ہتکِ عزت کے تاریخی مقدمے کی کہانی، جس میں اعلیٰ اعزازات کا حامل آسٹریلوی فوجی پر قتل سمیت جنگی جرائم ثابت ہوئے

ویب ڈیسک

آسٹریلیا میں گزشتہ دنوں ہتکِ عزت کے ایک تاریخی مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا، جو آسٹریلیا میں ’قومی ہیرو‘ قرار دیے گئے ایک اسپیشل ایئر سروس (ایس اے ایس) کے سابق اہلکار رابرٹس اسمتھ کی جانب سے دائر کیا گیا تھا، لیکن وہ یہ مقدمہ ہار گئے۔ طویل عدالتی کارروائی کے بعد جمعرات کو ملک کی سول کورٹ نے مقدمہ خارج کرتے ہوئے کہا کہ اسمتھ کے متعدد جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کی میڈیا کی خبریں غلط معلوم نہیں ہوتیں

عدالت نے فیصلہ سنایا کہ ”افغانستان میں ایس اے ایس میں فرائض انجام دیتے ہوئے ’ملک کے سب سے زیادہ اعزازات رکھنے والے زندہ فوجی‘ نے جنگی جرائم کیے، جن میں لوگوں کو قتل کرنا بھی شامل ہے“

وفاقی عدالت کے جج اینتھنی بسانکو نے اعلیٰ اعزاز ’وکٹوریا کراس‘ پانے والے فوجی بین رابرٹس اسمتھ کی طرف سے دائر کیے گئے ہتک عزت کے تاریخی مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ”ان کے خلاف قتل کے چھ الزامات میں سے چار بڑی حد تک درست ہیں۔“

آسٹریلوی جج نے سول کورٹ میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اخبارات کی خبروں میں پیش کردہ شواہد کافی معلوم ہوتے ہیں

بین رابرسٹس اسمتھ نے تین اخبارات کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ ان اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ فوجی نے نامعلوم قیدیوں کو قتل کیا۔ اس طرح وہ مقدمہ اس سنسنی خیز فیصلے پر ختم ہو گیا، جس نے ایلیٹ ایس اے ایس کی خفیہ کارروائیوں پر پڑا پردہ اٹھا دیا ہے

جج بسانکو نے کہا ”ان نتائج کی روشنی میں جن پر میں پہنچا (ہتک عزت) کی ہر کارروائی ختم کر دی جانی چاہیے“

جج بسانکو کا کہنا تھا کہ قتل کے جو الزامات کافی حد تک درست ثابت ہوئے ان میں یہ شامل ہیں:

ہتھکڑی لگے کاشت کار کا قتل، جنہیں گولی مار کر قتل کرنے کا حکم دینے سے پہلے رابرٹس اسمتھ نے انہیں لات مار کر پہاڑی سے نیچے پھینک دیا

پکڑ لیے جانے والے ایک جنگجو، جن کی کمر میں کم از کم دس گولیاں ماری گئیں، اس سے پہلے ان کی مصنوعی ٹانگ کو نشانی کے طور پر اتار لیا گیا اور بعد میں فوجیوں نے اسے پینے کے برتن کے طور پر استعمال کیا

دو افراد کا قتل، جن کا رابرٹس اسمتھ نے حکم دیا یا اس پر اتفاق کیا تاکہ نئے فوجیوں کو ’خون‘ کے تجربے سے گزارا جا سکے۔

پہلی بار سول مقدمے میں کسی عدالت نے آسٹریلوی افواج پر جنگی جرائم کے الزامات کا جائزہ لیا۔ آسٹریلوی سول عدالتوں کو فوجداری عدالتوں کے مقابلے میں الزامات ثابت کرنے کے لیے کم حد کی ضرورت ہوتی ہے

چوالیس سالہ رابرٹس اسمتھ نے اپنے خلاف تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ وہ فیصلہ سننے کے لیے عدالت میں موجود نہیں تھے

واضح رہے کہ رابرٹس اسمتھ کو 2006 سے 2012 تک افغانستان کے چھ دوروں کے دوران ان کے ’کارناموں‘ کی بدولت قومی ہیرو کے طور پر دیکھا گیا۔ انہوں نے فوج چھوڑنے کے بعد مقبول عوامی مقرر میڈیا ایگزیکٹیو کے طور پر کام کا آغاز کیا۔ ان کی تصویر آسٹریلیا میں جنگی یادگار میں موجود ہے

اسپیشل ایئر سروس (ایس اے ایس) کے بقول: انہوں نے 2010ع میں قندھار کے علاقے تزک میں لڑائی کے دوران اس مقام پر حملہ کیا، جہاں سے مشین گنوں سے فائرنگ کی جا رہی تھی۔ اس ’کارنامے‘ پر انہیں وکٹوریہ کراس سے نوازا گیا۔ انہیں مشین چلانے والے دو افراد اور ایک عسکریت پسند کو مارنے کا کریڈٹ دیا گیا، جو راکٹ گرنیڈ چلانے والے تھے۔ اس لڑائی کی وجہ سے ان پر جنگی جرائم کا کوئی الزام نہیں ہے

2018ع سے اخبار سڈنی مورننگ ہیرلڈ، دی ایج اور دا کینبرا ٹائمز کے مضامین میں مذکورہ الزام لگایا جا رہا تھا اور اسمتھ کے بعض اقدامات قابل قبول فوجی کارروائیوں کی حدود سے باہر نکل گئے

ان اخبارات نے رپورٹ کیا تھا کہ وکٹوریہ کراس وصول کرنے والے اسمتھ افغانستان میں غیر قانونی طور پر قیدیوں کو قتل کرنے اور دیگر جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے

چوالیس سالہ اسمتھ نے ان الزامات کو چیلنج کرتے ہوئے مجموعی طور پر نو اخبارات کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ کیا تھا۔ اسمتھ کے بقول ان اخباروں نے ان کے بارے میں غلط الزامات پر مبنی خبریں شائع کیں، جن میں افغانستان میں ان کی تعیناتی کے دوران چھ افغان باشندوں کی ہلاکت میں ان کے ملوث ہونے جیسا الزام بھی شامل تھا

اسمتھ نے ان اخبارات پر مقدمہ دائر کر دیا کہ انہیں کسی ایسے شخص کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس نے فوجی مصروفیت کے اخلاقی اور قانونی اصولوں کو توڑا

انہوں نے ان رپورٹوں کو جھوٹا اور ناکام فوجیوں کے دعووں پر مبنی قرار دیا، جو ان کی کامیابیوں سے حسد کرتے تھے۔ انہوں نے اخبارات پر ہرجانے کا دعویٰ کیا، جس کی رقم کے بارے میں نہیں بتایا گیا

اخبارات نے اپنے دعوؤں کو درست ثابت کرتے ہوئے اپنی رپورٹوں کا دفاع کرنے کی کوشش کی اور دوسرے فوجیوں اور سابق فوجیوں کو بطور گواہ عدالت میں پیش کیا، جنہوں نے ان دعووں کی تصدیق کی

اگرچہ یہ قانونی حکمت عملی بڑی حد تک کامیاب رہی تاہم جج بیسانکو کے روبرو اخبارات قتل کے دو دیگر الزامات کو ثابت نہیں کر سکے اور نہ ہی یہ الزام کہ رابرٹس سمتھ نے ایک خاتون پر حملہ کیا جن کے ساتھ ان کا معاشقہ تھا۔ تاہم جج نے بتایا کہ غیر ثابت شدہ الزامات سے سابق فوجی کی ساکھ کو مزید نقصان نہیں پہنچے گا

اندازے کے مطابق اس مقدمے کی قانونی فیس کی مد میں ڈھائی کروڑ آسٹریلوی ڈالرز (ایک کروڑ 30 لاکھ پاؤنڈ) سے زیادہ لاگت آئی ہے۔ مقدمہ کا ریکارڈ 110 دن کے شواہد، 41 گواہوں اور ٹرانسکرپٹ کے 6000 سے زائد صفحات پر مشتمل تھا

آسٹریلیا کی اسپیشل ایئر سروس ایسوسی ایشن کے سربراہ مارٹن ہملٹن اسمتھ نے ہتک عزت کے اس مقدمے کو ایلیٹ رجمنٹ کے لیے ’بہت مایوس کن دن‘ قرار دیا

آسٹریلوی ڈیفنس فورس کے انسپکٹر جنرل کی 2020 کی رپورٹ میں افغانستان میں آسٹریلوی اسپیشل فورسز کے دستوں کے طرز عمل سے متعلق معتبر معلومات ملی ہیں کہ آسٹریلوی فوجیوں نے انتالیس افغان شہریوں اور قیدیوں کی غیر قانونی طور جان لی

ہملٹن اسمتھ نے کہا کہ اگر سابق فوجیوں پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلنا ہے تو ان پر بلا تاخیر الزام عائد کیا جانا چاہیے

ان کا مزید کہنا تھا ”آپ اس کی اصل حقیقت تک صرف اس صورت میں ہی پہنچ سکتے ہیں کہ مقدمہ فوجداری عدالت میں لے جایا جائے، جہاں کہانی کے دونوں رخ بیان کیے جا سکیں اور حقائق کو معقول شک و شبے سے بالا تر ہو کر ثابت کیا جا سکے۔“

افغان جنگی خدمات کے لیے تمغہ جرأت حاصل کرنے والے سابق فوجی اسمتھ، جو اب میڈیا کمپنی کے ایگزیکٹو ہیں، پر ایسے الزامات بھی عائد کیے گئے کہ انہوں نے ایک ایسے افغان قیدی کو 2009 ء میں کمر میں مشین گن سے فائر کرکے ہلاک کر دیا تھا، جس کی ایک ٹانگ مصنوعی تھی۔ یہ جرم اس مقدمے کے فیصلے میں ثابت ہو چکا ہے

قانونی شواہد کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس آسٹریلوی فوجی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔ آسٹریلوی میڈیا ملکی فوج کی کارروائیوں کے حوالے سے احتساب چاہتی ہے اور یہ مقدمہ جیتنے سے ملکی میڈیا کا حوصلہ مزید بلند ہوگا

اسمتھ ان متعدد آسٹریلوی فوجی اہلکاروں میں سے ایک ہیں، جن کے بارے میں آسٹریلیا کی وفاقی پولیس افغانستان میں ہوئے مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان میں مبینہ غیر قانونی قتل کا پہلا مجرمانہ الزام مارچ میں ایس اے ایس کے سابق فوجی اولیور شولز پر ثابت ہوا تھا۔ اسے 2012ع میں صوبہ اُروزگان میں گندم کے کھیت میں ایک افغان کو گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دینے کے جنگی جرم کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close