جب مرزا محمد ہادی رسوا نے امراؤ جان ادا سے اپنے حالاتِ زندگی بیان کرنے کو کہا تو اس وقت امراؤ کی جو کیفیت تھی، وہی ان مضامین کو قلم بند کرتے ہوئے ہماری ہو رہی ہے۔ اور امراؤ نے مرزا رسوا سے جو شاعرانہ سوال کیا، وہی سوال ہم بھی اپنے آپ سے پوچھتے رہے:
لطف ہے کون سی کہانی میں،
آپ بیتی کہوں یا جگ بیتی؟
کیوں کہ ابتدا ہی سے میں بھی اسی شش و پنج میں مبتلا رہا کہ گلوبل وارمنگ سے جو پاکستان پر بیتی یا مستقبل قریب و بعید میں بیتنے والی ہے، اس پر بات کی جائے یا جن کی وجہ سے ہم پر یہ عذاب اترے یا مزید اتریں گے، ان کو لعنت ملامت کیا جائے؟ ایسے میں اچانک علامہ اقبال کے اس شعر نے ہمیں راہ سجھائی:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی،
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن!
تو ہم نے بھی اسی وقت ارادہ کر لیا کہ گلوبل وارمنگ کے حقائق کی پتنگ کو کیوں نہ مختلف رنگ برنگی ڈوروں سے اڑایا جائے، لیکن مانجھا یعنی پاکستان کو کانپ کے ساتھ کنی پر باندھا جائے، جو پتنگ کا بنیادی حصہ ہے
اب تک کے مضامین میں ہم نے یہی کیا ہے۔ کبھی گلوبل وارمنگ کی پتنگ کو عالمی ڈور سے ڈھیل دیتے رہے تو کبھی برِاعظم ایشیا کی سدی سے کھنچائی کرتے رہے۔ چرخی پر بندھی مختلف ڈوریں کھلتی اور لپٹتی رہیں لیکن کنی پر بندھا پاکستان کا مانجا اپنی جگہ قائم رہا اور ہمارا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ ہم کسی کے بنیں یا نہ بنیں، کم از کم اپنے تو بن ہی جائیں
اپنے پچھلے مضمون کی اختتامی سطروں میں ہم نے لکھا تھا کہ عالمی ماحولیاتی اداروں کے مطابق کسی بھی خطے کے کل رقبے کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات یا درختوں کا ہونا لازمی ہے
آج ہم جواب دیں گے کہ پاکستان میں اس کا تناسب کتنا ہے اور کیا ہمارے مقاصد عالمی مقاصد سے ہم آہنگ ہیں؟
پاکستان میں حالیہ بارشوں اور سیلابی ریلوں سے ہونے والی تباہی دنیا بھر کے لیے لمحہِ فکریہ ہے اور پاکستان کے ان حالات کے متعلق اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کیا کہا
تو سب سے پہلے بات کرتے ہیں پاکستان میں جنگلات اور درختوں کے حوالے سے۔۔ آئیڈیل صورت حال تو یہ ہونی چاہیے کہ کل رقبے کا 25 فیصد رقبہ جنگلات یا درختوں پر مشتمل ہو لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جنگلات کا رقبہ مجموعی رقبہ کا صرف 5.2 فیصد ہے جو کہ دنیا کی کم ترین شرحوں میں سے ایک ہے
گو دنیا بھر میں کاربن کا اخراج کرنے والے ممالک میں پاکستان بہت پیچھے ہے جو خوش آئند بات ہے، مگر درحقیقت یہ صورت حال ایک انگریزی مقولے کے بالکل صادق آتی ہے جسے blessing in disguise کہتے ہیں، یعنی ہمارے یہاں صنعتوں کا فقدان ہی ہمارے لیے خوش آئند ہو گیا
البتہ ہم صنعتی میدان میں کیوں پیچھے رہ گئے یا اس کے عوامل اور حقائق کیا ہیں، یہ وقت اس پر بحث کرنے کا نہیں بلکہ اس تشویش میں مبتلا ہونے کا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے ذمہ دار نہ ہونے کے باوجود آب و ہوا کے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار دس ممالک میں ہمارا شمار ہوتا ہے
اب کچھ ذکر ہو جائے سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ انتونیو گوتیریش کے ان بیانات کا، جو انہوں نے حالیہ سیلاب میں پاکستان کے ایک تہائی زیرِ آب علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد جاری کیے
پہلے تو انہوں نے کہا کہ اس تباہی کا گلوبل وارمنگ سے براہِ راست تعلق ہے، جس کی وجہ سے پہاڑوں پر صدیوں سے جمی برف پگھل رہی ہے اور اس پگھلاؤ کے ذمے دار جی-8 ممالک ہیں، کیونکہ فضا کو آلودہ کرنے والی کاربن کے اخراج کا 80 فیصد حصہ انہی بڑے ممالک کی صنعتوں سے جڑے دھویں کے باعث پیدا ہوتا ہے
جبکہ اس میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ انہوں نے انتہائی ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ انڈسٹریلائزیشن کی بدولت دنیا بھر کے طاقت ور ممالک کا گروہ جی-8 کے زیرِ تسلط کاروباری صنعتوں سے کاربن کا اخراج گلوبل وارمنگ کا سب سے بڑا سبب ہے
جی-8 میں آٹھ بڑے ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، کینیڈا، اٹلی اور جاپان شامل ہیں جبکہ آٹھواں رکن روس، یوکرین سے جنگ کے باعث فی الحال مرکزے سے باہر ہے، یہ الگ بات کہ اس سے زہریلی گیسوں کی پیداوار میں اس کا جرم کم نہیں ہو جاتا
یورپی یونین بھی ایک فورم کی صورت میں اس گروپ کا حصہ ہے اور سب جانتے ہیں کہ یورپی یونین 28 ملکوں پر مشتمل ہے۔ ان کے علاوہ وہ ممالک جنہیں BRICS کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ان میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ یہ ممالک اس صنعتی طاقت کے نیوکلیئس سے باہر لیکن دائرے کے اندر ہیں
باقی تیسری یا چوتھی دنیاؤں کو پاکستان سمیت دائرے سے باہر رکھا گیا ہے لیکن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے زہریلے اثرات پاکستانیوں پر نازل ہو رہے ہیں، کیوں کہ ہم پگھلتے ہوئے گلیشیئروں کے راستے میں بیٹھے ہیں۔ جب یہ گلیشیئرز پگھلتے ہوئے تیز بارشوں کے ساتھ مل کر سیلاب کی صورت اختیار کر لیتے ہیں تو بقول غالب ’پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے۔‘
چلیے اب بات کرتے ہیں کہ کیا ہمارے مقاصد عالمی مقاصد سے ہم آہنگ ہیں؟ تو صاحبو! اس مسلے سے نمٹنے کے لیے ابھی تو پاکستان کو بہت کچھ کرنا ہوگا۔ پہلی بات تو یہ کہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ عالمی توجہ حاصل کرنے کے لیے ماحولیاتی ایجنڈے کے حوالے سے عالمی مقاصد سے ہم آہنگ ہونا ہوگا
عالمی تپش کو 1.5 سیلسیس تک محدود رکھنے اور خود کو کاربن نیوٹرل اور 2030 تک (یعنی اپنے وعدے کے مطابق) تقریباً صفر کاربن اخراج کرنے والا ملک بنانے اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے خاتمے کی باضابطہ طور پر حمایت کرنا ہوگی
اعلانات اور اقدامات کو قابلِ اعتماد اور قابلِ عمل بنانا ہوگا۔ اپنے اقدامات کو سامنے لاتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلیوں کے پیشِ نظر کی جانے والی منصوبہ بندی پر عمل کے عزم کا اظہار کرنا ہوگا۔ جدید توانائی کے ذریعے مسابقت بڑھاتے ہوئے میڈیا کے ذریعے لوگوں کو گلوبل وارمنگ کے بارے میں آگاہی دینی ہوگی
اس کے بارے میں ہم اپنے اگلے مضامین میں بات کریں گے کہ اس کی بابت لوگوں کا شعور اجاگر کرنا کیوں ضروری ہے اور اسے ہم اپنے لیے ایک موقع میں کیسے بدل سکتے ہیں۔ یہاں خاص طور پر ہمیں راحت اندوری صاحب کے اس شعر کو سمجھنے کی ضرورت ہے:
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں،
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے۔۔
ہمارا شمار بھی ایسے ہی لالچی پڑوسیوں میں ہوتا ہے، جو صرف اپنے فائدے کی سوچتے ہیں اور پھر ایک دن اپنا بڑا نقصان کروا بیٹھتے ہیں
ملا نصیرالدین نے ایک بار اپنے پڑوسی سے پتیلی ادھار مانگی۔ چند دنوں بعد جب پتیلی واپس کرنے گئے تو اس پتیلی کے ساتھ ایک چھوٹی پتیلی بھی پڑوسی کو دی۔
پڑوسی نے حیرت سے پوچھا، ’ملا جی یہ چھوٹی پتیلی تو میری نہِیں ہے؟‘
ملا نصیرالدین نے ہنس کر کہا، ’بھائی، میرے گھر تمہاری پتیلی نے بچہ دیا تو یہ بھی تمہاری ملکیت ہوئی نا!‘
پڑوسی ملا جی کی بےوقوفی پر دل ہی دل میں ہنسا اور خوشی خوشی بڑی کے ساتھ چھوٹی پتیلی بھی رکھ لی۔ کچھ دنوں بعد ملا جی نے پھر پتیلی ادھار مانگی جو پڑوسی نے خوشی کے ساتھ دے دی کہ چلو کچھ دنوں بعد ایک چھوٹی پتیلی اور مل جائے گی۔ مگر جب کافی دنوں تک ملا جی نے ادھار لی ہوئی پتیلی واپس نہیں کی تو پڑوسی نے ان سے اپنی پتیلی کا تقاضہ کیا
ملا روہانسے ہو کر بولے، ’کیا بتاؤں میاں۔۔ کل تمہاری پتیلی کا انتقال ہو گیا۔‘
یہ سن کر پڑوسی آگ بگولہ ہو گیا اور غصے میں بولا، ’پاگل انسان، کیا کبھی پتیلی بھی مر سکتی ہے؟‘
ملا مسکرا کر بولے، ’میرے بھائی! جب وہ بچہ دے سکتی ہے تو مر بھی سکتی ہے۔‘
بدقسمتی سے ہمارا شمار بھی ایسے ہی لالچی پڑوسیوں میں ہوتا ہے، جو چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لالچ میں منطق اور حقائق سے نظریں چرا کر صرف اپنے فائدے کی سوچتے ہیں اور پھر ایک دن اپنا بڑا نقصان کروا بیٹھتے ہیں۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)