شیریں مزاری کا سیاست چھوڑنے کا اعلان: ’پی ٹی آئی کی وکٹ نہیں گری، اسٹبلشمنٹ نے اون گول کیا ہے“

ویب ڈیسک

پی ٹی آئی کی سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی جانب سے پارٹی اور سیاست چھوڑنے کے فیصلے پر صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے رد عمل دیتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا اور ان حالات کی مذمت کی جن سے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران انہیں گزرنا پڑا

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ بارہ روز تک میری گرفتاری، اغوا اور رہائی کے دوران میری صحت کے حوالے سے اور میری بیٹی ایمان مزاری کو جس صورتحال اور آزمائش سے گزرنا پڑا، میں نے جیل جاتے ہوئے اس کی وڈیو بھی دیکھی، جب میں تیسری مرتبہ جیل جا رہی تھی تو وہ اتنا رو رہی تھی

ان کا کہنا تھا ”اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں متحرک سیاست چھوڑ رہی ہوں، میں آج سے پی ٹی آئی یا کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں رہوں گی، میرے بچے، میری والدہ اور میری صحت میری ترجیح ہیں، اب میں ان پر زیادہ توجہ دوں گی“

سینیئر سیاستدان شیریں مزاری کے یوں سیاست کو الوداع کہنے پر جہاں پاکستان تحریک انصاف کے حامی اور کارکن دکھی ہیں، وہیں ان کے مخالفین بھی رسمی طور پر ہی سہی، لیکن بولنے پر مجبور ہیں

شیریں مزاری کا نام اس وقت پاکستان میں ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈز میں سے ایک ہے اور صارفین ان کے پارٹی چھوڑنے کے عمل پر تبصرے کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں

جنوبی ایشیائی امور کے تجزیہ کار اور امریکی اسکالر مائیکل کوگل مین نے شیریں مزاری کے پی ٹی آئی چھوڑنے کے فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”اسٹیبلشمنٹ پارٹی پر ہر سطح پر شکنجہ سخت کرتی جا رہی ہے“

ٹوئٹر پر اپنے بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا ”شیریں مزاری کا پی ٹی آئی چھوڑنا پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ حالیہ دنوں میں پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے دباؤ میں استعفیٰ دیا ہے، لیکن شیریں مزاری جیسا سینئر کوئی نظر نہیں آیا“

پاکستان اینکرپرسن محمد مالک نے ایک ٹویٹ میں لکھا ”جس طریقے سے شیریں مزاری کو پارٹی اور سیاست چھوڑنے پر قائل کیا گیا افسوسناک ہے۔ ان سے لاکھوں معاملات پر اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن کوئی بھی ان کی خود داری اور ان کے انسانی حقوق کے حوالے سے مؤقف پر سوال نہیں اُٹھا سکتا“

انہوں نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا ”شیریں مزاری نے کچھ کہے بغیر حقیقت میں بہت کچھ کہا جب انہوں نے اپنی بیٹی کی بارہ دن کی حالت زار کو اپنی ترجیحات کو درست کرنے کی بنیادی وجہ قرار دیا، اصل سوال یہ ہے کہ ان کی بیٹی کو ان تمام مصائب سے کیوں گزرنا پڑا“

“کیا ان کا پارٹی چھوڑنا ان کی پارٹی کا نقصان ہے؟ ہاں ایک بڑا نقصان ہے لیکن ان کا یہ فیصلہ قومی سیاست اور پاکستان میں انسانی حقوق کی تحریک کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔“

شمع جونیجو نے کہا کہ ’ڈاکٹر شیریں مزاری جیل میں ایک ہفتے میں ہمت ہار گئیں اور دباؤ میں پی ٹی آئی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ میرا نہیں خیال کہ زبردستی علیحدگی کروانے سے ریاست کو کوئی فائدہ ہوگا۔ وہ پی ٹی آئی کی سکہ بند رہنما ہیں اور ہمیشہ رہیں گی“

قیصر زمان نامی صارف نے شیریں مزاری کے حوالے سے لکھا ”جب ہم کھیلوں کے استعارے استعمال کر رہے ہیں تو یہ پی ٹی آئی کی وکٹ گرنے کا معاملہ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ نے اون گول کر دیا ہے“

پی ٹی آئی سے منسلک کارکُن شاہزیب ورک نے لکھا ”وہ شیریں مزاری جنہیں کبھی پریس کانفرنس میں کسی پرچے کا استعمال کرتے ہوئے نہیں دیکھا وہ میڈیا سے گفتگو کے دوران نیچے کسی چیز کو دیکھ رہی ہیں“

سینئر صحافی حامد میر نے نجی نیوز چینل جیو سے بات کرتے ہوئے ان کے سیاست چھوڑنے کے فیصلے کو ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے بہت بڑا نقصان قرار دیا

اینکر پرسن شاہ زیب خانزادہ نے بھی پی ٹی آئی کی سابق رہنما کے اعلان پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے جمہوریت کے لیے ’شرمناک‘ دن قرار دیا

شاہ زیب خانزادہ نے کہا کہ وہ 72 سالہ خاتون ہیں، آپ کے ان کے ساتھ اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن آپ انہیں بار بار جیل میں نہیں ڈال سکتے، انہیں ضمانت دی گئی کہ وہ پارٹی چھوڑ دیں

سیاسی تجزیہ کار مشرف زیدی کہتے ہیں ”یہ پیشرفت حکومت، فوج اور ملک بھر کے لیے مکمل رسوائی ہے“

نیویارک ٹائمز کے پاکستان میں نمائندے سلمان مسعود نے کہا کہ شیریں مزاری کا فیصلہ واضح طور پر جبر اور دباؤ کے تحت تھا

وزیر اعظم شہباز شریف کے سابق معاون خصوصی فہد حسین نے کہا کہ شیریں مزاری کے فیصلے کی وجوہات ’حقیقی‘ ہیں

صحافی مہرین زہرہ ملک نے امید ظاہر کی کہ شیریں مزاری سیاست سے عارضی چھٹی لے رہی ہیں

ٹوئٹر پر جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ سیاست سے ان کی مستقل کنارہ کشی ایک بہت بڑا نقصان ہوگا، پاکستان کو سیاست میں ان جیسے لوگوں کی ضرورت ہے، آج اس ملک کے لیے واقعی دکھی ہوں

تجزیہ نگار اور صحافی مظہر عباس نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے لیے امتحان کی گھڑی ہے

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پی ٹی آئی رہنماؤں کی طرف سے پارٹی اور سیاست چھوڑنے کے اعلان پر مظہر عباس نے کہا کہ اگرچہ یہ ہماری جلی ہوئی سیاسی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ وقت ماضی سے کچھ سبق سیکھنے کا ہے

اسی دوران وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے کبھی سیاسی بنیادوں پر کی گئی گرفتاریوں کی حمایت نہیں کی لیکن پی ٹی آئی رہنماؤں کو جن بھی مسائل کا سامنا ہے، وہ ان کا اپنا کیا دھرا ہے

شیریں مزاری کے سیاست چھوڑنے پر پی پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ جیسا عمل ہوتا ہے ویسا رد عمل سامنے آتا ہے، یہ صورتحال دیکھ کر کوئی خوش نہیں ہوتا لیکن 9 مئی کو ریڈ لائن عبور کر لی گئی

اس پیشرفت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما تیمور جھگڑا نے کہا کہ شیریں مزاری پی ٹی آئی کے وعدوں پر حقیقی معنوں میں یقین رکھتی تھیں

ان کا کہنا تھا ”ان تمام لوگوں کو مبارک جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کا اس طرح سیاست چھوڑنا ہماری سیاست کو آگے لے جائے گا۔“

شیریں مزاری کی گرفتاری

شیریں مزاری کو سب سے پہلے 12 مئی کو دارالحکومت کی پولیس نے 9 مئی کے احتجاج کے بعد مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس کے تحت ان کے اسلام آباد میں واقع گھر سے گرفتار کیا تھا

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 16 مئی کو ان کی رہائی کا حکم دیا اور ان کی نظر بندی کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دے دیا تاہم پولیس نے انہیں اڈیالہ جیل کے باہر سے دوبارہ گرفتار کر لیا

17 مئی کو اسلام آباد کی سیشن عدالت نے انہیں اسلحے سے متعلق کیس میں بری کر دیا اور انہیں رہا کرنے کا حکم دیا، بعد ازاں اسی روز انہیں تیسری مرتبہ پنجاب پولیس نے ان کے گھر سے گرفتار کر لیا

لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے 22 مئی کو ان کی نظر بندی کا حکم نامہ کالعدم قرار دیتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد گجرات پولیس نے انہیں چوتھی بار اڈیالہ جیل کے باہر سے گرفتار کیا

آج پریس کانفرنس سے قبل گجرات کی عدالت کی جانب سے ان کی رہائی کے حکم کے چند لمحوں بعد ہی شیریں مزاری کو بغیر نمبر پلیٹ ویگو میں لے جایا گیا جس پر پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ یہ ان کی پانچویں گرفتاری ہے

پی ٹی آئی چھوڑنے سے انکار پر شاہ محمود قریشی پھر گرفتار

دوسری جانب پی ٹی آئی چھوڑنے سے انکار پر پنجاب پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو ایک بار پھر گرفتار کرلیا ہے۔ تحریک انصاف کے ایک اور رہنما مسرت جمشید اور جمشید چیمہ کو بھی رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار کر لیے گئے ہیں

مقامی پولیس کے مطابق انھیں خدشہ تقض امن کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر سے گرفتار کیا گیا ہے

گرفتاری سے قبل صحافی کے پارٹی چھوڑنے سے متعلق دباؤ کے بارے میں سوال پر شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ وہ پارٹی میں تھے اور انشاءاللہ رہیں گے

خیال رہے کہ منگل کی صبح اسلام آباد ہائی کورٹ نے شاہ محمود قریشی کی رہائی کا حکم دیا تھا اور عدالت نے انھیں حکم دیا تھا کہ وہ بیان حلفی جمع کروائیں کہ وہ آئندہ ایسی کسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوں گے

شاہ محمود قریشی کی بیان حلفی جمع کرانے پر رہائی ممکن ہو سکی مگر جیسے ہی وہ جیل کے گیٹ سے باہر نکلے تو انہیں پنجاب پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا

اس سے قبل ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں بھی گردش کرتی رہیں کہ شاہ محمود قریشی کو حکام نے مشروط ضمانت دینے کی پیشکش کی تھی، جس میں انہیں ایک اقرار نامے پر دستخط کرنا تھے لیکن انہوں نے یہ شرط تسلیم نہیں کی۔ تاہم آزاد ذرائع سے اس خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں اور کارکنان کی طرح وائس چیئرمین تحریک انصاف شاہ محمود قریشی کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک پر جنگل کا قانون مسلط ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا راج ہے۔ ان کے مطابق موجودہ اندھیرنگری کے خلاف صرف عدلیہ رکاوٹ ہے۔ ان کے مطابق آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ تحریک انصاف کو تتربتر کرنے کے لیے پولیس کا استعمال کیا جا رہا ہے اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ میڈیا کی آواز دبا دی گئی ہے جبکہ سوشل میڈیا کارکنان کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں

عمران خان نے کہا کہ عمران ریاض کو عدالتی احکامات کے باوجود پیش نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس دھکتی گرمی میں ہمارے کارکنان کو بہت چھوٹے سیل میں رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جبکہ کچھ کارکنان پر دوران حراست تشدد بھی کیا جا رہا ہے

انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس ظلم کے خلاف آخری سانس تک لڑیں گے

پی ٹی آئی شدید ریاستی عتاب کی زد میں

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت کی گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی تھما نہیں جبکہ اس جماعت کے چیئرمین عمران خان اپنے بیانات میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے پچیس کارکن قتل اور دس ہزار سے زیادہ کارکن گرفتار کیے جا چکے ہیں

پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ میں تیزی 9 اور 10 مئی کو ہونے والے پُرتشدد مظاہروں کے بعد لائی گئی اور متعدد رہنماؤں کو ان کے گھروں سے گرفتار کر لیا گیا

متعدد رہنماؤں کے ساتھ ایسا بھی ہوا کہ جب وہ ایک مقدمے میں جیل سے ضمانت پر رہا ہوئے تو گیٹ کے باہر انہوں نے کسی اور تھانے کے پولیس کو اپنا منتظر پایا۔
یوں جیل سے نکلتے ہی انہیں دوسرے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا

اس ماحول میں جہاں تحریک انصاف کی اعلیٰ سطح کی قیادت سلاخوں کے پیچھے ہے وہیں ایک بڑی تعداد منظر عام سے غائب ہے

فواد چوہدری کا شمار پاکستان تحریک انصاف کے بلند آہنگ رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ پارٹی کے ترجمان ہیں جو ہر قسم کے میڈیا پر کافی زیادہ سرگرم رہتے ہیں۔ انہیں 10 مئی کو گرفتار کیا گیا جس کے چند دن بعد اسلام آباد ہائی کورٹ سے ان کی ضمانت ہوئی۔ 16 مئی کو ضمانت پر رہائی کے بعد وہ عدالت سے باہر آ رہے تھے کہ ان کی نظر سامنے سے آنے والی پولیس پر پڑ گئی تو وہ پلٹ کر عدالت میں چلے گئے اور ضمانت کی منظوری کا تحریری حکم موصول ہونے تک عدالت ہی میں پناہ لیے رہے

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سیکریٹری جنرل اسد عمر امن عامہ کی بحالی کے قانون (ایم پی او) کے تحت گرفتار ہیں

کراچی سے گرفتار ہونے والے تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی دو دن قبل نے عدالت میں پیشی کے دوران میڈیا کے نمائندوں سے مختصر بات چیت لیکن لیکن انہوں نے پارٹی چھوڑنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا

فردوس شمیم نقوی کو کراچی سے سکھر جیل منتقل کیا گیا ہے تاہم ان کے اہل خانہ نے ان کی صحت کے مسائل کی بنیاد پر عدالت میں درخواست دائر کی ہے کہ انہیں کراچی ہی میں رکھا جائے

علی زیدی سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کراچی کے اہم رہنما ہیں۔ گرفتار ہونے کے بعد انہوں نے بھی 9 اور 10مئی کے پُرتشدد واقعات کی مذمت تو کی لیکن پارٹی سے علیحدگی کا اعلان نہیں کیا بلکہ اس خیال کو مسترد کیا

ان کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ انہیں کراچی سے جیکب آباد جیل منتقل کیا گیا ہے جبکہ ان کے اہل خانہ نے کراچی کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ انہیں جیل مینوئل کے مطابق سہولیات دی جائیں

تحریک انصاف کی رہنما مسرت جمشید چیمہ اور ان کے شوہر جمشید چیمہ بھی اس وقت گرفتار ہیں تاہم وہ کس جیل میں ہے، یہ واضح نہیں ہے۔ پیر کو ان کی وکیل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عندیہ ظاہر کیا تھا کہ امکان ہے کہ مسرت جمشید چیمہ اور ان کے شوہر رہائی کے بعد پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر دیں

پی ٹی آئی کے رہنما شہریار آفریدی کو 16 مئی کو اسلام آباد میں واقع ان کے گھر سے اہلیہ سمیت گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انہیں بھی تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
دو دن بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے نتیجے میں ان کی اہلیہ کو رہا کر دیا گیا تھا

تحریک انصاف لاہور کے رہنما اعجاز چوہدری اور میاں محمودالرشید گرفتار ہیں۔ اعجاز چوہدری کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں جبکہ محمود الرشید لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں دہشت گردی کے مقدمے کے تحت ریمانڈ پر ہیں

فیاض الحسن چوہان نے کئی دن کی خاموشی کے بعد منگل کی شام اپنی خاموشی توڑ دی اور اسلام آباد پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان پر شدید تنقید کرتے ہوئے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھا

جب سے تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کی گرفتاریاں شروع ہوئی ہیں، مختلف صوبوں سے چند رہنماؤں نے پریس کانفرنسیں کر کے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے

پارٹی چھوڑنے والوں کی اکثریت کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔ اسی طرح یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ سب سے زیادہ کارکن اور رہنما بھی پنجاب ہی سے گرفتار ہوئے ہیں

دوسری جانب بہت سے رہنما ایسے بھی ہیں جو گرفتار بھی نہیں ہوئے لیکن منظر عام پر بھی نہیں۔ ان رہنماؤں میں پی ٹی آئی کے صدر پرویز الٰہی، پرویز خٹک، سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان، سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، شبلی فراز، شاہ فرمان، عاطف خان، سینیٹر فیصل جاوید، مراد سعید اور زرتاج گل وزیر کے نام شامل ہیں

شفقت محمود، تیمور جھگڑا اور فرخ حبیب بھی منظر سے غائب تھے تاہم پیر کو شفقت محمود کی زمان پارک میں عمران خان سے ملاقات کی اطلاعات ملی تھیں۔ فرخ حبیب بھی ٹوئٹر تک محدود دکھائی دیتے ہیں

پشاور کے ایک سینیئر صحافی کے بقول پختونخوا کے کچھ اہم رہنما اس وقت اپنے آبائی علاقوں میں بار بار اپنی جگہ تبدیل کر رہے ہیں۔
اس وقت صورت حال یہ ہے پولیس کی جانب سے یہ معلومات نہیں دی جا رہیں کہ تحریک انصاف کے گرفتار کارکنوں اور رہنماؤں میں سے کون کس جیل میں قید ہے

گرفتار کارکنوں اور رہنماؤں کے اہل خانہ عدالتوں سے رجوع کر کے درخواستیں دائر کر رہے ہیں کہ انہیں اپنے عزیزوں کی خلاف درج مقدمات کی تفصیل اور ان کے مقام سے متعلق بتایا جائے

دوسری جانب اخبارات اور ٹی وی چینلز پر حکومت کی جانب سے ان تمام افراد کی تصاویر اور وڈیوز پر مبنی اشتہارات نشر کیے جا رہے ہیں جن پر 9 اور 10 مئی کے ہنگاموں میں جلاؤ گھیراؤ اور تشدد کا الزام ہے

قبل ازیں پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ فوجی املاک پر حملوں کے ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے شروع ہونے والی ہلچل اب ان کے پارٹی کے وجود کے لیے چیلنج بن چکی ہے

عمران خان سوشل میڈیا کے استعمال اور غیرملکی میڈیا کو انٹرویوز کے ذریعے اپنی بات کر رہے ہیں لیکن گراؤنڈ تک ان کے بیانیے کو پہنچانے والی کم و بیش تمام نمایاں رہنما یا تو گرفتار ہو چکے ہیں یا پھر انہوں نے گھمبیر قسم کی خاموشی اختیار کر لی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close