مہنگے پان، نسوار اور سگریٹ۔۔ بھاری ٹیکسوں سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے؟

ویب ڈیسک

پاکستان میں سالانہ بجٹ میں سگریٹ، پان اور مشروبات پر ٹیکس بڑھانا ہر حکومت کا معمول رہا ہے اور اس اقدام کی حمایت میں حکومتی حلقے اور صحت عامہ کے لیے سرگرم سماجی تنظیمیں یہ دلیل دہراتی ہیں کہ اس سے تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے

رواں برس فروری میں پاکستان کی اتحادی حکومت نے مِنی بجٹ پیش کیا تھا، جس میں دیگر اشیا کے ساتھ ساتھ سگریٹ، پان اور دیگر مشروبات کی قیمتوں میں بھی بڑا اضافہ کر دیا گیا تھا۔ سگریٹ کی قیمت دگنی ہو جانے کے بعد جہاں تمباکو نوشی کرنے والے افراد مشکل کا شکار نظر آئے تو وہیں پرچون فروش بھی حکومت کے اس فیصلے سے نالاں دکھائی دیے

بھاری فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد ہونے کے بعد سگریٹ اور پان کے کاروبار سے وابستہ پرچون فروشوں کا کہنا تھا کہ ان کی سِیل میں کمی ہو گئی ہے

جہاں تک سگریٹ صارفین کا تعلق ہے تو وہ بھی متبادل کی تلاش کرنے لگے۔ پھر ہوا یوں ہے کہ مارکیٹ میں کچھ نئے ناموں والے نسبتاً سستے سگریٹ بھی نظر آنے لگے۔
ان سستے سگریٹوں کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ یا تو اسمگل ہو کر آئے ہیں یا پھر مقامی مارکیٹ میں تیار کیے گئے ہیں لیکن ان پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا

اس حوالے سے اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس کے کچھ ریٹیلرز کا کہنا ہے کہ فروری میں جب سگریٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو اس کا ہمارے کاروبار پر بہت زیادہ اثر پڑا

ایک دکاندار محمد شفیق (فرضی نام) کا کہنا تھا ’جب سگریٹ کی قیمت دگنی ہوئی تو ہمارے گاہکوں میں پچاس فیصد کمی آ گئی۔ اس کے بعد لوگ امپورٹڈ (سمگل ہو کر آنے والے) سگریٹ تلاش کرنے لگے۔‘

انہوں نے بتایا ’پھر مارکیٹ میں اسمگل ہو کر آنے والے سگریٹ آنے لگے لیکن اس کے بعد ایکسائز والوں نے چھاپے مارنا شروع کر دیے، اس لیے ہم ایسے سگریٹ رکھنے کا رِسک نہیں لے سکتے۔‘

ایک اور ریٹیلر نے بتایا ’اگر ہم بیس ہزار کے امپورٹڈ سگریٹ خریدیں تو توقع ہوتی ہے کہ اس سے چار پانچ ہزار روپے کما لیں گے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایکسائز والے چھاپہ ماریں تو وہ نہ صرف یہ کہ تمام سگریٹ ضبط کر لیتے ہیں بلکہ بیس ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کر دیتے ہیں۔۔ اس لیے چار پانچ ہزار کی لالچ میں پچیس تیس ہزار کا نقصان کون چاہے گا۔‘

انہوں نے بتایا ’ابھی کل ہی ایکسائز والوں نے کچھ دکانوں پر چھاپے مارے اور انہوں نے غیرقانونی سگریٹ بیچنے والوں پر بھاری جرمانے عائد کر دیے۔‘

ریٹیلر محمد شفیق کے مطابق ’کچھ کمپنیوں نے اپنے سگریٹ کی قیمت میں کمی کی ہے جس کے بعد گاہک پرانے برانڈز کی جانب لوٹنے لگے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ شاید کچھ دنوں میں سگریٹ کی قیمت مزید بھی کم ہوگی۔‘

بدھ کو لاہور میں آل پاکستان مرکزی یونین پان سگریٹ مشروبات ریٹیلزر نے بھی ایک مظاہرہ کیا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر اس مظاہرے میں شریک ریٹیلرز کی تصاویر موجود ہیں۔ انہوں نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر حکومت سے قانونی سگریٹ پر’غیرمعمولی ٹیکس‘ ختم کرنے جیسے مطالبے درج تھے

مظاہرین کا کہنا تھا ’قانونی سگریٹ کی فروخت میں کمی سے سات لاکھ ریٹیلرز کا روزگار متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔‘

مظاہرے میں شریک پان سگریٹ یونین کے جنرل سیکریٹرل خالد سعید کا کہنا تھا ’یہ ٹیکس فروری میں لگا ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہوئی ہے۔ جب ریٹ دگنے ہوئے تو ہمارے گاہک کم ہو گئے تو ہمارا روزگار بالکل زیرو ہو گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا ’ہمارے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ اس لیے اب یہ ایکسائز ڈیوٹی جو مِنی بجٹ میں لگائی گئی تھی واپس لی جانی چاہیے تاکہ پرانے ریٹس بحال ہوں۔‘

اس حوالے سے بدھ کو ٹوئٹر پر کچھ دیر کے لیے ’ریٹیلرز کو حق دو‘ ہیش ٹیگ بھی ٹاپ ٹرینڈ کرتا رہا، لیکن پھر چند گھنٹے بعد یہ ٹرینڈ غائب ہو گیا

فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کی ویب سائٹ پر ان کمپنیوں کی فہرست دی گئی ہے جو قانونی طور پاکستان میں سگریٹ سازی کی صنعت سے وابستہ ہیں

اس فہرست میں دس کمپنیوں کے نام ہیں، جن میں پاکستان ٹوبیکو کمپنی، فلپس مورس پاکستان لمیٹڈ، خیبر ٹوبیکو کمپنی، سرحد سگریٹ انڈسٹریز، انٹرنیشنل سگریٹ انڈسٹریز، یونیورسل ٹوبیکو کمپنی، سوینر ٹوبیکو کمپنی، ایشیا ٹوبیکو کمپنی، رائل ٹوبیکو کمپنی اور انڈس ٹوبیکو کمپنی شامل ہیں

یہ تمام کمپنیاں مخلتف ناموں اور برانڈز کے سگریٹ مقامی سطح پر تیار کرتی ہیں

صحت عامہ کے حوالے سے سرگرم غیرسرکاری تنظیم ’کرومیٹک‘ کے پروگرام منیجر طیب رضا کہتے ہیں ’آج ٹوئٹر پر ریٹلرز کے حق کے حوالے سے جو ٹرینڈ چلایا گیا وہ کسی تمباکو ساز کمپنی کی جانب سے چلایا گیا تھا جو کچھ ہی دیر میں غائب ہو گیا تھا۔‘

انہوں نے کہا ’سگریٹ پر حکومت کی جانب سے ٹیکس لگانے کا فیصلہ بالکل درست ہے کیونکہ لوگوں کی زندگیاں زیادہ اہم ہیں

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ ستر ہزار افراد سگریٹ نوشی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
طیب رضا نے مزید بتایا کہ ’تمباکو انڈسٹری ایک سو سے دو سو ارب کا ٹیکس دینے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن یہ ٹیکس بھی حقیقت میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں لوگوں کی جیبوں سے لیا جاتا ہے‘

’یہ انڈسٹری تو صرف چار پانچ ارب کا ٹیکس ادا کرتی ہے‘

’ایف بی آر نے اب ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم متعارف کرایا ہے جو 70 فیصد ریٹیلرز کا احاطہ کر رہا ہے۔ باقی 30 فیصد بھی ہو جائے گا۔ یہ اچھا ہے۔‘

انہوں نے کہا ’سگریٹ کا شمار بنیادی انسانی ضروریات میں نہیں ہوتا۔ اگر لوگ سگریٹ کم پئیں گے تو بیماریوں میں کمی آئے گی۔‘

خیبر پختونخوا، نسوار کی قیمت میں اضافے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان

صوبہ خیبر پختونخوا میں بنوں، لکی مروت، وانا اور جنوبی اضلاع میں تمباکو ڈیلروں کے ساتھ معاہدے کے بعد نسوار کی قیمت بیس روپے سے بڑھا کر تیس روپے دی گئی ہے

مہنگائی کی وجہ سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کے بعد خیبر پختونخوا میں اب نسوار کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ مقامی ڈیلروں نے تمباکو پر ٹیکس لگنے کے بعد حکومت سے قیمتوں پر نظرثانی کی اپیل کی جس پر انتظامیہ نے قیمت بڑھانے کی تجویز مسترد کر دی

انتظامیہ کے ساتھ متعدد بار مذاکرات کی ناکامی کے بعد تمباکو ڈیلروں اور نسواروں فروشوں نے آپس میں ایک معاہدہ کیا جس کے تحت نسوار کی قیمت میں دس روپے کا اضافہ کر کے بیس روپے کی پڑیا تیس روپے کی کر دی گئی

معاہدے پر ضلع بنوں، لکی مروت، ٹانک، وانا، میرعلی، کوہاٹ اور جنوبی اضلاع کے دیگر بازاروں کے نسوار فروشوں نے دستخط کیے

بنوں کے نسوار فروش مکمل شاہ نے بتایا کہ مہنگائی کی شرح بڑھ رہی ہے اور نسوار کی وہی پرانی قیمت چل رہی ہے حالانکہ تمباکو پر ٹیکس کی وجہ سے ہمیں فائدے کی بجائے نقصان ہو رہا ہے

انہوں نے کہا کہ کیمیکل کا ریٹ اور بجلی کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے ’مزدورں کو جو پہلے دیہاڑی دیا کرتے تھے اب اس سے زیادہ دینی پڑ رہی ہے اب یا نسوار کا وزن کم کرنا تھا یا اس کی قیمت بڑھانی تھی۔ ہم نقصان کے لیے تو کاروبار نہیں کرتے ہیں۔ انتظامیہ کو کچھ تو سوچنا چاہیے آخر یہ بھی ایک کاروبار ہے، تاجروں سے مل کر یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے۔‘

مکمل شاہ نے مزید کہا کہ بازار میں بیس روپے کی پڑیا بھی دستیاب ہے لیکن اس کا وزن کم کر دیا گیا ہے

تاجروں نے معاہدے کے بعد نیا نرخ نامہ جاری کر دیا ہے جس کے مطابق فی کلو نسوار 350 روپے، آدھا کلو 180 روپے اور پاؤ 90 روپے میں دستیاب ہوگی

دوسری جانب انجمن تاجران بنوں کے رہنما بنگش صاحب نے نسوار کی نئی قیمت کو مسترد کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ کنزیومر کورٹ میں نسوار کی قیمت کے خلاف رٹ دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے

انہوں نے ضلعی انتظامیہ سے درخواست کی کہ نسوار کی خود ساختہ قیمت بڑھانے والے دکان داروں کو سیل کیا جائے

ان کا کہنا تھا کہ لوگ پہلے ہی مہنگائی سے پریشان ہیں، اب ان کو نسوار کی قیمت بھی زیادہ دینی پڑے گی

واضح رہے کہ آخری دفعہ نسوار کی قیمت اکتوبر 2021 میں بڑھا کر 20 روپے فی پوڑی کی گئی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close