پی ڈی ایم کا احتجاج: عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش

ویب ڈیسک

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سپریم کورٹ کے باہر پی ڈی ایم کا دھرنا ختم کرتے ہوئے کہا ہے ”اگلی بار ایک دن کے نوٹس پر آ جائیں گے“

مولانا فضل الرحمان نے کہا ”اگر حکومت پر ناجائز ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو عوام کی پارلیمنٹ اُس کا تحفظ کرے گی مگر تمہیں اپنے تحفظ کی جگہ نہیں ملے گی“

نون لیگی رہنما مریم نواز نے کہا ہے ”چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال شرافت سے استعفیٰ دیں اور گھر چلے جائیں“

 کیا یہ سپریم کورٹ پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے؟

سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق نوے دنوں میں الیکشن کرانے کا آئینی حکم دیا لیکن اقتدار میں موجود جماعتیں فی الحال عوام کا موڈ دیکھ کر الیکشن میں جانے سے کترا رہی ہیں، اس لیے انہوں نے اس سیدھے سادے آئینی حکم کو ہی غیر آئینی قرار دینے کے لیے کمر کس لی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اور اسٹبلشمنٹ میں بھی ان کی پشت پر ہیں

یوں آئین کے بجائے اداروں کی بالادستی کی خواہش کی وجہ سے اب کثیرالجماعتی حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) بھی احتجاج پر ہے، لیکن اس نے احتجاج کے لیے سڑکوں کی بجائے سپریم کورٹ کی عمارت کو چُنا ہے

حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے مظاہرے پر ملک کے کئی حلقوں میں نہ صرف حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے بلکہ اس پر تبصرے اور تنقید بھی ہو رہی ہے۔ کچھ اس احتجاج کو سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کا ہتھکنڈا قرار دیتے ہیں جب کہ کچھ انتشار پھیلانے کی کوشش لیکن حکومتی جماعتوں کا موقف ہے کہ احتجاج ان کا حق ہے

واضح رہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اس مظاہرے کا اعلان جمعہ کو کیا تھا، جس کے بعد حکومت نے جے یو آئی ایف سے ’مذاکرات‘ کیے لیکن وہ احتجاج پر بضد رہے اور آج صبح دفعہ بظاہر ایک سو چوالیس کے نفاذ کے باوجود پی ڈی ایم کے کارکنان، جن میں اکثریت جے یو آئی ایف کی تھی، سرینا چوک سے سپریم کورٹ کی طرف روانہ ہوئے

ایک سو چوالیس نافذ ہونے کے باوجود اس موقع پر پولیس خاموش تماشائی بنی رہی اور کارکن برائے نام رکاوٹوں کو پھلانگتے ہوئے سپریم کورٹ کے پاس پہنچ گئے۔ احتجاج میں نون لیگی رہنما مریم نواز اور پی ڈی ایم کے دوسرے قائدین نے بھی شرکت کی

خیال کیا جاتا ہے کہ پی ڈی ایم نے نہ صرف اس احتجاج کے ذریعے سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی بلکہ آج پارلیمنٹ میں بھی خواجہ آصف، احسن اقبال اور اسد محمود سمیت اتحاد کے کئی رہنماؤں نے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس عطا عمر بندیال کو آڑے ہاتھوں لیا

پاکستان میں سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کی روایت نئی نہیں ہے۔ نوے کی دہائی میں نواز شریف کے دور حکومت میں ہی سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا تھا اور جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف سپریم کورٹ کے ججوں نے بغاوت کر دی تھی، جس کے بعد انہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا۔ پرویز مشرف کے دور میں بھی ججوں پر دباؤ ڈالا گیا اور انہیں عبوری آئین کے تحت حلف اٹھانے پر مجبور کیا گیا۔ مزید برآں سابق جسٹس نسیم حسن شاہ نے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ بھٹو کی سزائے موت کے حوالے سے عدالت پر دباؤ تھا

قانونی حلقوں سے وابستہ کئی ناقدین کا خیال ہے کہ موجودہ مظاہرہ بھی سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کا ہتھکنڈا ہے۔ حیران کن طور پر پی ٹی آئی کے سخت مخالف سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد بھی کہہ رہے ہیں کہ اس دباؤ کا خطرناک نتیجہ نکل سکتا ہے

جسٹس رث وجیہہ الدین احمد کہتے ہیں ”کسی بھی ملک میں سپریم کورٹ تنازعات کو حل کرنے کا آخری ادارہ ہوتا ہے۔ اس کے فیصلے کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں مجمع جمع کر کے سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے، جو ملک کو انتشار کی طرف لے کر جا سکتا ہے‘‘

جسٹس وجیہہ الدین کے مطابق ”امریکہ میں الگور اور جارج بش کے درمیان بھی انتخابات کے مسئلے پر تنازعہ ہوا تھا۔ عدالت نے بش کے حق میں فیصلہ دیا لیکن کیا وہاں سپریم کورٹ پر چڑھائی کی گئی یا اس کے باہر احتجاج کیا گیا۔ اس طرح کا رویہ انارکی کو دعوت دینے کے مترادف ہے‘‘

اس مظاہرے پر صرف وکلا برادری سے تعلق رکھنے والے ہی تنقید نہیں کر رہے ہیں بلکہ ایسی تنقید دوسرے حلقوں کی طرف سے بھی آ رہی ہے۔ کچھ سیاستدان اس احتجاج کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہیں۔ سابق گورنر پنجاب اور پی پی پی کے سابق سینیٹر سردار لطیف کھوسہ کا کہنا ہے ”موجودہ حکومت اس طرح کا احتجاج کر کے ایک خطرناک روایت قائم کر رہی ہے۔ میرے خیال میں یہ ریاست کے ایک اہم ستون پر حملہ ہے، جس کی آزادی کی ضمانت خود آئین پاکستان نے دی ہے۔ حکومت صرف الیکشن سے بھاگنا چاہتی ہے۔ اس لیے وہ سپریم کورٹ پر دباؤ ڈال رہی ہے اور عدلیہ کی آزادی پر ضرب لگا رہی ہے‘‘

سردار لطیف کھوسہ کہتے ہیں ”پی ڈی ایم کی حکومت دو آئینی احکامات سے روگردانی کر رہی ہے۔ ایک طرف یہ نوے دن میں انتخابات نہیں ہونے دے رہے، جو آئینی تقاضا ہے اور دوسری طرف یہ سپریم کورٹ کے حق تشریح کو چھیننے کی کوشش کررہے ہے، جو اسے آئین نے دیا ہے‘‘

تاہم پی ڈی ایم اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہے کہ وہ عدلیہ پر دباؤ ڈال رہی ہے یا اس پر اثر انداز ہورہی ہے۔ مظاہرہ میں موجود جمعیت علما اسلام کے مرکزی رہنما اور فضل الرحمٰن کے مشیر محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کے بقول ”چیف جسٹس ہمارے زیر اثر نہیں بلکہ عمران خان کے زیر اثر ہیں اور اس مجرم کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ ایک سال سے اس کی طرف داری کر رہے ہیں‘‘

جلال الدین کا کہنا تھا کہ مظاہرے کا مقصد دباؤ ڈالنا نہیں بلکہ جمہوری حق کا استعمال کرنا ہے

کیا دھرنے سے چیف جسٹس آف پاکستان کو ہٹایا جا سکتا ہے؟

پاکستان میں بر سر اقتدار درجن بھر سیاسی جماعتیں مولانا فضل الرحمٰن کی دعوت پر اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے میں شریک ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے مطابق یہ دھرنا غیر معینہ مدت کے لیے ہوگا اور اس وقت تک ختم نہیں ہوگا، جب تک چیف جسٹس آف پاکستان اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہو جاتے

ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا کہنا ہے ”حکومتی جماعتوں کے دھرنے کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ یہ دھرنا ایک ایسے وقت میں دیا جا رہا ہے، جب سپریم کورٹ اہم مقدمات سن رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے کا فیصلہ دیا تھا لیکن 14 مئی گزر گئی اور عدالت کے اس حکم پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ عدالت الیکشن کمیشن کی طرف سے اس فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست پر بھی سماعت کر رہی ہے۔“

ڈاکٹر عاصم سمجھتے ہیں کہ حکومتی شخصیات کو ڈر ہے کہ چیف جسٹس اس موقع پر توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز بھی کر سکتے ہیں

پاکستان کی ایک معروف قانون دان اور لاہور ہائی کورٹ کی سابق جج جسٹس ناصرہ جاوید کہتی ہیں ”اگر چند ہزار لوگوں کو اکٹھا کر کے چیف جسٹس کو گھر بھیجنے کی روایت ڈالی گئی تو پھر آئندہ کسی بھی چیف جسٹس کو اختلافی فیصلہ سنانے کی پاداش میں گھر بھیجنا مشکل نہیں ہوگا۔“

جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید کی رائے میں یہ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے اور مرضی کے فیصلے لینے کی ایک کاوش ہے۔ وہ کہتی ہیں ”اگر دونوں بڑے سیاسی فریق اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر لے آئے تو پھر تباہی کو ئی نہیں روک سکے گا۔ میرے خیال میں حالات خراب ہیں پاکستان ایک زمین بے آئین بنتا جا رہا ہے۔ اب پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔‘‘

عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ آمنے سامنے؟

پاکستان میں بعض مبصرین کا خیال ہے کہ طاقتور حلقوں نے موجودہ چیف جسٹس کو طویل عرصے کے لیے چھٹی پر چلے جانے یا عہدہ چھوڑ دینے کے لیے بھی دباؤ ڈالا تھا، لیکن انہوں نے اس دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کیا، جس پر ’حالات بگڑ گئے‘

ڈاکٹر عاصم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پاور پالیٹیکس اب اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اب لڑائی پی ڈی ایم اور عمران خان کی ہی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی دکھائی دے رہی ہے

ڈاکٹر عاصم سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کو عمران خان کے حامیوں کی صورت میں اسٹریٹ پاور کا سہارا مل گیا ہے، اب اس کا اثر زائل کرنے کے لیے حکومتی جماعتیں بھی اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی متمنی ہیں۔ ”اگر عدالت نے اس بحران کے خاتمے کے لیے کوئی درمیانی راہ نہ نکالی تو یہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہوگا دوسری طرف سپریم کورٹ پر حملے کی صورت میں آئینی بالا دستی ختم ہو جائے گی اور غیر قانونی راج کے امکانات بڑھ جائیں گے‘‘

سول سوسائٹی نیٹ ورک کے سربراہ عبداللہ ملک (ایڈوکیٹ) کا کہنا ہے ”چیف جسٹس آف پاکستان کو ہٹانے کے لیے ان کا ’مس کنڈکٹ‘ ثابت کرنا ہوگا اور اس ضمن میں ریفرنس حکومت صدر پاکستان کو بھیجے گی جو اسے چیف جسٹس کو بھجوائیں گے۔ سپریم جوڈیشل کونسل ہی وہ مجاز ادارہ ہے، جو اس بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے۔“

عبداللہ ملک کے مطابق، ایمرجنسی لگانا بھی اب آسان نہیں رہا ہے کیونکہ عدالتِ عظمیٰ ایک فیصلے میں ایمرجنسی لگانے کے شرائط و حالات کے بارے میں تفصیلات طے کر چکی ہے

یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب سرکاری و ملٹری املاک پر حملوں کے الزام میں پنجاب کے تین ہزار پانچ سو کارکنوں سمیت ملک بھر میں پاکستان تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری، اعجاز چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، فردوس شمیم، علی زیدی اور سیف اللہ نیازی سمیت پی ٹی آئی کے بہت سے مرکزی لیڈروں کی گرفتاری بھی عمل میں آ چکی ہے

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے ”اب لندن پلان تو کھل کر سامنے آچکا ہے۔ میں قید میں تھا تو تشدد کی آڑ میں یہ (حکومت) خود ہی جج، جیوری اور جلاد بن بیٹھے ہیں! منصوبہ اب یہ ہے کہ بشریٰ بیگم کو زندان میں ڈال کر مجھے اذیت پہنچائیں اور بغاوت کے کسی قانون کی آڑ لے کر مجھے آئندہ دس برس کے لیے قید کر دیں۔‘‘

عمران خان نے مذکورہ ٹویٹ میں پی ڈی ایم کے دھرنے کے بارے میں کہا ”سپریم کورٹ کے باہر فضل الرحمٰن والے تماشے کا واحد مقصد بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو مرعوب کرنا ہے تاکہ وہ آئینِ پاکستان کےمطابق کوئی فیصلہ صادر کرنے سے باز رہیں۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close