14 جون سنہ 1928 کو ارجنٹینا کے علاقے روساریو کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والا ارنسٹو گویرا ڈی لا سرنا کو دنیا چی گویرا کے نام سے جانتی ہے۔ اس نے بیونس آئرس یونیوسٹی سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی
زمانہ طالب علمی میں اسے جنوبی اور وسطی امریکہ میں بہت زیادہ سفر کرنے کا موقع ملا اور اس نے اپنی آنکھوں سے غربت و افلاس کا راج دیکھا، بھوک ناچتی پائی اور غریبوں اور کسانوں کا بے تحاشہ استحصال ہوتا دیکھا۔ اس سب نے اس کے اندر مظلوموں کے ساتھ مل کر ظالموں کے خلاف لڑنے کی خواہش اور عزم پیدا کر دیا۔ مارکسزم میں دلچسپی نے اسے اس بات پر قائل کیا کہ جنوبی اور وسطی امریکہ کے مسائل کا واحد حل مسلح انقلاب ہے
معروف کالم نگار وسعت اللہ خان چی گویرا کی شخصیت اور زندگی کا نقشہ کچھ یوں کھینچتے ہیں: ”چی گویرا نے اپنی مختصر سی زندگی میں کیا نہیں کیا تھا۔ رگبی اور شطرنج کا کھلاڑی، دمے کا مریض، ڈاکٹر، فوٹوگرافر، موٹر بائیک رائیڈر، شاعر، گوریلا کمانڈر، باپ، شوہر، ڈائری نویس، ادیب اور انقلابی۔۔۔ وہ آدمی کے بھیس میں چلتی پھرتی تکلیف تھا۔ ایسا عبداللہ، جو دیوانہ ہونے کے لیے کسی بھی شادی کو بیگانا نہیں سمجھتا تھا۔ اس کے لیے پورا لاطینی امریکہ اور پھر پوری دنیا ایک ہی ملک تھا“
چی گویرا نے اپنی موت سے دو برس قبل الجزائر میں ایفرو ایشین سالیڈیرٹی سمینار میں اپنا آخری بین الاقوامی خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ”موت آنے تک جاری رہنے والی جدوجہد کی کوئی حد نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، ہم اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ سامراج کے خلاف کسی ایک ملک کی فتح ہماری فتح اور کسی ایک ملک کی شکست ہماری شکست ہے“
ایک سینئر بولیویائی آرمی افسر لیفٹننٹ کرنل سیلچ نے تفصیلی نوٹس لکھے ہیں، جو یہ جاننے میں مدد دیتے ہیں کہ چی گویرا کون تھا اور وہ کس لیے کھڑا ہوا تھا؟
گرفتاری کے بعد جب چی گویرا سے ان دوسرے گوریلا جنگجوؤں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، تو سلیچ نے اس سے سوال کیا: ”میں جانتا ہوں کہ بینگنو لا ہیگورا پہاڑی سلسلے کی لڑائی میں شدید زخمی ہوگیا تھا، جہاں کوکو اور دوسرے مر گئے۔ کیا تم مجھے بتاسکتے ہو کمانڈنٹ، کیا وہ اب بھی زندہ ہے؟“
”کرنل، میری بہت کمزور یادداشت ہے، مجھے یاد نہیں رہتا، یہاں تک کہ مجھے سمجھ بھی نہیں آ رہا کہ اس سوال پہ کس طرح کا ردعمل دوں۔“
سلیچ نے پھر طنزیہ طور پہ پوچھا: ”کیا تم کیوبن ہو یا ارجنٹینی؟“
”میں کیوبن، ارجنٹینی، پیرو والا، ایکواڈور والا وغیرہ وغیرہ سب ہوں۔۔۔ کیا تمہیں اس کی سمجھ آتی ہے؟“ یہ چی کا جواب تھا
چی گویرا سنہ 1954 میں میکسیکو گیا اور آنے والے برس میں وہ کیوبا کے انقلابی رہنما فیدل کاسترو سے ملا۔ اس نے ”جولائی چھبیس تحریک“ میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس تحریک کا مقصد فوجی آمر بتیستا کی بدترین ظالم اور آمرانہ حکومت سے کیوبا کے عوام کو آزادی دلانا تھا۔ بتیستا اس زمانے میں کیوبا پر امریکی اشیرباد کے ساتھ حکومت کر رہا تھا۔ چی 1956ع میں میکسیکو سے ایک کشتی میں فیدل کاسترو کے ساتھ بطور ڈاکٹر کے شریک ہوا تھا، لیکن جب میدانِ جنگ میں لڑائی کے شعلے بھڑکنے لگے تو وہ ایک مثالی سپاہی، گوریلا اور قائد ثابت ہوا۔ اس نے کیوبا انقلاب کی کامیابی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ کاسترو نے سنہ 1959ع میں بتیستا کا اقتدار ختم کیا اور کیوبا میں اقتدار سنبھال لیا
1959ع میں جب چی یکم جنوری کو ایک نئے، برابری کے حامل اور حتمی طور پہ سوشلسٹ کیوبا کی تعمیر کے لیے ہوانا میں فیدل کاسترو کے ساتھ داخل ہوا، تو اس کی بھی فیدل کاسترو کی طرح پذیرائی کی گئی
سنہ 1959 سے 1961 کے دوران چی گویرا کیوبا کے نیشنل بینک کا صدر تھا اور پھر وزیر برائے صنعت رہا۔ اس عہدے پر اس نے کیوبا کے سفارتکار کی حیثیت سے دنیا بھر میں سفر کیا
ملک کے اندر اس نے ایسے منصوبے بنائے، جن کے ذریعے زمینوں کی دوبارہ سے تقسیم کی جاتی اور اس نے صنعتوں کے کے لیے منصوبہ بندی کی
امریکہ کے سخت ناقد کی حیثیت سے چی نے کاسترو کی حکومت کو سوویت یونین سے اتحاد میں معاونت فراہم کی۔ امریکہ کی جانب سے تجارتی پابندیوں اور ناکام اصلاحات کے بعد کیوبا کی معیشت بدحال ہوئی
اس مشکل وقت کے دوران چی گویرا نے کیوبا کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ لڑنا شروع کر دیا۔ بعدازاں اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے دیگر حصوں میں انقلاب پھیلانا چاہتا ہے اور پھر سنہ 1965 میں کاسترو نے اعلان کیا کہ چی گویرا نے کیوبا چھوڑ دیا ہے
کتاب ’چی گویرا کی ڈائری‘ میں ان کی جانب سے کاسترو کو لکھے گئے دو خطوط بھی ہیں، جن میں سے ایک میں وہ لکھتا ہے ”مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنے فرض کا وہ حصہ ادا کر دیا ہے، جس نے مجھے کیوبا کی سرزمین اور انقلاب سے منسلک رکھا۔۔ سو میں تم سے، ساتھیوں سے اور تمھارے عوام سے جو میرے ہو چکے ہیں، رخصت ہوتا ہوں۔ کوئی قانونی بندھن مجھے اب کیوبا کے ساتھ نہیں باندھے ہے، جو بندھن ہیں وہ ایک اور نوعیت کے ہیں، ایسے بندھن جنہیں اپنی مرضی سے توڑا نہیں جا سکتا“
جاتے جاتے اپنے بچوں کے نام خط میں چی نے لکھا ”تمہارا باپ ایک ایسا آدمی تھا، جس نے جو سوچا اُس پر عمل کیا۔ یقین رکھو وہ اپنے نظریات سے مکمل طور پر وفادار رہا۔ یاد رکھو اگر کوئی چیز اہم ہے تو انقلاب، اس کے مقابلے میں ہماری ذات، ہمارا وجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا“
چی گویرا نے کئی ماہ براعظم افریقہ، خاص طور پر کانگو میں گزارے۔ اس نے گوریلا جنگ کے لیے باغی فوج کو تربیت دینے کی کوشش کی، لیکن ان کی کوششیں رائیگاں گئیں اور سنہ 1966 میں وہ خفیہ طور پر کیوبا لوٹ گیا
لیکن چی گویرا کے اندر ناانصافی اور ظلم کے خلاف لڑنے والی بے چین روح نے اسے چین نہیں لینے دیا۔ کیوبا سے اس نے بولیویا جانے کی ٹھانی تاکہ وہ رینی بارنتوس اورتونو کی حکومت کے خلاف باغی فوجوں کی قیادت کر سکے۔ امریکی مدد سے بولیویا کی فوج نے اسے اور اس کے باقی ماندہ جنگجوؤں کو گرفتار کیا
چی کو دوبار اس کی ٹانگ میں گولیاں مار کر ایک دن پہلے بولیویا کے بلند ترین پہاڑی علاقے میں گھیر کر پکڑا گیا تھا۔ اسے ایک اسکول ہاؤس میں ایک کتّے کی طرح باندھ کر رکھا گیا تھا۔ اسے کرسی پہ بیٹھ کر گولیوں کا سامنے کرنے کو کہا گیا۔ لیکن اس نے انکار کر دیا.. اور وہ شوٹ کرنے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا رہا۔ گولیاں پہلے اس کے بازو اور ٹانگوں میں لگیں اور اسے زمین بوس ہونے پہ مجبور کر دیا، جہاں اس نے درد سے بچنے کے لیے اپنی کلائی ٹکا دی تھی۔ سپاہی نے پھر گولیاں چلائیں، تو ایک گولی اس کے سینے میں داخل ہوئی اور اس کے پھیپھڑوں کو خون سے بھرتے ہوئے اس کی جان لے گئی
چی گویرا ارجنٹائن میں پیدا ہوا، لیکن وہ کیوبا والوں کے ساتھ لڑا اور بولیویا والوں کی آزادی کے لیے لڑتا ہوا پکڑا گیا تو سینئر بولیویائی آرمی افسر لیفٹننٹ کرنل سلیچ نے جب اس سے پوچھا کہ تم کیا اور کون ہو؟ تو اس کا جواب ایک نابغہ اور بصیرت افروز کامریڈ کے الفاظ تھے۔ ”میں کیوبن، ارجنٹینی، پیرو والا، ایکواڈور والا وغیرہ وغیرہ سب ہوں۔۔۔ کیا تمہیں اس کی سمجھ آتی ہے؟“
سلیچ نے پھر طنزیہ انداز میں پوچھا: ”کس چیز نے تمہیں یہاں ہمارے ملک میں آپریٹ کرنے پہ قائل کیا؟“
تو چی کا جواب تھا: ”کیا تمہیں وہ نظر نہیں آتی، جس حالت میں کسان جی رہے ہیں؟ وہ سب قریب قریب وحشیوں کی سی حالت میں ہیں، غربت میں گزر بسر کرتے ہیں، جو کہ دل کو تنگ کرتی ہے.. ایک کمرہ ہے ان کے پاس، جس میں سوتے اور پکاتے ہیں اور پہننے کو کوئی کپڑا نہیں، ان کو جانوروں کی طرح چھوڑ دیا گیا ہے۔“
یہ بات چیت 9 اکتوبر 1967ع کے دن کے ابتدائی گھنٹوں میں ہوئی۔ اس وقت چی کو ایک بات کا یقین تھا، کہ بہت جلد اسے قتل کر دیا جائے گا۔ گزشتہ دن کی لڑائی میں لگی گولیوں کے رِستے زخموں کے باوجود اور اس بات کا ادراک رکھتے ہوئے کہ جلد ہی اسے موت کا سامنا کرنا پڑے گا
”میں جانتا ہوں تم مجھے مارنے آئے ہو۔ تو گولی چلاؤ بزدل! تم بس گوشت پوست کے بنے آدمی کو ہی مار سکو گے۔“
یہ اس انقلابی کے الفاظ تھے، جس نے دوسرے کسی بھی انقلابی سے زیادہ اس سچے مقولے کو اپنایا، ’تم خواب دیکھنے والے کو مار سکتے ہو، مگر خواب کو دفنا نہیں سکتے۔‘ چی گويرا کی زندگی کو پوائنٹ بلینک رینج پہ دھری ایک خودکار بندوق سے چھین لیا گیا۔ اس بندوق کی گولیوں نے اس کے پہلے سے چھلنی بدن کو ایک بج کر دس منٹ بعد از دوپہر مزید چھلنی کردیا تھا۔ یہ 9 اکتوبر،1967ء کا دن تھا
اسے بولیویا کے گاؤں لاہیگورا میں خفیہ طور پر سپرد خاک کیا گیا۔ سنہ 1997 میں اس کی باقیات کا پتا چلا، جنہیں نکال کر کیوبا کو لوٹایا گیا
موت کے وقت چی انتالیس سال کا تھا، لیکن وہ عزت کی زندگی جیا اور عزت کی موت مرا۔ اس کی موت اور زندگی دونوں ہی ہمت اور بہادری سے عبارت تھیں۔ اس کے ہاں محروم لوگوں کے لیے انصاف کی ناختم ہونے والی پیاس موجود تھی۔ اس کے ہاں غربت اور ننگی عدم مساوات کے خلاف ساری زندگی سخت غصّہ کرتا رہا
کتاب ’چی گویرا کی ڈائری‘ میں ایک مضمون فیدل کاسترو کا بھی ہے، جس میں وہ لکھتا ہے: ”یہ ثابت ہو چکا ہے کہ چی لڑتے ہوئے مارا گیا۔ اس کی ایم ٹو رائفل کی نالی ایک گولے سے بالکل بے کار ہو گئی تھی۔ اس کے پستول میں گولیاں نہیں تھیں۔ اس بے بسی میں اسے زندہ گرفتار کر لیا گیا۔۔ اس کے ٹانگوں میں اتنے زخم تھے کہ وہ چل بھی نہیں سکتا تھا۔ اسی حالت میں اسے ہگوراز لے جایا گیا۔ فوجی افسروں نے اُسے قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک اسکول میں اس فیصلے پر عمل درآمد کی تفصیلات سب کو معلوم ہیں۔“
سی آئی اے اور بولیویائی فوج کے سربراہوں نے چی گویرا کے زخمی ہو کر بے بس ہو جانے کے بعد قتل ہونے پہ خوشی منائی تھی۔۔
اور پھر 2007ع میں ایک ایسی کہانی سامنے آئی، جس نے چی گویرا کے انسانیت پسند وژن کو پھر سے توانا انداز میں ابھارا اور اس کی اپنے کاز کے لیے بطور ہیرو قربانی کا جواز فراہم کیا۔ چی گویرا کا نام تو پوری دنیا میں فوری طور پہ جانا پہچانا جاتا ہے۔ لیکن کسی نے کیا کبھی ماریو ٹیران کا نام بھی سنا تھا؟
یہ وہ شخص تھا، جس کے سامنے چی گویرا نے اپنے آخری الفاظ ادا کیے تھے، کیونکہ ماریو ٹیران وہ تھا، جس نے چی کو گولیاں ماریں تھیں۔ یہ بولیوین آرمی کا سارجنٹ تھا، جس نے چی کو مار ڈالا تھا
اسی آدمی کے بیٹے نے چار عشروں کے بعد بولیوین اخبار کو خط لکھا اور دل سے کیوبا کا شکریہ ادا کیا کہ اس ملک نے اس کے باپ کو پھر سے دنیا کو اپنی بینائی کے ساتھ دیکھنے کے قابل بنا دیا، جو کہ اندھا ہوچکا تھا اور وہ اپنے پوتے پوتیوں کو دیکھنے کے قابل نہیں رہا تھا!
سوشلسٹ تربیت یافتہ کیوبن ڈاکٹرز نے سوشلسٹ وینزیلا کی مالی امداد سے ماریو ٹیران کا آپریشن کیا اور اس کی بینائی بحال کی
اس انقلاب کی یہ کیسی فتح تھی، جس کو چی نے آگے بڑھنے میں مدد دی تھی اور یہ اس کے کاز اور آدرشوں کی فتح تھی، جس کے لیے اس نے اپنی شباب بھری زندگی قربان کردی تھی
مسٹر ٹیران کا علاج ”معجزہ آپریشن“ کے نام سے کیا گیا۔ یہ وینزویلا کی طرف سے فنڈ کیا گیا پروگرام ہے، جس میں کام کرنے والا اسٹاف کیوبن ہے، جو سارے لاطینی امریکہ کے غریبوں کی آنکھوں کے ہر طرح کے امراض کا علاج مفت کرتا ہے۔ چی کو کتنا فخر محسوس ہوتا ڈاکٹروں پہ، پروگرام پہ اور اپنے محبوب کیوبا کے وقار و متانت پہ، جس کے ساتھ اس نے ایک اچھے کام کے لیے ماریو ٹیران کے گناہ کو پسِ پشت ڈال دیا۔۔ چی جیسے جوان کو گولیاں مار کر اس کی جان لینے کا گناہ!
کمیونسٹ پارٹی آف کیوبا کے ترجمان اخبار ’گرینےما‘ نے ماریو ٹیران کی بینائی کی بحالی کے لیے کیے جانے والے آپریشن کی خبر یوں دی: ”چار عشرے پہلے ماریو ٹیران نے چی جیسے خواب اور آدرش کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی، وہی چی ایک دوسری لڑائی کو جیتنے کے لیے پھر سے لوٹ آیا ہے۔ اب کی بار ایک بوڑھا آدمی (ٹیران) ایک بار پھر سے آسمان کے رنگوں کو دیکھ کر سراہ سکتا ہے اور جنگل کے رنگوں سے محظوظ ہو سکتا ہے، اپنے پوتے پوتیوں کی مسکراہٹ کو دیکھ کر لطف اندوز ہو سکتا ہے اور فٹبال کا کھیل دیکھ سکتا ہے۔“
چی کو گولیاں مار کر اس کی جان لینے والے اس کی موت پر خوشیاں منا رہے تھے لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ حیات جاودانی پانے والا چی گویرا طبعی زندگی رکھنے والے چی گویرا سے کہیں زیادہ طاقتور بن گیا تھا۔ اس کی تقریریں اور تحریریں اور اس کا جذبہ آج بھی نوجوانوں اور مظلوموں کو طاقتور سے لڑنے اور ناانصافی کے خلاف غصّہ دکھانے پہ اکساتے ہیں۔