ایک سال گزرنے کے باوجود سیلاب زدگان تعمیر نو کے وعدوں کی تکمیل کے منتظر

ویب ڈیسک

پاکستان میں گزشہ موسم گرما میں آئے تباہ کن سیلاب میں نور بی بی نہ صرف اپنے سر پر سائبان بنے گھر سے محروم ہو گئیں، بلکہ انہیں اپنی ماں اور بیٹی کو بھی کھونا پڑا۔ ان تمام دکھوں کو جھیلتے ہوئے ایک سال بعد بھی وہ بے گھر ہیں۔ نور بی بی اپنے خاندان کے بچ جانے والے افراد کے ساتھ صوبہ سندھ میں سیلاب سے تباہ ہو جانے والے ایک گاؤں صحبت کھوسہ میں ایک عارضی خیمے میں رہائش پذیر ہیں

ساٹھ سالہ نور بیبی، جو ایک زرعی مزدور ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ کسی ایسے نیک دل شخص کے لیے دعائیں مانگ رہی ہیں، جو انہیں کسی اونچائی پر کچھ اچھے گھر بنانے میں مدد کرے

نور بی بی نے عالمی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ”اگر سیلاب دوبارہ آیا تو ہم اتنا بڑا نقصان برداشت نہیں کر پائیں گے‘‘

دوسری جانب حکومت نے پاکستان کے سیلاب سے تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو کا وعدہ تو کیا، لیکن وعدہ کی تکمیل تو اپنی جگہ شاید اب حکومت کو یہ بھی یاد نہیں کہ اس نے ایسا کوئی وعدہ کیا بھی تھا

گزشتہ مون سون کے سیزن میں آنے والے سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سترہ سو افراد ہلاک اور اَسی لاکھ سے زائد بے گھر بھی ہوئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ان موسمی بارشوں کو بھاری اور غیر متوقع بنا رہی ہے، جس سے ملک میں سیلاب سے بچاؤ کی فوری ضرورت بڑھ رہی ہے، لیکن تمام تر خدشات کے باوجود حکومتی ترجیحات میں یہ معاملہ کہیں دکھائی نہیں دیتا

ایسا کرنے میں ناکامی کا سب سے زیادہ اثر ان غریبوں لوگوں کو ہوگا، جو بارشوں اور سیلاب میں سب سے زیادہ متاثر ہونے کے خدشے سے دوچار علاقوں میں رہتے ہیں اور شدید موسمی اثرات سے نبرد آزما ہیں

سندھ کا ضلع دادو، جو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا آبائی ضلع ہے، اس کا شمار سیلاب سے شدید متاثرہ علاقوں میں ہوتا ہے، تاہم یہاں کوئی بحالی نظر نہیں آتی۔ عوامی سہولیات کے بنیادی ڈھانچے ابھی تک خستہ حال ہیں اور مکانات کی تعمیرِ نو کا کام مقامی لوگوں یا این جی اوز پر چھوڑ دیا گیا ہے

وفاقی حکومت نے جنوری میں 16.3 بلین ڈالر مالیت کی ’لچکدار بحالی اور تعمیرِ نو کے فریم ورک‘ کا اعلان کیا تھا، لیکن یہ اعلان محض کاغذوں تک ہی محدود ہے۔ بین الاقوامی عطیہ دہندگان نے بھی نو بلین ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن زیادہ تر نقد رقم قرضوں کی صورت میں آئے گی

دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی اکثریت کی فصلیں سیلاب میں بہہ گئیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے ذریعہ معاش سے محروم ہو گئے۔ یہ ان کے روزگار کا وہ واحد ذریعہ تھا، جس کی مدد سے وہ اپنی بحالی کی راہ ہموار کر سکتے تھے۔ صحبت کھوسہ کے رہائشی مل جل کر صرف اتنی رقم اکٹھی کر سکے ہیں، جو صرف بیت الخلا اور پانی کے ٹینک کی تعمیر کے لیے کافی ہے

ان متاثرین کی سب سے بڑی امید ایک پاکستانی این جی او ’الخدمت فاؤنڈیشن‘ ہے، جو اس ایک گاؤں میں تقریباً تیس نئے گھروں کی تعمیر کا منصوبہ رکھتی ہے۔ دادو میں الخدمت کے کوآرڈینیٹر علی محمد نے بتایا ”ایسا لگتا ہے کہ یہاں حکومت کا کوئی وجود نہیں ہے اور اگر حکومت کی طرف سے کچھ کیا جاتا ہے تو وہ صرف کرپشن ہے‘‘

پاکستان اس وقت دوہرے سیاسی اور معاشی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، جن کی وجہ سے تمام عوامی فلاح کے سارے سرکاری اقدامات ٹھپ پڑ گئے ہیں۔ لیکن کئی دہائیوں سے پھیلی بدعنوانی اور بدانتظامی بھی اس صورتحال کی ذمہ دار ہے

پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، جن کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی طویل عرصے سے سندھ میں حکمران چلی آ رہی ہے، نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ”بہتر تعمیر ایک مہنگا کام ہےاور نقصان کا حجم بہت بڑا ہے۔ وفاقی حکومت نے جو کچھ کیا ، اس پر بات نہیں کر سکتے لیکن ہم نے (صوبائی سطح پر) کچھ اقدامات شروع کیے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان اقدامات میں سے ایک این جی اوز اور خیراتی تنظیموں کے ذریعے گھروں کی تعمیر نو کے لیے مالی اعانت ہے

لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اے ایف پی کی طرف سے الخدمت اور دو دیگر این جی اوز کے انٹرویوز کیے گئے تو حقیقت بلاول بھٹو زرداری کے دعوے کے بلکل برعکس نظر آئی اور پتہ چلا کہ ان این جی اوز کو سرکاری طور پر کوئی پیسہ نہیں ملا اور وہ مکمل طور پر نجی فنڈز پر انحصار کرتی ہیں۔ الخدمت کی کوششوں کی بدولت ضلع دادو میں چند درجن گھر تعمیر ہو چکے ہیں لیکن یہ سیلاب میں تباہ شدہ بیس لاکھ کے قریب بھی نہیں۔ ایسے میں لگتا یہ ہے کہ حکومت خود تو سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے کچھ نہیں کر رہی، لیکن فلاحی اداروں کے کام کا سہرا اپنے سر سجانے کی کوشش ضرور کر رہی ہے

دوسری جانب سیاحوں کی جنت کہلانے والے شمال مغربی پاکستان میں واقع وادی سوات بھی گزشتہ سال کے سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئی۔ دریائے سوات کے کنارے پر واقع سینکڑوں ہوٹل، ریستوراں، کاروبار اور گھر سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ سوات کے ڈپٹی کمشنر عرفان اللہ خان وزیر نے کہا کہ ایسی تباہی کو دوبارہ رونما ہونے سے روکنے کے لیے حکام نے ”دریا پر کسی بھی قسم کی عمارت کی تعمیر پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔‘‘

تاہم ان سرکاری دعووں کے برعکس ایک بار پھر دریائے سوات کے کنارے بڑے پیمانے پر تباہ ہونے والی عمارتوں کی تعمیرِ نو یا تو مکمل ہو چکی ہے یا اب بھی جاری ہے۔ ایک مقامی ہوٹل کے مالک کے مطابق لوگ دھڑا دھڑ غیر قانونی تعمیرات جاری رکھے ہوئے ہیں اور سرکاری حکام اس سے صَرفِ نظر کیے ہوئے ہیں

مقامی رہائشیوں کا یہ بھی شکوہ ہے کہ سرکاری معاوضے کی رقم بھی اتنی کم ہے کہ اس سے مہنگائی کے اس دور میں گھروں کی تعمیر ممکن نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close