حکومتی اتحادیوں کی فرمائشیں اور ترقیاتی منصوبوں کے نام پر بندر بانٹ

ویب ڈیسک

کثیر الجماعتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے زیادہ تر منصوبے مبینہ طور پر حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کی فرمائش پر رکھے ہیں، اس صورتحال پر غیر جانبدار مبصرین نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے

اتحادی حکومت نے جمعہ کے روز جب مالی سال 24-2023 کے لئے بجٹ پیش کیا، تو اس میں گیارہ سو پچاس ارب روپے سوشل سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے مختص کئے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس خطیر رقم کے لئے بہت سارے پراجیکٹس اتحادی جماعتوں کی فرمائشوں پر رکھے گئے ہیں

ان فرمائشوں کے حوالے سے بہت سارے اعتراضات اور سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی کچھ حلقوں میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ انتخابات بہت زیادہ دور نہیں تو اتنی خطیر رقم کے منصوبے کس طرح پایا تکمیل تک پہنچائے جائیں گے؟

مقامی انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق پی ایس ڈی پی کے لیے مختص کردہ رقم کا ایک بڑا حصہ اتحادی جماعتوں کے اراکین اسمبلی کے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں پر لگے گا

جماعت اسلامی پاکستان کے رکن قومی اسمبلی عبدالاکبر چترالی کا کہنا ہے ”اس بات میں کوئی شک نہیں کہ زیادہ تر پراجیکٹس اتحادی اراکینِ اسمبلی کی فرمائش پر ترتیب دیے گئے ہیں اور ان پراجیکٹس کو نظر انداز کیا گیا ہے، جو برسوں سے چل رہے ہیں۔ چترال میں چار سڑکوں کی تعمیر کے لئے نو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں لیکن یہ ایک پرانا پراجیکٹ ہے‘‘

عبدالاکبر چترالی کہتے ہیں ”حکومت نے مالی سال 24-2023 کے لئے اتحادی جماعتوں کے اراکین سے ان کی ترجیحات کے بارے میں پوچھا تھا، لیکن ہم سے اس حوالے سے کچھ دریافت نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ہمیں کسی پراجیکٹ کی پیشکش کی گئی‘‘

خیال کیا جاتا ہے کہ حکومت نے اس حوالے سے جلد بازی سے کام لیا اور بجٹ سے صرف چند دن پہلے اپنے اتحادی اراکین اسملبی سے مختلف اسکیموں کے حوالے سے تجاویز جمع کرانے کا کہا

حکومت میں شامل ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کا کہنا ہے ”ہمیں بجٹ سے کچھ دنوں پہلے کہا گیا کہ آپ فوری طور پر ترقیاتی پروگرام کے لئے اسکیمیں تجویز کریں۔ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ ایک رکن اسمبلی کو کم از کم پچھتر کروڑ روپے دیے جا رہے ہیں تاکہ وہ انہیں ترقیاتی کاموں کے لیے استعمال کر سکیں‘‘

کشور زہرہ کہتی ہیں ”پاکستان میں افسر شاہی کے کاموں میں کافی تاخیر ہوتی ہے، ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان منصوبوں کے لیے اگر پیسے مل بھی جائیں تو ان پر عمل درآمد کیسے ہوگا۔ پی سی ون اور پی سی ٹو بننے میں کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ حکومت کے کئی ادارے اس میں ملوث ہوتے ہیں اور کئی سیکریٹریز اور افسران سے منظوری لینی پڑتی ہے۔ تو مجھے نہیں لگتا کہ یہ پروجیکٹس اتنی جلدی مکمل ہو جائیں گے‘‘

مبصرین کا خیال ہے کہ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں، جہاں سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حکومت وقت پر یہ بات واضح کی کہ وہ انتخابات کے قریب کسی بھی طرح کے ترقیاتی کام نہیں کرا سکتی کیونکہ اس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ حکومت رائے دہندگان پر اثر انداز ہو رہی ہے

انتخابی قوانین سے واقفیت رکھنے والے ماہرین کے مطابق اگر حکومت ایسا کوئی پراجیکٹ شروع کرتی ہے، تو اسے رکوایا جا سکتا ہے

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے ”کمیشن کو اس حوالے سے اختیارات حاصل ہیں۔ یہ بجٹ ابھی پیش کیا گیا ہے۔ پہلی جولائی سے یہ نافذ ہوگا اور یکم اگست کو اس پر عمل درآمد ہونا شروع ہو جائے گا۔ یکم اگست کے بعد انتخابات بہت قریب ہوں گے اور ایسی صورت میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس طرح کے ترقیاتی پراجیکٹس کو رکوا دے اور پھر الیکشن کے بعد ان پر کام کی اجازت دے۔‘‘

کنور دلشار کے مطابق، ”اس کے علاوہ سپریم کورٹ بھی اس طرح کا کوئی قدم اٹھا سکتی ہے اور ماضی میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں۔‘‘

اس حوالے سے جب وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس خبر کی تردید کی۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے دوسرے سوالات کے جوابات نہیں دیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close