ایک جانب عالمی سطح پر تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا افراد کی شرح میں کمی ہو رہی ہے تو دوسری جانب پاکستان میں یہ تعداد ہر سال بڑھتی جا رہی ہے
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں سے ایک ہے اور مجموعی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب بھی زیادہ ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں، خاص طور پر نابالغوں کی صحت کو لاحق خطرات اس لیے زیادہ ہوتے جا رہے ہیں کہ وہاں تمباکو نوشی کم ہونے کے بجائے بڑھنے کا رجحان جاری ہے
عالمی ادارہِ صحت کے زیر اہتمام نوجوانوں میں تمباکو نوشی اور تمباکو مصنوعات کے استعمال کے رجحان سے متعلق جو بین الاقوامی سروے باقاعدگی سے کرایا جاتا ہے، وہ گلوبل یوتھ ٹوبیکو سروے کہلاتا ہے۔ گزشتہ برس کرائے گئے ایسے ایک عالمی سروے کے نتائج کے مطابق پاکستان میں روزانہ تقریباً بارہ سو ایسے نابالغ بچے تمباکو نوشی شروع کر دیتے ہیں، جن کی عمریں محض چھ سے پندرہ برس کے درمیان ہوتی ہیں
مجموعی طور پر پاکستان میں ہر سال تین لاکھ سینتیس ہزار سے زائد افراد براہ راست یا بالواسطہ طور پر تمباکو نوشی کی وجہ سے لگنے والی بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں صحت عامہ کے نظام کی حالت کسی بھی طرح تسلی بخش قرار نہیں دی جا سکتی۔ تعلیم کی طرح صحت کا شعبہ بھی حکومت کی جانب سے کم توجہ پانے والے شعبوں میں شامل ہے
ان حالات میں عام شہریوں میں تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والے طبی مسائل صحت کے شعبے پر اضافی مالی بوجھ کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس اضافی مالی بوجھ کی مالیت یقینی طور پر تین سو ارب روپے سے بھی زیادہ بنتی ہے
کم عمری میں تمباکو نوشی شروع کرنے کے اسباب
سماجی طور پر بہت سے پاکستانی بچوں کے کم عمری میں ہی تمباکو نوشی شروع کر دینے کے کئی اسباب ہیں۔ نفسیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ ان وجوہات میں دوستوں کا دباؤ، پریشان کن خاندانی اور معاشرتی حالات اور سماجی محرومی نمایاں ہیں۔ پھر جو عمل راہ فرار کے طور پر یا تفریح کے لیے شروع کیا جاتا ہے، وہ عمر بھر کی ایسی عادت بن جاتا ہے، جس سے نجات حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے
ایک اور کلیدی پہلو یہ بھی ہے کہ جب سگریٹ اور تمباکو کی دیگر مصنوعات ہر کسی کو ہر جگہ دستیاب ہوں، ان کی خریداری میں خریدار کا نابالغ ہونا عملی طور پر کوئی رکاوٹ ثابت نہ ہو، اس بارے میں قوانین و ضوابط اگر ہوں بھی مگر ان کا نفاذ یقینی نہ بنایا جائے، تو پھر نہ تو ملکی نوجوانوں کو اس لت سے بچایا جا سکے گا اور نہ ہی تمباکو نوشی کی سماجی طور پر حوصلہ شکنی کی جا سکے گی
سگریٹ نوشی کا تجربہ کس طرح نشے کی عادت بن جاتا ہے، اس بارے میں اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون کی رہائشی ستائیس سالہ رومیسہ نیازی بتاتی ہیں ”جب میں صرف بارہ سال کی تھی، تو کئی بار اپنے بھائی کے سگریٹ چرا کر پیتی تھی۔ یوں سگریٹ پینے کی عادت ہو گئی۔ گزشتہ کئی برسوں سے میں نے کئی بار یہ عادت ترک کرنے کی کوشش کی، لیکن کبھی کامیاب نہ ہو سکی‘‘
اسلام آباد ہی کی انیس سالہ شازیہ کومل کا کہنا ہے ”میری عادت ای-سگریٹ سے شروع ہوئی تھی، مگر اب بات بہت آگے نکل گئی ہے۔ دوستوں کے دیکھا دیکھی میں نے بھی ویپنگ اور ٹوبیکو پاؤچ کا استعمال شروع کیا، تو لگتا تھا کہ سب کچھ بےضرر ہے، کوئی نقصان نہیں ہوگا، لیکن ایسا سوچنا غلط تھا۔ اب مجھے سر درد، منہ میں چھالوں اور پیٹ میں تکلیف کا سامنا رہتا ہے۔ کئی طرح کے طبی مسائل ہیں لیکن میں تمباکو نوشی ترک نہیں کر سکی‘‘
اسلام آباد میں قائم ایک غیر حکومتی ادارے سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سید کوثرعباس کا کہنا ہے ”اب سگریٹ نوشی میں نت نئے ٹرینڈز متعارف ہو چکے ہیں۔ ویپنگ، ای سگریٹ اور ٹوبیکو پاؤچ، سبھی کچھ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اکثر شہروں کے مہنگے کاروباری اور رہائشی علاقوں میں ویپنگ شاپس نظر آتی ہیں جبکہ نکوٹین اور دیگر مضر صحت اجزا والے ٹوبیکو پاؤچ بھی عام دکانوں پر ٹوفیوں گولیوں کی طرح فروخت کیے جاتے ہیں‘‘
کوثر عباس نے بتایا کہ یہ تمباکو مصنوعات خاص طور سے مہنگے رہائشی علاقوں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے آس پاس چھوٹی چھوٹی دکانوں سے بھی مل جاتی ہیں
انہوں نے نابالغ بچوں کے حوالے سے کئی والدین کی لاپرواہی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک مثال بھی دی، ”حال ہی میں لاہور کے ایک اسکول میں نو دس سال کے کئی بچوں کے بیگز میں سے نکوٹین پاؤچز برآمد ہوئیں۔ اسکول انتظامیہ کی طرف سے جب ان بچوں کے والدین کو بلایا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ پاؤچ تو بالکل بے ضرر تھے، حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ تو ایسی لاعلمی اور غفلت بھی تو قابل افسوس ہیں‘‘
پاکستان میں سگریٹ نوشی کے رجحان کی موجودہ صورت حال پر اسلام آباد میں صارفین کے تحفظ کے ادارے دی نیٹ کے سربراہ ندیم اقبال کا کہنا ہے ”سگریٹ نوشی کے بارے میں بحث کا موضوع اب تبدیل ہو چکا ہے۔ اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سگریٹ نوشی ترک کرنے کے لیے جو راستے استعمال کیے جا رہے ہیں، وہ خود کتنے خطرناک ہیں‘‘
ندیم اقبال کہتے ہیں ”2014 میں تیرہ سے پندرہ سال تک کی عمر کے بچوں میں تمباکو نوشی کے رجحان سے متعلق سروے سے پتہ چلا تھا کہ اسکولوں میں زیرِ تعلیم تقریباً گیارہ فیصد لڑکے لڑکیاں تمباکو نوش تھے۔ تب ہر دس میں سے چھ بچوں نے کہا تھا کہ انہوں نے سگریٹ نوشی چھوڑنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ اس کی بڑی وجہ پاکستان میں حکومتی سطح پر بچوں کے لیے انسدادِ تمباکو نوشی پروگراموں کا نہ ہونا ہے‘‘
دی نیٹ کے سربراہ کے مطابق حکومت نے گزشتہ برسوں میں کچھ اچھے اقدامات کیے ہیں۔ مثلاﹰ اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد کو سگریٹ بیچنے پر پابندی لگا دی۔ انہیں کھلے سگریٹ نہیں بیچے جا سکتے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہ سگریٹ کا کوئی بھی پیکٹ بیس سے زیادہ سگریٹوں والا نہیں ہوگا، ہر پیکٹ پر کافی بڑی تنبیہی تصویریں بھی شائع ہوتی ہیں
تاہم ندیم اقبال کہتے ہیں ”یہ بات اب بھی یقین سے کون کہہ سکتا ہے کہ ان اقدامات سے نوجوانوں اور نابالغوں میں سگریٹ نوشی کی عملی حوصلہ شکنی ہوئی؟‘‘ انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ پاکستان میں تمباکو مصنوعات کی خریداری کے لیے کم سے کم عمر کی حد بڑھا کر اکیس سال کر دی جائے۔