ایک مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ماضی یا حال میں حکمران جو بھی مظالم کرتے ہیں، اس کی انہیں کوئی سزا نہیں ملتی۔ ان کی اپنی فوجی طاقت اور اثر و رسوخ ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے
انگریز مورخ لارڈ ایکٹن نے ایک جگہ لکھا ہے کہ تاریخ میں جن حکمرانوں نے لوگوں پر مظالم ڈھائے، ان کا قتل عام کیا اپنے مخالفوں کی گردنیں اُڑائیں اپنے عہد میں ان کو جرائم کی جو انہوں نے کیے کوئی سزا نہیں مل سکی، کیونکہ یہ لوگ طاقتور تھے اور کسی عدالت کو اختیار نہ تھا کہ ان پر مقدمہ چلائے۔ لیکن اب وقت گزرنے کے بعد ان حکمرانوں کے جرائم لوگوں کے سامنے لانے کی بات کی جا رہی ہے۔ اگرچہ یہ اپنے وقت میں جرائم پر سزا نہیں پا سکے تو تاریخ ان کو یہ سزا دے۔ بیربر بیورنیج نے اپنی کتابHistory, Memory, and State-sponsered voilence یعنی ”تار یخ، یادداشت اور ریاستی تشدد‘‘ میں ماضی کے بارے میں دو رائے دی ہیں
پہلی رائے: ماضی کی واپسی نہیں ہوتی، ماضی میں جو کچھ ہو گیا اسے دہرایا نہیں جا سکتا۔ اس لیے ماضی کے واقعات کو بھلا دینا چاہیے اور اس میں ہونے والے واقعات کی کتاب کو بند کر دینا چاہیے۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ماضی اور حال میں ایک تسلسل ہے۔ ماضی میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر حال کے واقعات پر بھی ہوتا ہے۔ ماضی کے بغیر حال کو نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ ان دو نقطہ ہائے نظر کے تحت سیاست دان اور مورخ تار یخ کو بیان کرتے ہیں۔ مثلا وہ سیاست دان اور امرأ جنہوں نے اپنے دور حکومت میں مظالم کیے تھے۔ لوگوں کو اذیتیں دی تھیں۔ قید و بند کی سزائیں دی تھیں اور انہیں جان سے مارا تھا۔ وہ اس بات کو کہتے ہیں کہ ماضی کی واپسی نہیں ہو سکتی، جو جرائم ماضی میں ہوئے تھے، وہ ماضی کا حصہ بن کر ختم ہو گئے۔ اس کی مثال چلی کے پینوچے آگستو کی ہے، جس نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر فوجی حکومت قائم کی اور سیاسی مخالفوں کا قتل عام کرایا۔ جب اس کی آمرانہ حکومت مستحکم ہو گئی تو اس نے یہ اعلان کیا کہ ماضی کو فراموش کر دینا چاہیے اور ترقی کے لیے مستقبل کی جانب دیکھنا چاہیے۔ مقصد یہ تھا کہ اس کے جرائم کو بھول کر اسے ایک نئے رہنما کی شکل میں دیکھا جانا چاہیے۔ ایک ایسا رہنما، جو ملک کے مستقبل کو سنوارے گا
اس کی دوسری مثال جنوبی افریقہ کے صدر فریڈرک ڈی ولم کلرک کی ہے۔ جب Aparthied حکومت کا خاتمہ ہوا تو انہوں نے بھی یہ اعلان کیا تھا کہ ماضی کی تلخیوں کو بھول جانا چاہیے۔ لیکن دوسری جانب وہ سیاست دان اور دانش ور بھی تھے، جن کا کہنا تھا کہ اگر ماضی کے جرائم کو نظر انداز کر دیا گیا یا بھلا دیا گیا تو اس صورت میں آنے والے آمر اور فوجی حکمران یہ مظالم بار بار کر یں گے۔ اس لیے ان کے جرائم کو تار یخ کا حصہ بنا کر انہیں زندہ رکھنا چاہیے
بیربر بیورنیج نے اپنی کتاب میں تین ملکوں کا تذکرہ کیا ہے، جہاں فوجی آمروں نے عوام پر مظالم ڈھائے تھے اور جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ یہ ارجنٹائن، جنوبی افریقہ اور سیرا لیون ہیں۔ ارجنٹائن میں فوجی آمر نے 1966ء میں اپنے اقتدار کے دوران، فوجی حکومت کی مخالفت کرنے والے کئی سو لڑکے اور لڑکیوں گرفتار کروایا تھا۔پھر ان کے بارے میں کوئی اطلاع بھی نہ دی گئی۔ 1976ء میں جب ارجنٹائن میں فوجی حکومت کا خاتمہ ہوا اور جمہور یت آئی اور فوجیوں کے جرائم کا جائزہ لینے کے لیے ایک Truth and Reconciliation نامی ایک کمیشن تشکیل دیا گیا۔ اس کمیشن نے ایک رپورٹ مرتب کی جن میں فوجی جرنیلوں اور افسروں کے جرائم کی تفصیلات تھیں۔ اگرچہ ان پر مقدمات چلائے گئے مگر سزا کسی کو بھی نہیں دی گئی۔ لیکن اس موقع پر ان لڑکوں اور لڑکیوں کی ماؤں نے جنہیں غائب کر دیا گیا تھا، متحد ہو کر مظاہرے شروع کیے کہ ان کے بچوں کو واپس لایا جائے۔ ماؤں کے یہ مظاہرے دنیا بھر میں مشہور ہوئے اور ارجنٹائن کی حکومت اس پر مجبور ہوئی کہ وہ غائب شدہ لوگوں کے بارے میں اطلاعات فراہم کرے۔ اس پر جو معلومات فراہم کی گئیں وہ یہ تھیں کہ ان کو اذیت دے کر قتل کر دیا گیا یا انہیں مار کر ان کی لاشیں دریا یا سمندر میں پھینک دی گئیں۔ ماؤں کے لیے یہ اطلاعات صدمات کا باعث بنی تھیں۔ مگر انہوں نے اصرار کیا کہ جو ان جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں انہیں سزائیں دی جائیں
تاہم اس کمیشن کے پاس ایسی کوئی طاقت نہ تھی، جو مجرموں کو سزا دے سکے۔ اس لیے جرائم کے اعترافات کے باوجود کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ جنوبی افر یقہ میں جب اپارتھائیڈ حکومت کا خاتمہ ہوا تو اس موقع پر نیلسن منڈیلا نے مفاہمت کی پالیسی پر عمل کیا۔ اس کی دلیل تھی کہ اگر ہم اپنے مظالم کا انتقام لیں گے تو جنوبی افر یقہ کی گلی گلی میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ اس موقع پر جو کمیشن بنایا گیا اس نے ظالم اور مظلوم دونوں کو آمنے سامنے بٹھا کر ان سے اعترافات کرائے۔ عہد کے پولیس افسر، جیلر اور فوجی جنہوں نے رو رو کر اپارتھائیڈ کمیشن کے سامنے رو رو کر اپنے جرائم کا اعتراف کیا
مصنف نے تیسری مثال سیرالیون کی دی ہے، جہاں دو فوجی گروہوں کے مابین خانہ جنگی ہوئی تھی۔ (1991-2002) کے درمیان دونوں جانب سے عام لوگوں کو لوٹا گیا۔ انہیں قتل بھی کیا گیا اور امن و امان کو بھی تہہ بالا کیا گیا۔ اس مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ماضی یا حال میں حکمران جو بھی مظالم کرتے ہیں اس کی انہیں کوئی سزا نہیں ملتی۔ وہ اپنی فوجی طاقت اور اثرورسوخ سے خود کو محفوظ رکھتے ہیں۔ اس لیے تار یخ میں جرائم ماضی کا حصہ بن کر ختم نہیں ہوتے ہیں۔ انہیں بار بار دہرایا جاتا ہے۔ خاص طور سے ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے ممالک جنہیں فوجی آمرانہ حکومتوں کا تجربہ ہوا ہے۔ وہ اس سے بخوبی واقف ہیں کہ حقوق انسانی کی تحریکیں ہوں یا Reconicilition and Truth کے کمیشن یہ جرائم کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب چاہیے مورخ ان مجرموں کو تاریخ کے کٹہرے میں لا کھڑا کریں، مگر دوسر ی جانب یہ اپنے کارناموں کو بیان کر کے ہیروز بھی بن جاتے ہیں۔ کیا پاکستان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ بھی بنگلہ دیش کے بحران پر Truth and Reconciliation کمیشن بنا کر اس بحران کا تجزیہ کرے۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)