آر نہیں کٹوا سکا۔ جھوٹ اور سچ کا اس وقت پتا لگتا، جب اس کے خلاف ایف آئی درج ہوتی، تحقیقات ہوتی، اگر یہ بے قصور تھا تو سامنے آ جاتا“
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا ”اتنی طاقتور شخصیت کہ میں ایک سابق وزیراعظم پنجاب میں اپنی صوبائی حکومت ہوتے ہوئے ایف آئی آر میں اس کا نام نہیں دے سکا“
عمران خان نے کہا ”اس کے کہنے پر پنجاب کے جن دو پولیس افسران نے حملہ آور کا بیان ریکارڈ کیا تھا، ڈی پی او گجرات اور سی پی او سی ٹی ڈی انہوں نے حکومت پنجاب کی بنائی گئی جے آئی ٹی کے سامنے تحقیقات میں شامل ہونے سے منع کر دیا، اس کے پیچھے کون تھا، کون اتنا طاقتور تھا؟“
عمران خان کا کہنا تھا ”ان کا پروپیگنڈا تھا کہ حملہ آور ایک مذہبی انتہا پسند تھا لیکن جب جے آئی ٹی میں ثابت ہوگیا کہ حملہ آور تین تھے تو جے آئی ٹی کو سبوتاژ کیا گیا، سی ٹی ڈی کے چار افراد نے اپنے بیان تک تبدیل کر لیے“
چیئرمین پی ٹی آئی کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل نے تحقیقات کر کے کہا کہ ان چاروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، کیوں کہ انہوں نے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی، اس کے پیچھے کون تھا؟ کون اتنا طاقتور تھا؟
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا ”اس کے بعد میں ثابت کروں گا ایک رات قبل آئی ایس آئی نے جوڈیشل کمپلیکس کو ٹیک اوور کیا، ثابت کروں گا کہ سی ٹی ڈی اور وکلا کے کپڑوں میں وہاں آئی ایس آئی ( کے اہلکار) موجود تھے، ثابت کروں گا کہ وہاں ایک بریگیڈیئر بیٹھ کر سب کچھ مانیٹر کررہا تھا، اس کا نام بھی بتاؤں گا“
عمران خان کا کہنا تھا ”وہاں آئی ایس آئی کا کیا کام تھا، میں ثابت کروں گا کہ انہوں نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی اور پیچھے یہی آدمی تھا، مقتول ارشد شریف کی والدہ نے بھی اسی آدمی اور ٹولے کا نام لیا“
سابق وزیر اعظم نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ لیکن کوئی تحقیقات نہیں ہوئی، کس کی جرأت نہیں تھی کہ آگے بڑھے کیوں کہ یہ مقدس گائے ہے، قانون سے اوپر ہیں“
ان کا مزید کہنا تھا ”ڈج جی آئی ایس پی آر صاحب! جب ایک ادارہ اپنی کالی بھیڑوں کے خلاف ایکشن لیتا ہے، وہ اپنی ساکھ بہتر کرتا ہے، جو ادارہ کرپٹ اور دو نمبر لوگوں کو پکڑتا ہے وہ ادارہ مضبوط ہوتا ہے“
ساتھ ہی انہوں نے اپنے تعمیر کردہ ہسپتال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر شوکت خانم میں کوئی ڈاکٹر یا کوئی فرد غلط کام کرے تو ہم ایکشن لیتے ہیں تو ہمارے ادارے کی کریڈیبیلیٹی بڑھتی ہے
چیئرمین پی ٹی آئی کا مزید کہنا تھا ”یہ کیا آپ نے بنایا ہوا ہے کہ جو نام لیں، تو کہتے ہیں فوج کو برا بھلا کہا، یہ میری فوج ہے، میرا پاکستان ہے صرف آپ کا نہیں، ہمیں اس کا شاید آپ سے زیادہ خیال ہو“
انہوں نے کہا ”یہ حرکتیں کرنا کہ جو تنقید کرے اس کا منہ بند کر دیں اس سے آپ ادارے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔“
عمران خان نے کہا ”میں آج یہ بھی کہہ دوں کہ آج میں جو جا رہا ہوں وہاں کوئی پولیس، رینجرز، ایف سی اتنی بڑی فوج لا کر ملک کا پیسہ ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اگر کسی کے پاس وارنٹ ہے، سیدھا میرے پاس وارنٹ لے کر آئے میرے وکیل ہوں گے، میں خود ہی جیل جانے کے لیے تیار ہوں“
ان کا مزید کہنا تھا کہ اتنے اخراجات کرنا کہ جیسے پتا نہیں کون سا ملک کا بڑا مجرم آ رہا ہے، کوئی اس طرح کا ڈرامہ نہ کریں، سیدھی طرح وارنٹ دیں، مجھ پر کوئی کیس نہیں ہے لیکن میں ذہنی طور پر جیل میں جانے کے لیے تیار ہوں
ساتھ ہی انہوں نے کہا ”دوسری چیز، یہ جو ’ڈرٹی ہیری‘ نے منصوبہ بنایا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ٹولہ ہے، اگر اللہ نے ان کے ہاتھ میری جان لینی ہے میں اس کے لیے بھی تیار ہوں“
ان کا کہنا تھا ”لیکن میرا سوال ہے کہ کیا آپ لوگ تیار ہیں؟ جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں، جو اقتدار کے مزے لے رہے ہیں، پیسے بنا رہے اور این آر او لے کر پیسے بچا رہے ہیں، کیا آپ سب تیار ہیں؟“
انہوں نے کہا ”ہو سکتا ہے زیادہ بڑی تعداد میں قوم سڑکوں پر نہ نکلے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے اگر یہ قوم پھٹ گئی تو آپ سب کو اپنے آپ کو بچانا پڑے گا، چھپتے پھریں گے آپ، یہ جو بادشاہت بنی ہوئی ہے یہ سب دھل جائے گا تو آپ بھی تیار ہوجائیں، میں تیار ہوں“
ان کا مزید کہنا تھا ”آخر میں یہ بھی کہہ دوں کہ اگر ان چوروں، ڈاکوؤں اور ڈفرز کے نیچے زندگی گزارنی پڑے تو میں اللہ سے کہتا ہوں کہ مجھے اوپر لے جائے کیوں کہ ان کی غلامی سے موت بہتر ہے“
یاد رہے کہ عمران خان کے اس بیان پر گزشتہ روز سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے چیئرمین پی ٹی آئی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش نے ایک شخص کا حقیقی چہرہ بے نقاب کر دیا ہے
آصف زرداری نے کہا ”بس بہت ہو گیا، غیرملکی ایجنٹ کی گزشتہ روز کی تقریر سننے کے بعد کوئی محب وطن اس کی پیروی کرنے کا اب سوچ بھی نہیں سکتا، ایک شخص میرے آباؤاجداد، میرے بچوں اور میرے ملک کو تباہ کرنے کے درپے ہے جس کی ہم اجازت نہیں دیں گے“
آصف زرداری نے کہا تھا کہ پاک آرمی کے بہادر اور مایہ ناز افسران پر الزامات دراصل اس ادارے پر حملہ ہے کہ جس کے ساتھ پورا پاکستان کھڑا ہے، ایک شخص جھوٹ اور دھوکے سے اپنے معصوم کارکنان کو بے وقوف بنا رہا ہے، میں اس شخص کا زوال دیکھ رہا ہوں، یہ شخص اداروں کو بدنام کرنے کی ہر حد کو عبور کرچکا ہے جسے اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا“
جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ عمران نیازی کا معمولی سیاسی فائدے کی خاطر پاک فوج اور انٹیلیجنس ایجنسی کو بدنام کرنا اور دھمکیاں دینا انتہائی قابل مذمت ہے، جنرل فیصل نصیر اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسی کے افسران کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے الزامات لگانے کی اجازت دی جاسکتی ہے نہ اسے برداشت کیا جائے گا
ادہر نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا تھا کہ ہم پنجاب میں کسی کو اپنے اداروں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی تذلیل یا دھمکی دینے کی اجازت نہیں دیں گے۔
’کیا فوجی افسران قانون سے بالاتر ہیں؟‘ عمران خان کا تنقید پر جواب
سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے پاک فوج کو ’بدنام‘ کرنے کا الزام لگانے پر سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے جواب دیتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا فوجی افسران قانون سے بالاتر ہیں
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں عمران خان نے شہباز شریف کے بیان پر جوابی رد عمل دیتے ہوئے ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی
سابق وزیراعظم کہا کہ کیا ایک ایسے شخص جو گزشتہ چند ماہ کے دوران دو قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنا، کے طور پر میں شہباز شریف سے درج ذیل سوالات پوچھنے کی جسارت کر سکتاہوں کہ کیا بطور پاکستانی شہری مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں ان لوگوں کو نامزد کروں، جو میرے خیال کے مطابق مجھ پر قاتلانہ حملے کے ذمہ دار تھے؟
پی ٹی آئی سربراہ نے 18 مارچ کو اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں ہونے والے تصادم کا بھی ذکر کیا، جہاں وہ توشہ خانہ کیس کی سماعت کے لیے عدالت میں پیش ہوئے تھے، دن بھر کشیدگی کے دوران پولیس اور پی ٹی آئی سپورٹرز آمنے سامنے ہونے سے وفاقی دارالحکومت میدان جنگ بن گیا تھا۔ اس کے بعد عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ ان کو مارنے کے لیے قاتل جوڈیشل کمپلیکس کے باہر تعینات تھے اور انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا
اپنے ٹوئٹ میں عمران خان نے کہا کہ آئی ایس آئی کے لوگوں کی وہاں موجودگی کا مقصد کیا تھا اور ان کا جوڈیشل کمپلیکس میں کام ہی کیا تھا؟ اگر شہباز شریف ان سوالات کے سچ پر مبنی جوابات دیں سکیں تو ان سب سے ایک ہی طاقتور شخص اور اس کے ساتھیوں کا سراغ ملےگا، جو سب قانون سے بالاتر ہیں
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ چنانچہ وقت آگیا ہے کہ ہم باضابطہ اعلان کریں کہ پاکستان میں محض جنگل ہی کا قانون رائج ہے، جہاں ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا اصول کارفرما ہے۔