بھارت کی شمالی ریاست اتراکھنڈ میں ضلع اترکاشی کے ایک قصبے پرولہ سے مقامی مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 26 مئی کے بعد سے اب تک کم از کم ایک درجن مسلم خاندان وہاں سے جا چکے ہیں، جبکہ ان کی کم از کم بیالیس دکانیں بند ہو چکی ہیں
شدت پسند ہندو تنظیموں ’وشو ہندو پریشد‘ (وی ایچ پی) اور ’بجرنگ دَل‘ نے مسلمانوں کو خطرناک نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 15 جون تک قصبے سے نکل جائیں۔ انہوں نے 15 جون کو قصبے میں ایک بڑی مہا پنچایت (ریلی) کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے بعد قصبے اور آس پاس کے علاقوں میں مسلمانوں میں خوف اور ہراس پھیل گیا ہے
بظاہر مقامی پولیس الرٹ دکھائی دیتی ہے، لیکن مسلمانوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔ پرولہ کی طرف جانے والی گاڑیوں کی جانچ کی جا رہی ہے۔ پولیس نے دفعہ 144 بھی نافذ کر دی ہے
پرولہ کے اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (اے ڈی ایم) تیرتھ پال نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو ریلی کی اجازت نہیں دی جائے گی
قصبے کی مجموعی آبادی تقریباً پانچ ہزار بتائی جاتی ہے، جس میں مسلمانوں کی آبادی سینکڑوں میں ہے، جبکہ ان کی دکانوں کی تعداد پینتالیس ہے، جن میں سے بیالیس بند ہو چکی ہیں
رپورٹس کے مطابق گزشتہ 26 مئی کو دو نوجوانوں کی ایک چودہ سالہ ہندو لڑکی کے مبینہ اغوا کی کوشش کے بعد وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دَل کی جانب سے مسلمانوں پر ’لو جہاد‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا، حالانکہ اغوا کی کوشش کرنے والوں میں ایک ہندو نوجوان بھی شامل تھا
اس واقعے کے بعد مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں پر نوٹس چسپاں کر کے وہاں سے چلے جانے کا کہا گیا۔ دکانوں اور مکانوں پر سرخ رنگ سے کراس کا نشان بھی بنا دیا گیا
مقامی افراد نے دونوں ملزموں کو جن میں ایک غیر مسلم ہے، پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا ہے جن پر مختلف دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا ہے
پرولہ میں مسلمان گزشتہ کئی دہائیوں سے آباد ہیں اور وہ کپڑے اور فرنیچر کی تجارت کرتے ہیں۔ مسلم دکانداروں نے مقامی انتظامیہ سے ملاقات کر کے دھمکیوں کی شکایت کی اور تحفظ فراہم کرنے کی اپیل کی، لیکن مسلمانوں کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے
اب مسلمانوں کی جانب سے اپنے تحفظ کے اقدامات پر غور کرنے کے لیے 18 جون کو پنچایت بلائی گئی ہے
پرولہ سے انخلا کرنے والوں میں پینتالیس سالہ محمد زاہد بھی ہیں، جو کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقلیتی سیل کی ضلعی شاخ کے صدر ہیں۔ وہ سات جون کو اپنے گھر کا سامان پیک کرکے بذریعہ کار دہرہ دون (ڈیرہ دون) میں اپنے ایک رشتے دار کے گھر چلے گئے
انہوں نے نئی دہلی کے ایک میڈیا ادارے ’دی کوئنٹ‘ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا ”وہاں میری جان کو خطرہ تھا اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ میرا گارمنٹ کا بزنس ہے۔ میرے اہلِ خانہ گزشتہ پانچ چھ دنوں سے دہرہ دون میں ہیں۔“
زاہد کا کہنا ہے کہ وہ سات آٹھ سال سے بی جے پی سے وابستہ ہیں۔ ضلعی صدر بننے سے قبل وہ کئی عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کے مطابق جب بی جے پی کے ایک عہدے دار کو خطرات لاحق ہیں تو بھلا اور کون محفوظ ہوگا
ان کے مطابق انہوں نے پیسے یا عہدے کے لیے بی جے پی میں شمولیت اختیار نہیں کی تھی بلکہ اس لیے کی تھی کہ اگر ان کے ساتھ کچھ غلط ہوگا تو وہ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ محمد زاہد پسماندہ مسلمانوں کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور بی جے پی آج کل پسماندہ مسلمانوں کے مسائل اٹھا رہی ہے
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مبینہ اغوا کی کوشش میں ایک غیر مسلمان شخص بھی شامل تھا، اگر مسلمانوں سے قصبہ چھوڑنے کو کہا جا رہا ہے تو غیر مسلموں سے بھی کہا جائے۔ تمام کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے
اکرام نامی ایک شخص کا کہنا تھا کہ ان کے اہل خانہ پچاس برس سے وہاں رہ رہے ہیں۔ وہ لوگ بھی خوف زدہ ہیں لیکن وہ کہاں جائیں
ایک معمر دکاندار شکیل احمد نے، جو کہ دہرہ دون جا چکے ہیں، کہا کہ مقامی رہائشیوں سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔ لیکن یہ سیاست ہے، جس نے ماحول کو خراب کر دیا ہے
بی جے پی اقلیتی سیل کے ریاستی صدر انتظار حسین کا کہنا ہے کہ کسی پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔ وہ لوگ از خود جا رہے ہیں۔ بقول ان کے ہماری پارٹی کسی بھی برادری کے ساتھ زیادتی کے خلاف ہے
پرولہ کے ایس ایچ او خزان سنگھ مسلمانوں کے انخلا کی تردید کرتے ہیں۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف دو ایک دکاندار، جو کہ ممکن ہے کہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہوں، یہاں سے گئے ہیں
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) ارپن یدوونشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے قصبے سے مسلمانوں کے انخلا کی رپورٹس پڑھی ہیں۔ ہم نے قیام امن کے لیے مختلف برادریوں کے ساتھ امن مارچ کیا ہے
واضح رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ اور مہاراشٹرا کی حکومتوں کو نفرت پر مبنی تقاریر کے خلاف قانونی کارروائی کی ہدایت کی تھی اور کہا تھا کہ حکومتیں شکایت کا انتظار نہ کریں بلکہ اگر کہیں ’ہیٹ اسپیچ‘ ہوئی ہے تو اس کے خلاف از خود کارروائی کریں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گی تو اسے توہینِ عدالت سمجھا جائے گا
ہندی کے استاد پروفیسر اپورواننداپوروانند کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا کام صرف حکم دینا نہیں ہے بلکہ اسے اپنے حکم کو نافذ بھی کرانا چاہیے۔ ریاستی حکومتیں اس کے حکم پر عمل نہیں کر رہی ہیں لیکن وہ کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے
رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے ایک ٹویٹ میں کہا ”کسی ایک شخص کی مجرمانہ حرکت کی وجہ سے تمام مسلمانوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے اور وہ خوف زدہ ہیں۔ بی جے پی پسماندہ مسلمانوں کی بات کرتی ہے لیکن ان کو اپنے ساتھ نہیں لاتی۔“
رپورٹس کے مطابق ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) نے اپنے ماتحت افسران کو 12 جون کو ہدایت کی کہ وہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ہیٹ اسپیچ کے خلاف قانونی کارروائی کریں لیکن تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے
یاد رہے کہ ریاست اترا کھنڈ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔ سال 2021 میں 17 سے 19 دسمبر کے درمیان ہریدوار میں سادھوؤں کی دھرم سنسد (مذہبی اجتماع) منعقد ہوا تھا، جس میں ہندوؤں سے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور ان کی نسل کشی کی اپیل کی گئی تھی
اس کے بعد ایسے کئی واقعات پیش آئے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2018 سے اب تک اتراکھنڈ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور بڑی ریلیوں کے 23 مصدقہ واقعات پیش آچکے ہیں۔