ناخن کُترنا ایک عام سی عادت سمجھی جاتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق دنیا میں تقریباً 30 فیصد لوگ اس عادت میں مبتلا ہیں۔ لیکن طبی ماہرین کے مطابق دانتوں سے ناخن کترنے کی عادت کی وجہ نفسیاتی ہوتی ہے۔ یہ عادت بچوں ہی نہیں بلکہ بڑوں میں بھی پائی جاتی ہے اور ذہنی دباؤ بڑھنے پر اس عادت میں مزید شدت آ جاتی ہے
ناخن کترنے کی عادت میں مبتلا لوگ جب ذہنی دباؤ یا تناؤ کا شکار ہوتے ہیں تو لاشعوری طور پر دانتوں سے ناخن کترنے لگتے ہیں، یعنی انہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ایک کراہیت والا کام کررہے ہیں۔ دراصل وہ کسی چیز پر توجہ مرکوز کیے ہوتے ہیں یا پھر بہت گہری سوچ میں ڈوبے ہوتے ہیں
اس عادت کو نروس ہیبٹ(Nervous Habit) یعنی دماغی انتشار اور الجھن سے فرار حاصل کرنے والی عادت کہا جاتاہے
لیکن بعض تدابیر اختیار کرکے اس کیفیت سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ نفسیات دانوں کا خیال ہے کہ یہ عادت اکثر بچپن میں لاحق ہوتی ہے اور عمر بھر جاری رہ سکتی ہے۔ اسے طبی زبان میں اونیکوفیجیا کہتے ہیں جو بظاہر بے ضرر لگتی ہے لیکن اس کے منفی اثرات بہت ہیں اور یہ آپ کو بیمار بھی کرسکتی ہے
ناخن کترنے سے متعلق ایک اور نیا پہلو بھی سامنے آیا ہے اور محققین کا کہنا ہے کہ ناخن کترنے والے افراد عام لوگوں کے موازنے میں زیادہ کمالیت پسند یا اپنا کام زیادہ مکمل طریقے سے سرانجام دینے کے قابل ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی آف مونٹریال کے مطابق سائنسدانوں نے اس رویئے کو کمالیت پسندی یا پرفیکشنسٹ ہونے سے منسلک کیا ہے
کینیڈین سائنسدانوں کے مطابق وہ لوگ جو کہ ناخن کترنے کی عادت کا شکار ہوتے ہیں، یہ لوگ اپنا کام کامل طریقے سے پورا کرنے پر یقین رکھتے ہیں، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کے کمالیت پسند ہونے کی بنیادی وجہ ہی غیر ارادی قوتوں کی وجہ سے ہوتا ہے
مطالعے کی مصنف سارا رابرٹسن نے ایک جریدے میں لکھا ہے کہ شرکاء اس وقت اس طرح کے رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں، جب وہ مایوسی اور عدم اطمینان کا شکار ہوں
تحقیق میں شامل ایک اور مرکزی محقق نے بھی اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ جن لوگوں کے رویے میں بے چینی یا عدم اطمینان کی صورت میں ناخن کاٹنا شامل ہوتا ہے، ایسے لوگ کمالیت پسند شخصیت کے حامل ہوتے ہیں، کیونکہ جب وہ دیگر لوگوں کی رفتار سے کوئی کام سرانجام نہیں دے پاتے تو بے چینی کا شکار ہوجاتے ہیں
حال ہی میں موقر عربی میگزین الرجل نے اس حوالے سے مختلف ماہرین کی آرا پر ایک مضمون شائع کیا ہے، جس میں دانتوں سے ناخن کترنے کی عادت اور اس کی وجہ بیان کی گئی ہے
محققین کا خیال ہے کہ اس بیماری کے عوامل جینیاتی ہو سکتے ہیں، جو ماحول کی وجہ سے بھی اس عادت یا بگاڑ کا باعث بن سکتے ہیں
ماہرین کے نزدیک اس بیماری یا عارضے کا بنیادی محرک نفسیاتی، سماجی اور جذباتی دباؤ ہوتا ہے، جس سے انسان دانتوں سے ناخنوں کو کترتا ہے
ماہرین کے مطابق ناخنوں کے اندر بے شمار جراثیم پائے جاتے ہیں، اگر کوئی شخص ناخن کُترنے کی عادت میں مبتلا ہے تو وہ جلد اس سے پیچھا چُھڑا لے کیونکہ اس عادت کی وجہ سے صحت پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ناخن کُترنے کی عادت سے نزلہ اور زکام کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، اس کے علاوہ قوت مدافعت بھی شدید متاثر ہوتی ہے جس کے باعث جراثیم جسم پر باآسانی حملہ آور ہوتے ہیں۔
دی اکیڈمی آف جنرل ڈینٹسٹری کے مطابق ناخن چبانے کی عادت سے ناصرف ہمارے دانت اور مسوڑں کو شدید نقصان پہنچتا ہے بلکہ اس کے باعث نظام ہضم بھی متاثر ہو جاتا ہے
اس عادت میں مبتلا افراد کو انگلیوں کے انفیکشن ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے کیوںکہ ناخن چبانے سے انگلیوں کا میل براہ راست پیٹ میں جاتا ہے جو ہیضے، معدے کی خرابی اور پیٹ درد جیسی بیماریوں کو جنم دیتی ہے
یہ عادت سماجی شرمندگی کا بھی سامنا کرواتی ہے اور جب آپ ناخن چباتے ہیں تو لوگ آپ کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں
بہت گہرائی تک ناخن چبانے کی وجہ سے یہ آپ کی کھال کے اندر اُگنا شروع ہوجاتے ہیں، جو انتہائی تکلیف کا باعث ہوتا ہے
ناخن کترنے سے دیگر مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں، جن میں ناخنوں یا ناخن کے پاس جلد میں انفیکشن ہونے کے علاوہ ناخن خراب ہونا شامل ہے
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عادت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ’چوئنگ گم‘ کا استعمال موثر ہے تاکہ ذہن ناخن کُترنے کے بارے میں نہ سوچے۔
اگر اس بیماری سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا گیا تو یہ عادت مہلک بیماریوں کا شکار کر سکتی ہے اور انسان صحت مند زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھ سکتا ہے۔
اس عادت سے چھٹکارا پانے کے لیے نفسیاتی طریقہ علاج بہت اہم ہوتا ہے، لیکن اگر مرض اس حد تک پہنچ چکا ہو کہ نفسیاتی طریقے سے اس کا علاج ممکن نہیں رہا تو اس صورت میں طبی علاج کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے
عام طور پر معالجین اس کے لیے اینٹی ڈپریشن کی ادویات دیتے ہیں، جن کے استعمال سے سوچیں کم ہونے لگتی ہیں اور نفسیاتی تناؤ یا دباؤ میں بھی کمی آتی ہے، جس کی وجہ سے مریض کا خیال ناخن کترنے کی جانب نہیں جاتا۔ یہ مرض اس وقت شدت اختیار کرتا ہے جب دماغ پریشان کن خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا ہو، ایسے میں اس عادت میں مبتلا کوئی بھی شخص لاشعوری طور پر ناخن کترتا ہے
تاہم اس کے ساتھ مریض کو دی جانے والی ادویات کے سائیڈ ایفیکٹس پر بھی نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ ادویات کے اثرات بھی جسم پر مرتب ہوتے ہیں، جن میں چکر آنا، منہ کا خشک ہو جانا، جمائیاں آنا اور پسینے کی کثرت کی علامات کا ظاہر ہونا شامل ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی دوائی معالج کی اجازت کے بغیر قطعی طور پر استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ اگر معالجین دوائی تجویز کرتے ہیں تو اس صورت میں دوائی کی مقررہ خوراک سے زیادہ قطعی طور پر نہ لیں
بہتر یہی ہے کہ ادویات پر زیادہ انحصار نہ کیا جائے بلکہ اسے انتہائی ہنگامی حالت میں ہی استعمال کرنا چاہیے اور کوشش کریں کہ وقت کے ساتھ ساتھ دوائی کے استعمال کے وقفے کا دورانیہ بڑھا دیں تاکہ اس کی عادت نہ ہو۔ اس کے لیے بہتر ہے کہ اپنی قوت ارادی پر زیادہ فوکس کرتے ہوئے اس عادت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
اگر تو آپ عادتاً اس لت کے شکار ہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ آپ کو یاد ہی نہیں ہوگا کہ عادت کیسے پڑی۔ عام طور پر یہ بچپن کی عادت ہوتی ہے جو لڑکپن میں پختہ ہوجاتی ہے اور پھر اس سے نجات مشکل ہوجاتی ہے۔ اگر یہ آپ کی فطرت کا حصہ بن چکی ہے تو آپ کو کسی دوست یا گھروالوں سے مدد لینی چاہیے۔ اپنے قریبی دوستوں سے اس لت کو چھوڑنے کے عزم کا اظہار کر کے مشورہ لیں اور انہیں کہیں کہ جب بھی وہ غائب دماغی میں ایسا کرنے لگیں تو اس پر توجہ مرکوز کرائیں۔