ایک بکاؤ صحافی کی پکاؤ باتیں

وسعت اللہ خان

گزشتہ سے پیوستہ ہفتے بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد نے دریاِ پدما پر سوا چھ کلومیٹر طویل پل کا افتتاح کیا۔ یہ پل دارالحکومت ڈھاکہ کو کھلنا سمیت بنگلہ دیش کے جنوب مغربی پسماندہ علاقوں سے جوڑے گا۔ یہ پل ایک چینی کمپنی نے لگ بھگ ڈیڑھ ہزار بنگلہ دیشی انجینیروں کی مدد سے تیار کیا ہے

اس کے لیے پیسہ ورلڈ بینک نے دینا تھا اور یہ پل دراصل دو ہزار بارہ تک مکمل ہو جانا تھا۔مگر کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات کی وجہ سے عالمی بینک نے اس منصوبے سے ہاتھ کھینچ لیا اور اس کے بعد ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دیگر عالمی مالیاتی کنسورشیمز نے بھی ہاتھ بٹانے سے معذرت کر لی۔ چنانچہ وزیرِ اعظم نے اعلان کیا کہ بنگلہ دیش اب اپنے وسائل سے یہ پل بنائے گا۔ تب ان کے اس اعلان کو ایک سیاسی شعبدے بازی سمجھتے ہوئے اندرون و بیرونِ ملک کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا

ویسے بظاہر یہ کوئی خاص خبر نہیں لگتی کہ کسی ملک نے اپنے بل بوتے پر اپنے ہی کسی دریا پر پل تعمیر کر لیا تو کیا بڑی بات ہے۔ لیکن جب یہ معلوم ہو کہ ایمیزون کے بعد پدما دریا سب سے منہ زور دریا ہے اور اس پر پل بنانا بچوں کا کھیل نہیں، اس کے لیے دریا کی سطح کے اندر انتہائی گہرائی تک پہلے تو سیکڑوں ستون بنانے کی ضرورت تھی

اتنے مضبوط ستون کہ منہ زور سیلابی پانی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا سکے اور یہ ستون اعشاریہ نو ریکٹر اسکیل تک کے زلزلے کا جھٹکا بھی برداشت کر سکیں۔ تب جا کے یہ منصوبہ ایک جدید تعمیراتی چیلنج بن جاتا ہے

اور آج جب لاکھوں لوگوں کے لیے اس گیم چینجر پل پر ریل اور روڈ ٹریفک کھول دی گئی ہے تو اس میگا پروجیکٹ کو بنگلہ دیش کا قومی فخر قرار دیا گیا ہے۔ اس پل کی غیر موجودگی میں جنوب مغربی بنگلہ دیش کے باسیوں کو ڈھاکہ تک پہنچنے میں بائیس سے چوبیس گھنٹے لگتے تھے۔ اب آٹھ سے دس گھنٹے لگیں گے۔ اس پل کے سبب ڈھاکہ سے کلکتہ کا فاصلہ بھی لگ بھگ سو کلو میٹر اور چار گھنٹے کم ہو گیا ہے۔ چنانچہ لامحالہ دو طرفہ تجارت کے حجم پر بھی مثبت اثر پڑے گا

میں کامیابی کی یہ داستان اس لیے سنا رہا ہوں کہ میرے بچپن تک بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ملک کے مغربی حصے میں یہ کہانی سنائی جاتی تھی کہ بھوکے بنگالیوں کو سوائے اپنی غریبی پر رونے دھونے کے کوئی کام نہیں اور ہم ہی انہیں پال رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے کئی برس بعد تک پاکستان میں عوامی سطح پر یہی تصویر دکھائی جاتی رہی

مگر آج ہمارے سوشل میڈیا اور چینلوں پر کوئی نہ کوئی یہ بات کر ہی دیتا ہے کہ بنگلہ دیش پچاس برس میں ہم سے کتنا آگے نکل گیا اور ہم پچھتر سال بعد بھی ایک کے بعد دوسری دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں

جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا، تب وہاں کی آبادی ساڑھے سات کروڑ اور مغربی پاکستان کی آبادی ساڑھے چار کروڑ تھی۔آج بنگلہ دیش کی آبادی ساڑھے پندرہ کروڑ اور پاکستان کی بائیس کروڑ ہے۔ گویا اگر پاکستان بنگلہ دیش سے کسی شعبے میں آگے نکلا ہے تو وہ افزائشِ آبادی کا شعبہ ہے

بیس برس پہلے ایک پاکستانی روپے کے پونے دو بنگلہ دیشی ٹکے ملتے تھے۔ آج پاکستانی روپیہ آدھے ٹکے سے بھی کم کے برابر ہے۔بنگلہ دیشی خزانے میں اڑتیس بلین ڈالر پڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے خزانے میں پچھلے ہفتے تک نو بلین ڈالر تھے جو اب آئی ایم ایف کی مہربانی اور چین و سعودی عرب کے تعاون سے پندرہ بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں اور ہم اس پر ایسے خوش ہیں، گویا خود کمائے ہوں

بنگلہ دیش کو ورلڈ بینک نے دھتا بتایا تو اس نے اپنے پیسے سے پدما پل بنا کے دکھا دیا۔اور ہم آج اس بات پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے کہ آئی ایم ایف نے ایک بلین ڈالر قرضہ کی قسط دینے کے لیے گردن ہلا دی ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کی ڈکٹیشن پر بنے بجٹ کی سفارشات پر اگر اچھے بچوں کی طرح عمل کیا تو قرضے کا پروگرام چھ ارب ڈالر سے بڑھ کے آٹھ ارب تک پہنچ جائے

مگر اگلے چند ماہ کے لیے میسر اس ادھاری فخر کی عام پاکستانی کو بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور ڈالر کے سامنے روپے کی کمزور ساکھ نے مہنگائی کا طوفان پیدا کر دیا ہے

اگرچہ حکومت سینہ ٹھونک کے کمر ٹوٹ آدمی کو یقین دلا رہی ہے کہ اس بار صرف آپ پر ہی بوجھ نہیں لادا گیا ہے بلکہ اشرافیہ اور موٹے موٹے نجی اداروں پر بھی سپر ٹیکس وغیرہ عائد کیا گیا ہے۔مگر سرکار کو شائد یہ بتانا یاد نہیں رہا کہ اشرافیہ، تاجر طبقے اور موٹے موٹے اداروں پر لگنے والے تمام ٹیکس بالآخر آپ نے اور میں نے ہی قیمتوں میں آسمان تک اضافے کی شکل میں سود سمیت ادا کرنے ہیں

اس وقت جس کی آمدنی یا تنخواہ پچاس ہزار ہے وہ بھی پٹرول کی قیمت دگنی ہونے کے بعد اپنی موٹرسائیکل کو کک لگانے سے پہلے دو بار سوچتا ہے کہ جاؤں یا پھر بس سے لٹک جاؤں۔ اندازہ کیجیے کہ جس کی آمدنی بیس ہزار روپے یا اس سے بھی کم ہے اور اسے کم ازکم چار لوگ پالنے ہیں، وہ کس قیامت سے گذر رہا ہوگا

اس اقتصادی بحران کی وجہ سے اب پہلی بار یہ سوال کھلے عام پوچھا جانے لگا ہے کہ آخر اس ملک کا مالک کون ہے؟ عسکریات، نوکرشاہی، عدلیہ اور پروفیشنل سیاست بازوں کی منتطیل یا پھر بائیس کروڑ میں سے اکیس کروڑ اسی لاکھ لوگ؟

اگر اکیس کروڑ اسی لاکھ لوگ ہی اصل مالک ہیں تو پھر پارلیمنٹ میں نوے فیصد سے زیادہ منتخب نمایندے اشرافیہ یا ان کے دم چھلہ کیوں ہیں اور یہی اکیس کروڑ ہر بار انہیں ہی کیوں چنتے ہیں۔ اپنے میں سے کسی مزدور، کسان، کلرک، دکان دار یا سپاہی کو کیوں پارلیمنٹ میں نہیں بھیجتے؟

مگر سسٹم کچھ ایسا مشکل اور مہنگا بنا دیا گیا ہے کہ انتخابی دوڑ میں عام آدمی ایک دن بھی نہیں ٹک پاتا۔۔ اور یوں ہر بار انتخابی عمل کسی نہ کسی کے ہاتھوں اغوا ہو جاتا ہے۔اور جو طاقت ور لوگ انتخاب جیت بھی جاتے ہیں، وہ اپنے سے اوپر والے مضبوطوں اور مافیاؤں کی سہولت والے قانون بناتے ہیں۔یعنی پارلیمنٹ ان لوگوں کے لیے راستہ بناتی ہے، جو پارلیمنٹ میں شائد کبھی نہ گھس سکیں۔ مگر پارلیمانی احتساب سے بالا رہیں

جمہوری عمل کے گدھے پر لگاتار کون سواری گانٹھ رہا ہے؟ اسے چھوڑ دو۔ باقی ہر موضوع پر بات کرو۔کوئی مسئلہ نہیں

اگر ہم پچھتر برس بعد بھی پرانی جھاڑیوں میں ہی الجھے رہے تو ایشین ٹائیگرز چھوڑ، بنگلہ دیش کے لیول تک ہی پہنچ جائیں تو معجزہ ہوگا

پر کیا کریں۔۔۔ اگر یہ سب کھلم کھلا کہا جائے تو کہیں نا کہیں سے انگلی اٹھ جاتی ہے دیکھو یہ ہے جمہوریت کا دشمن بکاؤ صحافی ہے!

بشکریہ: ایکسپریس نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close