’’یہیں پر، میں نے پینا چھوڑ دی تھی! کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ کچھ بھی مجھے اس کی طرف راغب نہیں کر سکتی۔ یہی وقت ہے کہ میں نے اپنا ہاتھ تھامنا ہے۔ مجھے خود کو بحال کرنا ہے اور کام کرنا ہے۔۔۔۔ آپ خوش ہیں کہ آپ اپنی تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے آپ کو اپنا کام دیانت داری، دل جمعی اور احتیاط سے کرنا چاہیے۔ آرام اور نیند کو بالائے طاق رکھ کر۔۔ نوکری کو لات مارنا کوئی آسان کام نہیں۔ بچے! تمہیں یہاں کچھ نہ کرنے کی تنخواہ نہیں دی جا رہی۔ یہ بالکل بھی اچھی بات نہیں۔۔۔۔ اور کبھی اچھا عمل نہیں۔‘‘
۔
ہیڈ ٹکٹ کلکٹر پودتیاگین Podtyagin خود کو اس طرح کے بے شمار لیکچر دینے کے بعد، اپنے کام کی جانب واپسی کے لیے ایک لطف انگیز خواہش محسوس کرنے لگا تھا۔ رات کا ایک بجا تھا لیکن اس کے باوجود وہ ٹکٹ کلکٹر کو جگاتا تھا اور اُن کو ساتھ لے کر ریلوے ڈبوں میں ٹکٹ چیک کرنے کے لیے گھومتا پھرتا۔
’’ٹکٹ۔۔۔کٹ۔۔۔ پل۔۔۔لیز ۔۔۔۔پلیز‘‘ وہ تیزی سے ناخن چباتے ہوئے چیختا۔ ریلوے ڈبوں کی دھیمی روشنی میں، لحافوں میں لپٹے سوئے ہوئے ہیولوں کو وہ ہلاتا، جگاتا، اُن کے سر سے پکڑ کر اُن کو زور سے ہلاتا اور اُن کے ٹکٹ چیک کرتا
’’ٹک۔۔۔کٹ۔۔۔۔ ٹکٹ۔۔۔ پل۔۔۔لیز۔۔۔پلیز‘‘ پودتیاگین نے ایک سیکنڈ کلاس ڈبے کے مسافر کو جگاتے ہوئے مطالبہ کیا، وہ ایک بہت کمزور اور پتلا سا شخص تھا، جس نے پرون سے بنے کوٹ اور ایک کمبل کے ایک ٹکڑے سے خود کو لپیٹا ہوا تھا اور اس کے اردگرد تکیے پڑے تھے،’’ٹکٹ پلیز۔۔۔۔‘‘
اُس کمزور اور لاغر سے شخص نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ مکمل نیند میں ڈوبا ہوا تھا۔ ٹکٹ کلکٹر نے دوبارہ اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور بے صبری سے دوبارہ کہا،
’’ٹکٹ۔۔۔کٹ۔۔۔ ٹکٹ۔۔۔پل۔۔۔لیز۔۔۔ پلیز۔‘‘
مسافر نے اپنی خواب آلود آنکھیں کھولنا شروع کیں اور پودتیاگین کو ہوشیاری سے دیکھا، ’’کیا۔۔۔۔؟ کون۔۔۔۔؟ ۔۔۔۔او۔۔۔۔‘‘
’’آپ سے آسان زبان میں پوچھا گیا ہے۔۔۔ ٹکٹ پلیز۔۔۔ اگر پلیز دے سکتے ہیں تو۔۔۔!‘‘
’’میرے خُدایا!‘‘ وہ کمزور اور لاغر شخص بُرا منہ بناتے ہوئے منمنایا، ’’خُدا پوچھے! میں جوڑوں کے درد کا مریض ہوں اور پچھلی تین راتوں سے نہیں سویا ہوں۔۔۔ میں نے سونے کے لیے ابھی افیم کھائی ہے اور تم۔۔۔ اپنی ٹکٹ کے ساتھ۔۔۔! یہ ظلم ہے۔۔۔۔ یہ بے رحمی ہے۔۔۔۔! اگر تمھیں معلوم ہوجائے کہ میرے لیے سونا کتنا مشکل کام ہے، تم مجھے اس بکواس کام کے لیے کبھی بھی نہ جگاتے۔۔۔۔ یہ ظلم ہے۔۔۔۔! یہ بے ہودگی ہے۔۔۔!اور تمھیں میری ٹکٹ کا کیا کرنا ہے۔۔۔۔! یہ یقینا حماقت کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔۔!‘‘
پودتیاگین پچکا رہ جاتا ہے کہ وہ اپنا جرم تسلیم کرے یا نہیں اور پھر اپنا جرم ماننے کا فیصلہ کرتا ہے، ’’یہاں پر مت چیخو! یہ کوئی سرائے نہیں ہے۔۔۔۔!‘‘
’’نہیں، سرائوں میں زیادہ انسانیت دوست لوگ ہوتے ہیں۔۔۔۔‘‘ مسافر نے کھانستے ہوئے کہا، ’’شاید، تم مجھے کسی اور وقت سونے دو گے! یہ بہت ہی عجیب بات ہے۔ میں نے کئی بار بیرون ملک سفر کیا ہے، تمام جگہوں پر اور وہاں پر کسی نے بھی کبھی میری ٹکٹ کے بارے میں نہیں پوچھا اور یہاں پر تم مجھ سے بار بار اس کے بارے میں ایسے پوچھ رہے ہو، جیسے تمھارے پیچھے کوئی بھوت لگا ہو۔۔۔۔‘‘
’’اچھا، پھر تو آپ کو بیرون ملک ہی جانا چاہیے، کیوں کہ آپ اس کو بہت پسند کرتے ہیں۔‘‘
’’یہ بالکل بے وقوفی ہے، جناب! ہاں۔۔۔۔! اگرچہ یہ کافی نہیں ہے کہ مسافروں کو اس گھٹن اور باسی ہوا اور پسینے کے بھوبھکے سے مار دیا جائے۔ وہ سُرخ فیتے سے ہمارے گلے گھونٹنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ اس سب پرتف ہے۔۔۔۔! اُن کے پاس ٹکٹ ضرور ہوناچاہیے! ہائے میرے خدایا۔۔۔۔! یہ کیسا جذبہ ہے۔۔۔۔! اگر کمپنی کو اس بات سے کوئی فائدہ ہوتا۔۔۔۔ تو آدھے سے زیادہ مسافر بغیر ٹکٹ کے سفر نہ کر رہے ہوتے۔۔۔‘‘
’’سنیں، جناب!‘‘ پودتیاگین غصے سے چلایا، ’’اگر آپ نے اپنی بکواس بند نہ کی اور عوام کو پریشان کرتے رہے تو میں آپ کو اگلے سٹیشن پر ٹرین سے اُتار دوں گا اور اس واقعے کی رپورٹ کردوں گا۔‘‘
’’یہ توہین آمیز ہے۔۔۔!‘‘ لوگوں نے آواز اٹھائی جو اُن کی جانب متوجہ ہو چکے تھے، ’’ایذا رسانی سراسر تکلیف ہے۔۔۔! سنو اور اس پر تھوڑا غور کرو۔۔۔‘‘
’’لیکن یہ حضرت خود ہی اتنے بدتمیز اور بداخلاق ہیں۔۔۔!“ پودتیاگین نے تھوڑا سا ڈرتے ڈرتے کہا، ’’اچھی بات۔۔۔ میں ٹکٹ نہیں دیکھوں گا۔۔۔ جیسا آپ لوگ کہیں۔۔۔ صرف۔۔۔ یقیناً جیسا کہ آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ ایسا کرنا میری ذمہ داری ہے۔ اگر میں اپنی ڈیوٹی پر نہ ہوتا۔۔۔ تب۔۔۔ یقیناً آپ اسٹیشن ماسٹر سے پوچھ سکتے تھے۔۔۔ یا جس کسی سے بھی آپ پوچھنا چاہیں۔۔۔‘‘
پودتیاگین نے اپنے کندھے اُچکائے اور وہاں سے چلتا بنا۔ پہلے پہل اس کو سُبکی محسوس ہوئی اور کچھ حد تک دل پہ چوٹ سی محسوس ہوئی۔ تب دو یا تین ڈبے گزرنے کے بعد، اُس کو ایک یقینی سی بے چینی محسوس ہوئی لیکن ویسی نہیں، جیسی اُس کے ٹکٹ چیک کرنے والے سینے کی گہرائی میں کبھی نہ اُبھری تھی
’’لیکن صرف ٹکٹ چیک کرنے کے لیے کسی سوئے ہوئے شخص کو جگانا ضروری نہ تھا۔‘‘ اُس نے سوچا، ’’اگر یہ میری غلطی نہ تھی۔۔۔ وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں نے یہ سب کچھ شوخی میں کیا ہے۔۔۔ وہ نہیں جانتے کہ میں اپنے فرض میں جکڑا ہوا ہُوں۔ اگر وہ اس بات پر یقین نہیں کرتے تو میں اسٹیشن ماسٹر کو اُن کے پاس لا سکتا ہوں۔‘‘
ہر اسٹیشن پر ٹرین پانچ منٹ کے لیے رُکتی ہے۔ تیسری گھنٹی سے پہلے پودتیاگین ایک بار پھر دوبارہ اسی سیکنڈ کلاس ڈبے میں داخل ہوا اور اس کے پیچھے سرخ ٹوپی پہلے اسٹیشن ماسٹر بھی ٹہلتا ہوا اندر داخل ہوا
’’یہ صاحب یہاں پر ہیں۔‘‘ پودتیاگین نے بات شروع کی، ’’یہ کہتے ہیں کہ مجھے ٹکٹ کے بارے میں پوچھنے کا کوئی حق نہیں اور۔۔۔۔ اور انھوں نے مجھ پر الزام تراشی کی ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں، جناب اسٹیشن ماسٹر صاحب کہ آپ ان حضرات کو بتائیں کہ۔۔۔۔ قانون کے مطابق مجھے ٹکٹ کا پوچھنا چاہیے یا صرف خود کو خوش رکھنا چاہیے۔‘‘ پودتیاگین نے اُس لاغر شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’جناب! آپ اسٹیشن ماسٹر صاحب سے پوچھ سکتے ہیں یہاں پر اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں تو۔۔۔۔‘‘
’وہ بیمار شخص دوبارہ اپنی سیٹ پر دراز ہو چکا تھا، اُس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور بُرا منہ بناتے ہوئے اپنی سیٹ پر دوبارہ لڑھک گیا، ’’میرے خدایا! میں نے ابھی دوبارہ افیم کھائی ہے اور ابھی مجھے اونگھ آئی تھی کہ یہ دوبارہ آن ٹپکا ہے۔ میں تمھاری التجا کرتا ہوں کہ مجھ پر کچھ رحم کھاؤ۔‘‘
”آپ اسٹیشن ماسٹر سے پوچھ سکتے ہیں۔۔۔۔کہ مجھے آپ کی ٹکٹ کے بارے میں پوچھنے کا حق ہے یا نہیں۔۔۔‘‘
’’یہ ناقابلِ برداشت ہے۔۔۔۔! یہ لو اپنی ٹکٹ۔۔۔ یہ پکڑو۔۔۔۔! میں تمھیں پانچ روپے زیادہ دوں گا اگر تم مجھے سکون سے مرنے دو گے! کیا تم کبھی بھی بیمار نہیں ہوئے ہو؟ سنگ دل لوگ۔۔۔!‘‘
’’یہ بالکل غیرقانونی عمل ہے۔۔۔۔! فوجی لباس میں ملبوس ایک شخص نے غصے سے کہا ’’میرے پاس اس کے صبر کی کوئی اور مثال نہیں ہے۔‘‘
’’چھوڑا۔۔۔۔‘‘ اسٹیشن ماسٹر نے ماتھے پر تیوری سجاتے ہوئے کہا اور وہ پودتیاگین کو آستین سے پکڑ کر نیچے لے گیا
پودتیاگین نے اپنے کندھے اُچکائے اور آہستگی سے اسٹیشن ماسٹر کے پیچھے چل پڑا
’’یہ کسی بات سے بھی خوش نہیں ہیں۔۔۔۔!‘‘ اس نے حیرت سے سوچا، ’’اس کی خاطر میں اسٹیشن ماسٹر کو لے کر آیا تاکہ وہ سمجھ سکے اور اُس کی تشویش ختم ہو اور وہ۔۔۔۔؟ قسم سے۔۔۔۔!‘‘
اگلے اسٹیشن پر ٹرین دس منٹ کے لیے رُکی۔ دوسری گھنٹی سے پہلے، جب پودتیاگین اسٹیشن کے کیفے ٹیریا میں کھڑا سوڈا واٹر پی رہا تھا۔ دو حضرات جن میں سے ایک انجینئر کی یونیفارم اور دوسرے نے فوجی کوٹ پہنا ہوا تھا، اس کی جانب آئے۔
’’سنو! ٹکٹ کلکٹر!‘‘ انجینئر نے پودتیاگین کو مخاطب کرتے ہوئے بات شروع کی، ’’اس بیمار شخص کے ساتھ تمھارے رویے نے سب کو غصے اور حیرت سے دوچار کیا ہے۔ جس جس نے بھی یہ واقعہ دیکھا ہے۔ میرا نام پوزٹسکی Puzitsky ہے۔ میں ایک انجینئر ہوں اور یہ ایک کرنل ہے۔ اگر تم نے اس مسافر سے معافی نہ مانگی تو ہم دونوں ٹریفک منیجر کے پاس تمھاری شکایت کریں گے جو کہ ہمارا دوست ہے۔‘‘
’’حضرات! لیکن میں کیوں۔۔۔لیکن آپ کیوں۔۔۔‘‘ پودتیاگین اُن کی بات سُن کر بوکھلا گیا۔
’’ہمیں وضاحتیں نہیں چاہئیں لیکن ہم تمھیں خبردار کرتے ہیں۔ اگر تم نے معافی نہ مانگی تو ہم اس کو انصاف ضرور دلوائیں گے۔‘‘
’’یقینا۔۔۔۔ ضرور میں معافی مانگوں گا۔۔۔۔ ضرور۔۔۔۔‘‘
آدھے گھنٹے کے بعد پودتیاگین نے معافی مانگنے کے لیے اپنے ذہن کو آمادہ کرتے ہوئے معافی طلب جملہ بھی سوچ لیا تھا، جو نہ صرف ان کی شان و شوکت پر حرف آئے بغیر مسافر کو مطمئن کر دے گا۔ وہ آہستہ قدم اٹھاتا ڈبے میں چلنے لگا۔
’’محترم!‘‘ اس نے اس بیمار شخص کو مخاطب کیا، ’’سُنیں جناب۔۔۔۔!‘‘
بیمار شخص نے آنکھیں کھولیں اور اُچھل پڑا۔۔ ’’کیا ہے۔۔۔۔؟‘‘
’’میں۔۔۔۔ یہ کہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔کہ آپ پر میں نے الزام دھرا۔۔۔۔‘‘
’’اوہو! پانی۔۔۔۔‘‘ بیمار نے اپنا دل پکڑ کر سسکی بھری، ’’میں نے ابھی ہی افیم کی تیسری خوراک لی ہے، ابھی سویا ہی تھا اور۔۔۔۔ دوبارہ تم۔۔۔۔ اوہ میرے خدایا! یہ اذیت کب ختم ہوگی۔۔۔۔!‘‘
’’میں صرف۔۔۔۔ آپ سے معذرت۔۔۔۔‘‘
’’اوہو۔۔۔۔! مجھے اگلے اسٹیشن پر ٹرین سے اُتار دو۔۔۔۔! میں اب اس ٹرین پر مزید سفر نہیں کر سکتا۔۔۔۔ میں۔۔۔۔میں۔۔۔۔ میں مر رہا ہوں۔۔۔۔‘‘
’’یہ بہت ہی اذیت ناک اور توہین آمیز ہے۔۔۔۔! عوام غصے سے چلائی
’’دفع ہوجاؤ یہاں سے! تمھیں اس بے ہودگی اور بدتمیزی پر جرمانہ کیا جائے۔۔۔۔! نکل جائو۔۔۔۔دفع ہو جاؤ۔۔۔۔‘‘
پودتیاگین نے مایوسی سے اپنا ہاتھ لہرایا، منمنایا اور ڈبے سے باہر نکل گیا۔ وہ اپنے آرام کرنے والے کمرے میں گیا۔ پریشانی کی حالت میں میز پر بیٹھ گیا اور شکایت کرنے لگا، ’’ہائے یہ عوام! کوئی بات بھی ان کے لیے گراں نہیں! یہاں پر کام کرنے اور اچھے سے اچھا کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔! کوئی بھی نشے میں ڈوبا ہوا سب کے سامنے آپ کی بے عزتی کر دیتا ہے۔۔۔! اگر آپ کچھ بھی نہ کرو۔۔۔۔ تو بھی وہ غصہ کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنے فرض کی ادائیگی کرتے ہو تو بھی اُن کو غصہ آتا ہے۔ اس لیے، کچھ بھی نہیں کرنا چاہیے اور صرف پینی چاہیے۔۔۔!‘‘
پودتیاگین نے شراب کی پوری بوتل اپنے اندر اُنڈیلی اور مزید کام، فرض اور ایمانداری کے بارے میں سوچنا ترک کر دیا۔