امریکہ کے سرجن جنرل ڈاکٹر وویک مرتھی نے نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے استعمال کے اثرات پر ایک نئی ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوجوانوں کی ذہنی صحت کا قومی بحران جاری ہے اور سوشل میڈیا کے ماحول کو صحتمند اورمحفوظ بنانے کے لیے اقدامات کو یقینی بنایا جانا چاہئے
گزشتہ ہفتے جاری ایک نئی ایڈوائزری میں ڈاکٹر وویک مرتھی نے کہا ”اگرچہ سوشل میڈیا کے کچھ فائدے ہیں تاہم اس بارے میں بہت واضح علامات موجود ہیں کہ سوشل میڈیا سے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی صحت اور سلامتی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے“
واضح رہے کہ سرجن جنرل کی ایڈوائزری صدر جو بائیڈن کی جانب سے تمام امریکیوں کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے کی پوری حکومتی حکمت عملی کی حمایت کے لیے ڈپارٹمنٹ آف ہیلتھ اینڈ ہیومن ریسورسز کی جاری کوششوں کا ایک حصہ ہے
ڈاکٹر وویک مرتھی کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا اب تقریباً عالمی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور تیرہ سے سترہ سال کے نوجوانوں میں سے 95 فیصد تک کسی نہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے استعمال کی رپورٹ د ے رہے ہیں اور ایک تہائی سے زیادہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال تقریباً مستقل طور پر کر رہے ہیں
ڈاکٹر وویک کا کہنا ہے کہ بلوغت اور بچپن دماغی نشو و نما کے لیے ایک اہم دور ہوتا ہے، اس لیے اس دور میں انہیں سوشل میڈیا سے نقصان پہنچنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے
سرجن جنرل نے پالیسی سازوں، ٹیکنالوجی کمپنیوں، محققین، خاندانوں اور نوجوانوں، سبھی کے لیے یہ ہدایت جاری کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال کے اثرات کو بہتر طور پر سمجھیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے زیادہ سے زیادہ فائدے حاصل کریں اور اس کے نقصانات کو کم سے کم کریں، اور بچوں کی حفاظت کے لیے ایک زیادہ محفوظ اور زیادہ صحت مند آن لائن ماحول تشکیل دیں
امریکی سرجن جنرل ڈاکٹر وویک مرتھی کہتے ہیں ”سب سے عام سوال جو مجھ سے والدین پوچھتے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا میرے بچوں کے لیے محفو ظ ہے؟ تو میرا جواب ہے کہ ہمارے پاس اسے محفوظ کہنے کے لیے کافی شواہد نہیں ہیں اور در حقیقت اس بارے میں شواہد بڑھ رہے ہیں کہ سوشل میڈیا کا استعمال نوجوانوں کی ذہنی صحت کے نقصان سے منسلک ہے“
ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو سوشل میڈیا پر نقصان دہ مواد سے واسطہ پڑتا ہے، جس میں تشدد اور جنسی مواد سے لے کر دھمکانے اور ہراساں کرنے تک کا مواد شامل ہوتا ہے۔ اور بہت سے بچے سوشل میڈیا کے استعمال سے اپنی نیند پوری نہیں کر پاتے اور وہ وقت جو انہیں اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ گزارنا ہوتا ہے وہ سوشل میڈیا کی نذر ہو جاتا ہے
ڈاکٹر وویک مرتھی کہتے ہیں کہ اس وقت ہم نوجوانوں کی ذہنی صحت کے ایک قومی بحران سے گزر رہے ہیں اور مجھے فکر ہے کہ اس بحران کی ایک اہم وجہ سوشل میڈیا ہے اور ہمیں اس سے فوری طور پر نمٹنا چاہئے
سرجن جنرل کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا استعمال بچوں کےلیے کس حد تک نقصان دہ ہے اس کا انحصار اس پر ہے کہ وہ اس کے ساتھ کتنا وقت گزارتے ہیں، کس قسم کا مواد استعمال کرتے ہیں اور اس سے ان کی نیند اور جسمانی سرگرمی جیسی صحت کے لیے ضروری سرگرمیوں میں کس حد تک خلل پڑتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مختلف بچے سوشل میڈیا سے ثقافتی، تاریخی اور سماجی اور اقتصادی عوامل کی بنیاد سمیت مختلف طریقوں سے متاثر ہوتے ہیں
ڈاکٹر مرتھی ریسرچز کے حوالے سے کہتے ہیں ”جہاں تک اس کے فائدوں کا تعلق ہے تو نوعمر افراد بتاتے ہیں کہ انہیں سوشل میڈیا زیادہ قبولیت کا اور یہ احساس دلانے میں مدد کرتا ہے کہ ان کے پاس مشکل وقت میں ساتھ دینے والے لوگ موجود ہیں اور یہ کہ ان کے پاس اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے کوئی جگہ موجود ہے اور اس کی مدد سے وہ اپنے دوستوں کی زندگیوں سے زیادہ باخبر ہوتے ہیں“
تاہم ڈاکٹر وویک کے مطابق کچھ بچوں کے لیے سوشل میڈیا کا ضرورت سے زیادہ استعمال پریشان کن ہو سکتا ہے۔ حال ہی میں ایک ریسرچ سے ظاہر ہوا کہ جو بچے ایک دن میں تین گھنٹے سے زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں، ان کے لیے ڈپریشن اور اینزائٹی جیسے ذہنی مسائل میں مبتلا ہونے کا خطرہ دوگنا ہو جاتا ہے
ڈاکٹر وویک مرتھی نوجوانوں اور بچوں کو سوشل میڈیا کے نقصان دہ اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے پالیسی سازوں کو کچھ اقدامات کی تجویز دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”پالیسی سازوں کو حفاظتی معیار کو مضبوط بنانے اور سوشل میڈیا کو ہر عمر کے بچوں کے لیے زیادہ محفوظ بنانے کے لیے اس تک رسائی کو محدود کرنے، بچوں کی پرائیویسی کو زیادہ محفوظ بنانے ، ڈیجیٹل اور میڈیا لٹریسی کی معاونت کرنے اور اضافی ریسرچ کے لیے فنڈ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں“
اس ضمن میں ٹیکنالوجی کمپنیوں کی معاونت پر بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ کمپنیاں اپنی مصنوعات کے بچوں پر اثرات کا بہتر اور زیادہ شفافیت کے ساتھ اندازہ لگا سکتی ہیں ، اور اس کے اثرات کی اجتماعی طور پر سمجھ بوجھ بڑھانے کے لئے ڈیٹا کو غیر جانبدار محققین کے ساتھ شئیر کر سکتی ہیں، اور ایسے ڈیزائن اور فیصلے تشکیل دے سکتی ہیں، جن سے بچوں کی پرائیویسی سمیت ان کی حفاظت اور صحت کو ترجیح دی جاسکے ۔ اور سسٹمز کو بہتر بنایا جا سکے تاکہ شکایات کا موثر اور بر وقت رد عمل فراہم کیا جا سکے
والدین اور دیکھ بھال کرنے والوں کے عمل دخل پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر وویک کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھرانوں میں کچھ منصوبے بنا سکتے ہیں مثلاً ٹیک فری زون قائم کر سکتے ہیں، جو ذاتی تعلقات بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ بچوں کو آن لائن ذمہ داریوں کے بارے میں سکھاتے ہیں، ان کے ماڈل بنا کر پیش کرتے ہیں ، اور انہیں پریشانی والے مواد اور سرگرمی سے باخبر کرتے ہیں
بچوں اور نوعمر افراد کے لیے ان کا مشورہ ہے کہ وہ صحت مند طریقے اپنا سکتے ہیں، جیسے پلیٹ فارم پر وقت محدود کرنا، ناپسندیدہ مواد کو بلاک کرنا، ذاتی معلومات کو شیئر کرنے میں محتاط رہنا، اور اگر کسی دوست کو مدد کی ضرورت ہو یا پلیٹ فارم پر ہراساں یا بدسلوکی ہوتی نظر آئے تو ان کی مدد کرنا
محققین کے لیے ان کا مشورہ ہے کہ وہ سوشل میڈیا اور نوجوانوں کی ذہنی صحت کی تحقیق کو مزید ترجیح دے سکتے ہیں، جو بچوں کی صحت کی حفاظت کے لیے بہترین معیار قائم کرنے اور بہترین طریقے تلاش کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔