ساجد علی کے موبائل کی گھنٹی بجی اور سامنے سے زنانہ آواز میں بات کا آغاز ہوا اور تاثر دیا گیا، جیسے یہ رانگ نمبر ہے۔ بعد میں اسی نمبر سے روزانہ کالز آنے لگیں اور گھنٹوں بات چیت ہونے لگی
چندہ ماہ میں اس رومانوی کہانی نے اس وقت نیا رخ اختیار کر لیا، جب ساجد کو کزن کے ساتھ اغوا کر لیا گیا
شمالی سندھ بالخصوص گھوٹکی، شکارپور اور کشمور کندھ کوٹ میں خواتین کی آواز میں فون کالز اور سوشل میڈیا کے ذریعے اغوا کی وارداتوں کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس میں اب ڈاکو اغوا کی واردات کے لیے باہر نہیں نکلتے بلکہ مغوی خود ڈاکوؤں کے پاس اغوا ہونے کے لیے پہنچ جاتا ہے
میرپور ماتھیلو میں ساجد علی سے جب ملاقات ہوئی تو وہ نویں جماعت کا امتحان دے کر واپس آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا چند ماہ پہلے مومل (فرضی نام) سے فون پر رابطہ ہوا تھا، چند ماہ تک بات چیت کا سلسلہ جاری رہا، اور پھر اس نے کہا کہ ’ہم تو اب ایک کنبہ ہیں ہمیں اب ملاقات کرنی چاہیے، لہٰذا رانوتی (کچے کا علاقہ) میں آ جاؤ‘
وہ کہتے ہیں ’میں نے اکیلے جانے کے بجائے اپنے کزن کو ساتھ چلنے کو کہا۔ جب ہم متعلقہ جگہ پر پہنچے تو وہاں موٹر سائیکل پر سوار ایک بندہ آیا، جس نے کہا کہ مجھے مومل نے بھیجا ہے، میرے پیچھے پیچھے آجاؤ۔ جب وہ پکے سے کچے کے حفاظتی بند پر پہنچے تو وہاں چار لوگ اور آگئے جن کے پاس کلاشنکوف تھیں۔ انھوں نے پہلے تو ہمیں مارا پیٹا اور پھر اغوا کر لیا۔‘
ساجد علی نے بتایا ’اغوا کے دوران راستے میں پانی کا ایک تالاب آیا، اس کو عبور کروایا گیا اور ایک جگہ ہمیں بٹھا دیا گیا اور دھمکی دی کہ ایک کروڑ روپے تاوان لیں گے ورنہ گردن کاٹ کر پھینک دیں گے۔‘
وہ بتاتے ہیں ’اسی دوران وہاں پولیس پہنچ گئی آدھا گھنٹہ مقابلہ جاری رہا ہے جس کے بعد ڈاکو لڑتے لڑتے وہاں سے فرار ہو گئے۔‘
ٹیلی کام اور انٹرنیٹ کے فروغ کے بعد ڈاکو بھی اس کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں۔ ڈی آئی جی عرفان بلوچ، جو شمالی سندھ میں بطور ایس ایس پی فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ سندھ میں گھوٹکی ضلع سے خواتین کی آواز میں بات کر کے لوگوں کو جھانسہ دے کر اغوا کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو بعد میں شکارپور اور کشمور اضلاع تک پہنچ گیا
بقول ان کے اس کی ابتدا گھوٹکی کے کوش قبیلے کے جرائم سے وابستہ ڈاکوؤں نے کی تھی جو خود خواتین کی آواز میں بات کرتے تھے
ایس ایچ او انسپکٹر عبدالشکور لاکھو کہتے ہیں کہ ’فون پر بات کرنے کے لیے ڈاکوؤں نے ایسی خواتین بھی رکھی ہوئی ہیں، جو لوگوں کے ساتھ رابطہ کرتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح سے لوگوں کو یہاں آنے کے لیے آمادہ کر لیتی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے ’ڈاکوؤں نے کچھ خواتین پنجاب سے منگوائی ہیں، کچھ انھوں نے اپنی عورتیں رکھی ہوئی ہیں۔ فرض کریں اگر کوئی سندھی بولنے والا رابطے میں آئے گا تو سندھی میں عورت بات کرے گی، کوئی اردو بولنے والا آ گیا تو اردو میں بات کرے گی، پشتو والا آگیا تو پشتو زبان والی عورت بات کرے گی۔‘
پولیس کے مطابق ڈاکوؤں کے ’ہنی ٹریپ‘ کا شکار بننے والے افراد اپنی گاڑی، مسافر کوچ یا ہائی ایس میں آتے ہیں، پھر ڈاکوؤں کا سہولت کار ان کو موٹر سائیکل پر لینے پہنچ جاتا ہے اور انھیں بتاتا ہے کہ ’میڈم نے بھیجا ہے۔ وہ انتظار کر رہی ہیں۔‘
اس دوران کسی ناکے پر پولیس کی چیکنگ چل رہی ہو تو بھی پولیس کو یہ شبہ تک نہیں ہوتا کہ متاثرہ شخص موٹر سائیکل سوار کا رشتہ دار، دوست ہے یا مغوی
وہ کہتے ہیں کہ زیادہ تر واقعات میں متاثرہ شخص خود موٹر سائیکل پر بیٹھ کر جاتا ہے کیونکہ مغوی کو پتہ نہیں ہوتا ہے کہ آگے جا کر وہ اغوا ہو جائے گا
ایک اور طریقہ واردات کاروبار اور کام کاج کا جھانسہ دینا بھی ہے
محمد علی لنگڑا کر چلتے ہیں۔ ڈاکوؤں نے ان کی ٹانگوں پر گولیاں مار کر انھیں چھوڑ دیا تھا، وہ بھی ایک فون کال پر کزن میانداد کے ہمراہ ڈاکوؤں کے نرغے میں آگئے تھے
وہ بتاتے ہیں کہ وہ الیکٹریشن ہیں اور انھیں ڈاکوؤں نے کام کاج کا جھانسہ دے کر اپنے چنگل میں پھانسہ تھا۔ ’ڈاکؤوں نے فون کر کے کہا کہ چار کمروں کی الیکٹریکل وائرنگ کا کام ہے۔ آ کر دیکھ لو۔‘
محمد علی کہتے ہیں کہ جب وہ نہیں گئے تو بار بار فون کالز آنے لگیں ’ایک دن میرا کزن، جو موٹر سائیکلوں کا کام جانتا ہے، کو میں نے ساتھ لیا اور سعید پور اڈے پر پہنچ گئے جہاں موٹر سائیکل سوار لوگ آئے اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔‘
وہ انھیں سی پیک روڈ سے کچے میں لے آئے اور ایک جگہ پر انھوں نے محمد علی اور ان کے کزن کو اغوا کر لیا اور انھیں درخت کے ساتھ باندھ دیا۔
محمد علی اپنے اس تلخ تجربے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں ’ڈاکوؤں نے ہماری رہائی کے لیے پچاس لاکھ روپے تاوان طلب کیا، جب انھیں بتایا کہ ہم غریب لوگ ہیں تو انھوں نے ہماری ایک نہ مانی اور ایک روز ٹانگ پر گولی مار کر ویرانے میں پھینک دیا اور فون پر گھر والوں سے کہا کہ ہمیں اٹھا کر لے جائیں۔‘
اس واقعے کے بعد ان کے رشتے داروں نے پانچ لاکھ روپے تاوان ادا کر کے کزن میانداد کو رہا کروایا
محمد علی کا علاج رحیم یار خان سے کروایا گیا لیکن وہ مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئے اور عمر بھر کے لیے ایک ٹانگ سے معذور ہو گئے
سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کے پاس لوگوں کو دھوکے سے اپنے پاس بلا کر اغوا کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ زیادہ تر وہ لوگ ان حربوں میں پھنستے ہیں جو سندھ کے باہر سے آتے ہیں
پولیس ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو کہتے ہیں کہ ڈاکوؤں کو جب پکے کے علاقے آنے میں دشواری ہوئی تو انھوں نے فیس بک کے ذریعے مختلف لوگوں کو مختلف طریقوں سے اپنے پاس بلانا شروع کر دیا
وہ بتاتے ہیں ’کسی کو کہتے کہ ہمیں ساٹھ ہزار کپڑوں کے جوڑے لینے ہیں، کسی کو ایکسکیویٹر (کھدائی کی مشین) لینے کا بتاتے ہیں، یہ زیادہ تر پنجاب اور خیبرپختونخوا صوبے کے لوگ ہوتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں ’آپ ڈاکوؤں کو کچے سے باہر آنے سے تو روک سکتے ہیں لیکن مغوی جب رضاکارانہ طور پر خود کچے کے علاقے میں جائیں تو یہ بہت بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ نوے فیصد اغوا کی وارداتیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہوئی ہیں۔‘
رواں سال مارچ میں گھوٹکی کی رانوتی پولیس نے جھنگ کے رہائشی محمد حسن اور ظفر لغاری کو بازیاب کروایا تھا جو کاریں خریدنے کے جھانسے میں آکر اغوا ہوئے تھے
اسی طرح سالار اور مسعود پٹھان پشاور سے سستا ٹرک خریدنے آئے تھے اور انھیں اغوا کیا گیا
انسپکٹر عبدالشکور لاکھو بتاتے ہیں کہ ڈاکو جن لوگوں کو بلاتے ہیں وہ زیادہ تر سندھی نیوز چینل یا خبریں نہیں سنتے۔ انھیں یہ گاڑیوں کا جھانسہ دیتے ہیں، ٹرالر، ٹرک، ٹریکٹر، مال مویشی کی خرید و فروخت کا لالچ دیتے ہیں
’کبھی کہتے ہیں کہ زمین بنانے کے لیے کرین مشین درکار ہے، لکڑی کاٹنے کے لیے لیبر چاہیے، شادی میں ڈھولکی والا چاہیے۔‘
ڈاکوؤں کا سوشل میڈیا کا استعمال
گھوٹکی کے ڈاکو فقیر نثار شر باقاعدگی سے فیس بک پر آکر پولیس کو دھمکاتے ہیں اور اپنی شر برادری اور ڈاکوؤں کا ساتھ دیتے ہیں
حافظ قرآن نثار شر کو ڈاکوؤں کا ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ ان سمیت کچے کے ڈاکو نہ صرف اپنی وارداتوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں بلکہ بعض وڈیوز میں سندھی اور سرائیکی گانوں کی ڈبنگ کے ساتھ اسلحے کے نمائش بھی کرتے ہیں، جسے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے۔ وہ پولیس آپریشن کے دوران کی بھی وڈیو بنا کر پولیس حملوں پر جوابی کارروائی دکھاتے ہیں
مغویوں کے ورثا تک پیغام پہنچانے کے لیے بھی سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈاکو بعض اوقات مغویوں پر تشدد کی وڈیوز بناتے ہیں جس میں وہ لواحقین سے فوری تاوان کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بعض ویڈیوز میں مغویوں کو برہنہ بھی دکھایا جاتا ہے
پولیس نے کچے کے علاقے میں موبائل فون سروس ڈی گریڈ کرنے کی درخواست کی تاکہ ڈاکو واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کا استعمال نہ کر سکیں تاہم ان کی یہ درخواست مسترد کر دی گئی
پی ٹی اے نے پچاس سے زائد ایسی سمز ضرور بلاک کی ہیں، جن کے ذریعے جرم کیا جا رہا تھا
اغوا برائے تاوان کی دو ارب روپے کی ’صنعت‘!
شمالی سندھ میں اغوا برائے تاوان ایک صنعت بنی چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گذشتہ پانچ ماہ میں شمالی سندھ میں ڈھائی سو افراد کو اغوا کیا گیا ہے
شمالی سندھ میں امن و امان کے بارے میں کیس کی سماعت میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس صلاح الدین پنہور ریمارکس دے چکے ہیں سندھ میں اغوا برائے تاوان روز کا معمول بن گیا ہے، متاثرین اپنی رہائی کے لیے سالانہ دو ارب روپے ادا کرتے ہیں
سندھ میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں گذشتہ چار دہائیوں سے جاری ہیں، جبکہ ان ڈاکوؤں اور اغوا کاروں کے خلاف کئی بار آپریشن بھی کیا گیا ہے
امداد حسین سہتو نے اپنی کتاب’ ڈاکؤوں کی دہائی‘ میں لکھا تھا کہ صرف 1984 سے 1994 تک، ایک اندازے کے مطابق 11,436 افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا، 1,337 سے زیادہ افراد کو قتل کیا گیا اور دو ارب روپے کا تاوان وصول کیا گیا
ایس ایچ او عبدالشکور لاکھو کے مطابق کچے کا ڈاکو اپنے علاقے سے باہر نہیں نکلتا اس کے جو سہولت کار ہیں وہ بندہ لے کر آتے ہیں اور کچے میں پہنچاتے ہیں۔ ’خاص طور پر جو کرائے والی موٹر سائیکل چلاتے ہیں وہ تاوان کی رقم لیتے ہیں، یہ ایک کاروبار ہے جس کی پوری چین ہے۔ یعنی اٹھانے والے کا حصہ، رکھنے والے کا حصہ، راستے میں جو لے کر آئے گا اس کا حصہ۔‘
جی تھری بمقابلہ اینٹی ایئر کرافٹ گن
سندھ پولیس کے پاس ڈاکوؤں سے لڑائی کے لیے جی تھری اور کلاشنکوف جیسے ہتھیار موجود ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں ڈاکوؤں کے پاس 12.7 ایم ایم طیارہ شکن بندوقیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ آر پی جی ہیں جس سے وہ پولیس آپریشن میں مزاحمت کرتے ہیں
انسپکٹر عبدالشکور لاکھو، جو ڈاکوؤں سے کئی بار مقابلہ کر چکے ہیں، بتاتے ہیں کہ ڈاکوؤں کے پاس بھاری اسلحہ ہے جس کو بکتربند برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی
’ہمارے ڈی ایس پی، انسپکٹر ان اے پی سیز میں شہید ہو چکے ہیں۔ ان کے گولے اے پی سیز سے آر پار ہو جاتے ہیں‘
گھوٹکی میں پولیس کے ساتھ جب کچے کا دورہ کیا گیا اور ڈرون کی مدد سے ایک ہزار میٹر دور واقع ڈاکوؤں کے ٹھکانے بھی دیکھے گئے تو پتہ چلا کہ ڈاکوؤں نے اپنے دفاع کے لیے چاروں طرف خندقیں کھود رکھی ہیں اور مٹی کے بڑے بڑے بند باندھے ہوئے ہیں اور یہاں سے باہر جانے کے لیے صرف موٹر سائیکل کے لیے راستہ چھوڑا گیا ہے
ڈاکوؤں کی جانب سے پولیس آپریشن کے دوران بنائی گئی وڈیوز میں وہ پولیس کی بکتر بند گاڑیوں کے قریب نظر آتے ہیں، بعض میں تو شکارپور اور گھوٹکی میں اے پی سیز پر حملے کر کے ان کے پرزے بھی دکھائے گئے ہیں
ایس ایچ او رانوتی انسپیکٹر عبدالشکور لاکھو کہتے ہیں کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ ڈاکوؤں کو جدید اسلحے اور اپنی پوزیشن کی برتری حاصل ہے لیکن اس کے باوجود پولیس والے ان سے لڑتے ہیں۔‘
کچے کا علاقے کیا ہے؟
جب دریائے سندھ مون سون کی بارشوں کے دوران پوری طرح سے پھیلتا ہے تو پانی دریا کے دائیں اور بائیں طرف پھیل کر حفاظتی بندوں تک پہنچ جاتا ہے۔ برطانوی دور حکومت میں جب نہری نظام بنایا گیا تھا تو حفاظتی بندوں کے اندرونی علاقے کو کچا اور بیرونی علاقے کو پکا قرار دیا گیا ہے
کچے کے علاقے میں شر، تیغانی، جاگیرانی، جتوئی سمیت مختلف بلوچ اور چاچڑ، مہر، میرانی و سندرانی سمیت دیگر سندھی قبائل آباد ہیں جو یہاں کی زرخیز زمین پر کاشتکاری کرتے اور مال مویشی پالتے ہیں
کچے کے علاقے کی زمین محکمہ جنگلات اور محکمہ ریوینیو کی ملکیت ہے جو کسی کو باضابطہ طور پر آلاٹ نہیں کی گئی ہے
کشمور میں تقریباً 64 کلومیٹر، سکھر میں 40 کلومیٹر، گھوٹکی میں 78 کلومیٹر اور شکارپور میں 38 کلومیٹر کے قریب حفاظتی بند موجود ہے
کچے میں زمین کی حد بندیوں اور مال مویشییوں کی چوری پر برادریوں میں جھگڑے معمول کی بات ہے جو بعض اوقات سنگین شکل اختیار کر لیتے ہیں
اگر ایک برادری کی لڑکی نے دوسری برداری کے کسی شخص سے پسند کی شادی کی یا اظہار کیا تو بھی قبائلی تنازع شروع ہو جاتا ہے، جس کی ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں
پولیس کے مطابق کچے میں رہنے والی ہر برادری کے پاس جدید اسلحہ موجود ہے
کچے میں روزمرہ کے کاموں کے لیے زیر زمین پانی استعمال کیا جاتا ہے، جب دریا کا پانی اتر جاتا ہے تو کاشت زیر زمین پانی سے کی جاتی ہے جو ٹیوب ویلز کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ یہاں بجلی نہیں ہے، ٹیوب ویلوں کو چلانے اور گھروں کو روشن کرنے کے لیے اب سولر پینلز کی مدد سے بجلی حاصل کی جاتی ہے
یہاں بسے ڈاکو بڑے قبائل کے لوگوں کو تنگ نہیں کرتے جبکہ چھوٹی اور غریب آبادیوں سے بھتہ لیا جاتا ہے
رانوتی کے علاقے میں میر محمد پنہور گوٹھ کے سامنے حال ہی میں ایک پولیس پوسٹ لگائی گئی ہے۔ یہ گاؤں اسی گھروں پر مشتمل ہے
یہاں کے باسی حاجی شبیر نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے تک کوئی گھر سے نہیں نکل سکتا تھا، یہاں کی زمینیں غیر آباد تھیں۔ ’ڈاکو لوگوں کو سر عام اغوا کر کے لے جاتے تھے، حکومت کا کوئی خوف نہیں تھا‘
لیکن اب صورتحال بہتر ہے اور وہ زمین آباد کر رہے ہیں
حفاظتی بند سے دس کلومیٹر دور کچے میں پولیس کی پہلی ڈفینس لائن دیکھی گئی تو بھیا ٹو نامی پوسٹ پر پولیس کی سپیشل فورس آر آر ایف کی پلاٹون تعینات تھی۔ پوسٹ سے چند قدم کے فاصلے پر گوٹھ جمعہ خان کے باہر ایک بزرگ اور نوجوان چارپائی پر موجود تھے۔ بزرگ عبدالخالق شر نے بتایا کہ ’یہاں تعلیم نہیں صرف جنگلات اور جہالت ہے جس میں بچے پرورش پاتے ہیں۔‘
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ کچے میں معاشی اقتصادی ترقی لائی جائے اور یہاں سرکاری ہسپتال اور سکول قائم کیے جائیں تو جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
تاہم ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو کہتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ ایک تو یہ زمین سرکاری ہے دوسرا یہ کہ جب بھی دریا کا بہاؤ بڑھے گا انفراسٹرکچر ڈوب جائے گا۔
جہاں تک کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف پولیس کے کردار کی بات ہے تو پولیس کے مطابق دریائے سندھ کے حفاظتی بندوں پر گڈو بیراج سے لے کر سکھر بیراج تک دو سو سے زائد پولیس پوسٹیں تعمیر کی جائیں گی گھوٹکی میں سو سے زائد چیک پوسٹس زیر تعمیر ہیں۔ گھوٹکی کے کچے میں ہم نے پولیس کی زیر تعمیر پوسٹس میں نیچے رہائشی جگہ ہے جبکہ اوپر مورچہ۔ یہ چوکیاں بالخصوص ان کچے راستوں پر بنائی جا رہی ہیں جو کچے اور پکے سے آمد و رفت کے لیے استعمال ہوتے ہیں
ایس ایس پی تنویر تنیو نے بتایا کہ یہ چیک پوسٹس نقل و حرکت کی نگرانی کریں گی۔ ’ان چیک پوسٹوں کو پابند کر رہے ہیں کہ وہ جانے والے لوگوں سے پوچھ گچھ کریں۔ سندھ پولیس کی ایک ایپ ہے تلاش کے نام سے اس کو بھی یہاں لگانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘
’کم از کم تین سو میٹر کے فاصلے پر یہ چوکیاں قائم کی گئیں ہے، ماضی میں ان پر حملے ہوتے تھے اب ایک چوکی دوسرے کی مددگار ہے۔‘
ایس ایس پی تنویر نے مزید بتایا کہ پولیس کے منصوبے کے تحت کچے میں دو پولیس لائنز بن رہی ہیں۔
’کچے میں بنائی جانے والی چیک پوسٹوں کے لیے پولیس کا ایک خصوصی یونٹ بنانے کی بھی تجویز ہے اگر ہم نے صرف نقل و حرکت کو کنٹرول کیا تو جرائم کی شرح میں واضح کمی ہو گی۔‘
سندھ پولیس نے ڈاکوؤں کی نگرانی اور ان کو نشانہ بنانے کے لیے حکومت سے لڑاکا ڈرونز اور ملٹری گریڈ کے اسلحے کی مانگ کی تھی۔
ایک سینیئر پولیس افسر کے مطابق ڈرونز کی مانگ کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ سویلین فورس کو نہیں دیے جا سکتے جبکہ ملٹری گریڈ کے اسلحے پر بھی تحفظات ہیں۔
ایک دوسرے سینیئر افسر کے مطابق کیونکہ اس اسلحے کی رینج زیادہ ہے اس سے سویلین آبادی کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے سندھ کے کچے میں آپریشن کے لیے فوج اور رینجرز کی بھی مدد مانگی تھی تاہم دو ماہ گزرنے کے باوجود اس کی فراہمی نہیں ہوسکی۔ نہ ہی اس علاقے کے کچے میں باضابطہ اور مشترکہ آپریشن ہوسکا ہے۔