یونانی اور رومی تاریخ نویس

ڈاکٹر مبارک علی

یونان کی تاریخ کی ابتداء ہومر کی Iliad سے ہوتی ہے۔ ہومر کی ایلیڈ آنے والی نسلوں کے لیے ایک اہم کتاب رہی ہے۔ کہتے ہیں سکندر اعظم بھی اسے بار بار پڑھتا تھا اور اپنے سرہانے رکھتا تھا

یونان کی تاریخ کی دوسری اہم کتاب (d.c.425BC) ہیرو ڈوٹس کی ہسٹری ہے، جس نے ایران اور یونان کی جنگوں کا حال لکھا ہے اور ایک طرح سے اس نے یونان کی جمہوریت اور ایران کی مطلق العنان بادشاہت کے درمیان تصادم کو یونان کی فتح قرار دیا ہے

مشرق اور مغرب کے درمیان اس فرق کو آج بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اس کی تیسری اہم کتاب Zenofan کی ہے جس میں اس نے دس ہزار کرائے کے فوجیوں کا ذکر کیا ہے جو ایران کی خانہ جنگی میں شریک ہوئے تھے۔ اس کے بعد Thucidedes (d.C.400BC) کی تاریخ ہے، جو پیلی یونیشن جنگ پر لکھی گئی ہے

یہ جنگ Athens اور Sparta کے درمیان ہوئی تھی جس میں Athens کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ Thucidedes نے جنگ کے حالات کو بیان کرتے ہوئے Athens کے لیڈروں پر بھی تنقید کی ہے جنہوں نے اپنی تقریروں اور فن خطابت سے لوگوں کو گمراہ کیا تھا

ان کتابوں نے یونان کی ابتدائی تاریخ کی تشکیل کی ہے۔ اس میں جنگوں کا اہم حصہ رہا تھا اور یونان میں کرائے کے فوجیوں کی تعداد بڑھ گئی تھی، لیکن ان مورخوں کے بیان نے تاریخ کے بیانیے کو ایک نئی شکل دی کہ واقعات کے ثابت ہونے کے بعد ہی انہیں تاریخ کا حصہ بنایا جائے، اگرچہ ہیروڈوٹس اور تھیوسی ڈیٹریز پر اعتراضات ہیں

ہیرووڈوٹس نے تھرما پلی کے واقعات کو جو Sparta اور یونان کے درمیان ہوا تھا اور جس میں کوئی زندہ نہیں بچا تھا لیکن اس نے واقعے کی تفصل اس طرح سے دی ہے، جیسے کسی نے چشم دید واقعہ بیان کیا ہو۔ تھوسی ڈیڈیز نے Athens راہنما Pericles کی ان تقریروں کا حوالہ دیا ہے جو اس نے جنگ میں مرنے والوں کے اعزاز میں دی تھی، اگرچہ ہیروڈوٹس اور تھیوسی ڈیڈیز کے ان بیانات سے تاریخ تو دلچسپ ہو گئی مگر وہ تاریخی بیانیے سے نکل کر افسانہ بن گئی

رومی سلطنت کی تاریخ اس وقت شروع ہوتی ہے، جب فتوحات کے ذریعے اس کی طاقت اور اقتدار مستحکم ہو جاتا ہے۔ جب کوئی سلطنت سیاسی طور پر مضبوط ہو جائے تو مال غنیمت کی مدد سے اس کا کلچر بھی تشکیل پاتا ہے۔ امراء اور جنرلز کا طبقہ پیدا ہوتا ہے، جو مال و دولت سے معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کر لیتا ہے۔ روم کا شہر نئی اور شاندار عمارتوں سے آراستہ ہو جاتا ہے

جنگ میں پکڑے جانے والے غلاموں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ لہٰذا جب کہ رومی سلطنت اپنے عروج پر تھی اس وقت Polybius (d.C.200BC) نے ایک مورخ کی حیثیت سے اس کی تاریخ لکھی۔ یہ خود یونانی تھا اور بطور غلام اسے روم میں لایا گیا تھا جہاں یہ روم کے مشہور خاندان Scapeo میں بچوں کا اتالیق ہو گیا تھا جب Scapio Africanus نے کارتھیج پر حملہ کرکے اسے تباہ کیا تھا تو یہ اس کے ساتھ تھا۔ اس نے رومن سلطنت کی تاریخ لکھتے وقت نہ صرف جنگوں میں شرکت کی تھی، بلکہ ان کے کلچر اور سیاست کا بھی بغورمطالعہ کیا تھا

اس نے تاریخ لکھتے وقت غیر جانبداری کا رویہ اختیار کیا ہے۔ اس نے اپنی تاریخ میں ان اصولوں کو اختیار کیا ہے، جن پر آج بھی عمل کیا جاتا ہے۔ یعنی واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی رائے دینے کے بجائے ان کو اسی طرح بیان کیا جائے جیسا کہ وہ ہوئے تھے، تاریخ لکھتے وقت ذاتی خیالات کو دخل نہیں دینا چاہئے

دوسرا اہم مورخ Sallust (d.35BCE) تھا جو رومی سیاست میں پوری طرح الجھا ہوا تھا۔ یہ جولیس سیزر کے حامیوں میں سے تھا اور اس کے قتل کے بعد وہ ریٹائر ہو گیا اور رومی سلطنت کی تاریخ لکھنی شروع کی۔ اس کی تاریخ کا سب سے اہم پہلو رومی سلطنت کے سیاسی اداروں کا زوال ہے۔ یہ ادارے خانہ جنگی اور سازشوں کی وجہ سے اپنی عزت و وقار کھو چکے تھے

لہٰذا Pollybius چیزوں کو معروضی طور پر دیکھتا ہے اور واقعات پر اپنی کوئی رائے نہیں دیتا ہے، جبکہ Sallust نہ صرف اپنی رائے دیتا ہے بلکہ رومی سلطنت کے اخلاقی زوال پر تبصرہ بھی کرتا ہے۔ یہاں ہم تاریخ نویسی میں دو رحجانات کو دیکھتے ہیں۔ ایک وہ جو Pollybiuy نے اختیار کیا اور دوسرا جس کو Sallust نے اپنایا اس پر آج بھی مورخ بحث کر رہے ہیں کہ کیا تاریخ کو محض ماضی کے واقعات بتانے کا ذریعہ بنانا چاہئے یا ماضی کے بیان سے آنے والی نسلوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے

یونانی اور رومی مورخوں نے تاریخ نویسی کی ابتدائی بنیادیں فراہم کیں، جن پر آگے چل کر مورخوں نے اضافے کیے اور تاریخ کے بیان کے لیے نئی تھیویز کو روشناس کرایا۔ رومی سلطنت کی تاریخ نویسی کا سب سے اہم مورخ Livy (d.AD12 or 17) ہے۔ جس نے روم کی ابتدائی تاریخ سے لے کر Augustus کے زمانے کی تاریخ کو 140 جلدوں میں لکھا، اگرچہ ان میں سے بہت سی جلدیں ضائع ہو گئی لیکن جتنی تاریخ بچی وہ رومی سلطنت کی اہم دستاویز ہے

Livy بذات خود نہ تو کسی سیاست میں ملوث تھا اور نہ ہی اس کی لکھی ہوئی تاریخ خوشامدانہ ہے۔ اس نے تاریخی ماخذوں کو احتیاط کے ساتھ استعمال کیا ہے اور روم کے ماضی کو ایک شاندار ماضی بتاتے ہوئے رومی قوم کے کردار اور ان کے اوصاف کو بیان کیا ہے کہ جن کی بنیاد پر رومیوں نے فتوحات کیں اور ایک وسیع سلطنت کی بنیاد ڈالی، لیکن ساتھ ہی میں وہ یہ بھی خبردار کرتا ہے کہ اگر رومیوں نے اپنے کردار کو چھوڑا تو ان کی سلطنت زوال پذیر ہو جائے گی

تاریخ نویسی میں اس وقت تبدیلی آئی جب رومی سلطنت وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی، لہٰذا اس نے یونیورسل تاریخ کو پیدا کیا، کیونکہ رومیوں نے مختلف اقوام کو شکست دے کر ان کے ملکوں پر قبضہ کیا تھا، اس لیے اب مورخ قومی یا ملکی تاریخ کی جگہ جیسا کہ یونانی مورخوں کا دستور تھا کہ اپنی تاریخ میں مفتوح قوموں کو بھی جگہ دی

Livy رومیوں کی کامیابیوں میں ان کے اداروں کو بھی اہمیت دیتا ہے، کیونکہ یہ وہ ادارے تھے جو رومی جنرلوں، سیاست دانوں اور امراء پر نظر رکھتے تھے۔ جب تک سینٹ اور کونسل کے ادارے مضبوط رہے، رومیوں کو فتوحات ہوتی رہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب ریاست کے ادارے کمزور ہو جائیں تو اس صورت میں سوسائٹی کا زوال ہو جاتا ہے۔ Livy کے اس نظریے کو رومی سلطنت میں ہم اس وقت دیکھتے ہیں کہ جب رومی جنرلز فوج کو رشوت دے کر بادشاہ بنتے تھے اور بادشاہت کی باقاعدہ نیلامی ہوتی تھی

Livy کی تاریخ کی ایک اہمیت یہ ہے کہ اس نے یونانی مورخوں کی طرح تاریخ کو ذاتی مشاہدوں یا زبانی سنے سنائے واقعات پر نہیں لکھا ہے، بلکہ اس نے تاریخ نویسی میں ماخذوں کے حوالہ جات کو روشناس کرایا ہے، جس کی وجہ سے تاریخ نویسی میں واقعات کو تصدیق کرنے کا سلسلہ شروع ہوا

Livy کی تاریخ کورینے ساں کے زمانے میں مقبولیت ملی۔ پرنٹنگ پریس کے ساتھ ہی اس کی اشاعت بھی ہوئی۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر (d.1527) میکاولی نے Livy کی تاریخ پر اپنے خیالات کو پیش کیا ہے، جس کی وجہ سے تاریخ نویسی کو عملی طور پر سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے

Livy کے بعد جس مورخ نے رومی تاریخ کو اپنے مشاہدات کی روشنی میں لکھا ہے وہ Tacitus (d.120AD) ہے۔ اس کی تاریخ Neru کے بعد شروع ہوتی ہے، جب رومی سلطنت کی سیاست میں انتشار، سیاسی سازشیں اور امراء کے درمیان قتل و غارت گری روز مرہ کا معمول بن جاتی ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے کہ جب رومی سلطنت اور جرمن قبائل میں جنگیں ہوتی ہیں

ایک وقت تھا کہ جب رومیوں نے جرمن قبائل کو شکست دے کر ختم کر دیا تھا، لیکن Tacitus کے زمانے میں صورت حال تبدیل ہو گئی تھی۔ رومی سلطنت اندرونی طور پر کمزور ہو رہی تھی۔ اس کے حکمران طبقے بدعنوانیوں میں ملوث تھے۔ اس لیے جب Tacits نے جرمن قبائل کی تاریخ لکھی تو نہ صرف ان کی بہادری کی تعریف کی، بلکہ اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ نسلاً خالص ہیں اور کوئی دوسری نسل نے ان کو آلودہ نہیں کیا ہے

Tacitus کی اس تھیوری سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو قومیں اپنی نسلی خالصیت کو ختم کرکے دوسری قوم سے ملاپ کرتی ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کا کردار کمزور ہو جاتا ہے، لیکن جو قومیں اپنی نسلی پاکیزگی کو برقرار رکھتی ہیں۔ ان کے کردار میں کوئی فرق نہیں آتا ہے۔ Tacitus کے ان نظریات کی بنیاد پر ہم موجودہ دور میں پیدا ہونے والے نسلی تعصبات کو سمجھ سکتے ہیں

بشکریہ : ڈی ڈبلیو اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close