کھجور کے پتوں سے بنے پنکھے: مستقل مانگ کے باوجود کاریگر پریشان کیوں ہیں؟

ویب ڈیسک

”ہمارے ہاں بجلی جاتی نہیں، بس کبھی کبھار آ جاتی ہے“ یہ وہ جملہ ہے جو پاکستان میں بجلی کی صورتحال کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے

بجلی فراہمی کی اسی صورتحال کے باعث جدید دور میں بھی کھجور کے پتوں سے بنے دستی پنکھوں کی مانگ میں کوئی کمی نہیں آئی

لیکن اس کے باوجود بدقسمتی سے انہیں بنانے والی خواتین کاریگر کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے مناسب اجرت نہ ملنے سے پریشان ہیں

دستی پنکھے ان جھونپڑیوں میں تو تب بھی موجود تھے، جب بجلی نہیں تھی اور نہ اب ہے، لیکن اب تو یہ پنکھے بالکل اسی طرح متوسط طبقے میں بھی آ چکے ہیں جیسے ہماری زندگیوں میں یہ بے حس حکمران

پاکستان میں کھجور کی کاشت کے حوالے سے مشہور سندھ کے ضلع خیرپور کے نواحی علاقے پیر جو گوٹھ میں متعدد دیہاتوں میں کھجور کے پتوں سے ہاتھ کے پنکھے بنائے جاتے ہیں، جو کم قیمت اور ماحول دوست ہوتے ہیں

ساتھ ہی یہ پنکھے مقامی خواتین کے گھروں میں روزگار کا اہم ذریعہ بھی ہیں، لیکن اب اس ذریعے سے آمدنی برائے نام رہ گئی ہے

اس کام سے وابستہ ایک خاتون روشن نے بتایا کہ اس پنکھے کو بنانے میں خاصی محنت درکار ہوتی ہے۔ مقامی باغات سے کھجور کی اضافی سبز ٹہنیاں خریدی جاتی ہیں، جس کے بعد ان سے پتے علیحدہ کر کے شاخوں کو سُکھایا جاتا ہے

پتوں کو مختلف دیدہ زیب رنگوں سے رنگنے کے بعد ان کی بُنائی کا عمل گھر کی خواتین مل کر کرتی ہیں۔ بعد ازاں مڈل مین کے ذریعے انہیں بازار میں فروخت کر دیا جاتا ہے

خاتون کے مطابق موجودہ مہنگائی کی وجہ سے ان کے معاوضے میں بچت بہت کم رہ گئی ہے، یہ کام صرف اس لیے جاری رکھا ہوا ہے کہ گھروں میں بیٹھ کر روزگار مل جاتا ہے

یہ کام سات مختلف مراحل میں ہوتا ہے، جب کہ بیس پنکھے تیار کرنے کا معاوضہ دو سے ڈھائی سو روپے ملتا ہے، جس میں تمام اخراجات بھی ان خواتین کے ہوتے ہیں

مقامی خاتون روشن کہتی ہیں ”ہمارا مڈل مین اس میں زیادہ منافع نہیں رکھتا، اگر سرکاری سطح پر اس کام کی حوصلہ افزائی کی جائے یا اس کی مارکیٹنگ حکومتی سطح پر ہو تو ہی کچھ بہتری ممکن ہے کیونکہ عالمی سطح پر ماحول دوست اشیا کی اچھی مارکیٹ ہے“

ان خواتین سے پنکھے خرید کر مقامی مارکیٹ میں فروخت کرنے والے مقامی رہائشی علی گوہر مہر نے بتایا ”اس علاقے کے درجنوں دیہاتوں میں گھروں میں خواتین یہ کام کرتی ہیں، جن سے اسٹاک خرید کر مقامی مارکیٹ سمیت سکھر، خیرپور، ٹنڈوآدم کے بڑے ہول سیلرز کو بھجوایا جاتا ہے“

انہوں نے کہا ”بعض اوقات مجھے خواتین کو ایڈوانس رقم ادا کرنا پڑتی ہے تاکہ یہ خام مال خرید سکیں اور کچھ لوگوں کو خام مال بھی خرید کر دینا پڑتا ہے۔ ان دنوں خام مال اور ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات میں خاصا اضافہ ہوا ہے، اس کے باوجود مقامی تاجر قیمت اس حساب سے نہیں دیتے“

علی گوہر مہر کے مطابق مارکیٹ میں زیادہ مانگ سادہ پنکھوں کی ہوتی ہے

انہوں نے مزید بتایا کہ فی بنڈل جس میں دو درجن پنکھے ہوتے ہیں، پچاس سے ساٹھ روپے منافع رکھ کر مقامی مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے، جسے بعد میں ہول سیلر اور ریٹیلر اپنا منافع رکھ کر گاہکوں کو فروخت کر دیتے ہیں

سکھر نشتر روڈ میں دستی پنکھوں کے ہول سیل ڈیلر احسن نے بتایا ”یہ سارا سال چلنے والا آئٹم ہے، لیکن لوڈشیڈنگ اور حبس کے دنوں میں اس کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں مقامی دستی پنکھا بیس روپے کا ریٹیل میں فروخت ہوتا ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close