ماحولیات بمقابلہ معیشت: بھارت میں سعودی ریفائنری کی تعمیر کے خلاف گاؤں والے سراپا احتجاج

ویب ڈیسک

مانشی بول ان ہزاروں لوگوں میں سے ایک ہیں، جو ریاست مہاراشٹر کے کونکان خطے میں دنیا کی سب سے بڑی پیٹرو کیمیکل ریفائنری کی تعمیر کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ سطح مرتفع کونکان کا یہ علاقہ ماہی گیروں کے دیہات اور الفانسو آموں کے باغات سے گھرا ہوا ہے

اپریل کے آخر میں ریاست مہاراشٹر کے ضلع رتناگر میں اس وقت مظاہرے شروع ہوئے جب حکام نے بھارت، سعودی عرب اور ابو ظہبی کی آئل کمپنیوں کے کنسورشیم کی جانب سے میگا ریفائنری پراجیکٹ کے لیے زمین کی ٹیسٹنگ شروع کی

عورتوں کی قیادت میں مظاہرین نے اپریل کی گرمی میں سڑکوں پر لیٹ کر حکام کو مجوزہ ریفائری کے مقام تک پہنچنے نہ دیا۔ کچھ مظاہرین نے احتجاج کی خاطر اپنے سر منڈوا لیے اور کئی نے بھوک ہڑتال شروع کی

حکام نے بات چیت کے ذریعے احتجاج ختم کرانے میں ناکامی کے بعد علاقے میں کرفیو نافذ کر کے لوگوں کی نقل و حرکت کو روکنے کی کوشش کی اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ کچھ مظاہرین کو کئی روز تک حراست میں رکھا گیا

حکام نے مظاہرین کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا، پورے علاقے میں اس کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے

واضح رہے کہ مہاراشٹر میں دنیا کی سب سے بڑی ریفائنری کی تعمیر کے خلاف ایک عشرے سے احتجاج جاری ہے۔

جس گاؤں یہ ریفائنری بننی ہے، وہاں کے لوگوں میں اس منصوبے کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔ مانشی بول کہتی ہیں ”وہ کہتے ہیں کہ یہ سطح مرتفع ایک بنجر زمین ہے لیکن یہ بنجر زمین ہمارے چشموں کے لیے پانی کا ذریعہ ہے، ایک ایسی جگہ، جہاں ہم بیر کھانے کے لیے جاتے ہیں اور سبزیاں اُگاتے ہیں“

وہ کہتی ہیں ”ہم کسی عرب ملک کے گندے تیل کو اپنا صاف ستھرا ماحول تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے“

اپنی کشتی پر سوار ماہی گیر امتیاز بھٹکر نے بتایا کہ مجوزہ ریفائنری کی وجہ سے وہ اپنا روزگار چھن جانے کے بارے میں فکرمند ہیں

امتیاز نے بتایا ”ہمیں دس کلومیٹر کے دائرے میں مچھلی پکڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ تیل سے بھرے ٹینکر سمندر میں پھنس جائیں گے۔ تقریبا تیس سے چالیس ہزار مقامی اور غیر مقامی لوگوں کا اس گاؤں میں ماہی گیری پر انحصار ہے۔ وہ کیا کریں گے؟“

یہ علاقہ آموں کی مشہور قسم الفانسو کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ اس علاقے میں آم کے کاشتکاروں نے بتایا کہ ذرا سی فضائی آلودگی اور جنگلات کی کٹائی ان کی پیداوار کو شدید نقصان پہنچائے گی کیونکہ الفانسو قسم ہوا اور موسم کی صورتحال کے بارے میں کافی حساس ہے

مہاراشٹر کی ریاستی حکومتیں علاقے میں ریفائنری کے قیام کے بارے میں اپنا موقف بدلتی رہی ہیں۔ جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو وہ اس منصوبے کے حق میں ہوتے ہیں لیکن اقتدار کے باہر وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں

ابتدائی طور پر اس منصوبے پر چالیس ارب ڈالر کی لاگت کا اندازہ لگایا گیا تھا، جس کی سالانہ پیدوار ساٹھ ملین ٹن ہوگی، لیکن منصوبہ بروقت شروع نہ ہو پانے کی وجہ سے اس کا حجم ایک تہائی کر دیا گیا ہے

2015ع میں اس منصوبے کو رتناگری ضلع کے گاؤں نانار میں شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن مقامی آبادی، ماحولیاتی کارکنوں اور گاؤں کی کونسل کی مخالفت کی وجہ سے اسے بارسو گاؤں میں منتقل کیا، جو نانار گاؤں سے چند کلو میٹر دور ہے

مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے گذشتہ برس اس منصوبے کو بحال کیا تھا، لیکن اب جب ادھو ٹھاکرے اقتدار میں نہیں رہے تو وہ اس منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں

مہاراشٹر کی موجودہ حکومت جو ادھو ٹھاکرے کی پارٹی سے علیحدہ ہونے والے دھڑے اور بی جے پی کے اتحاد پر مشتمل ہے، اس کا کہنا ہے کہ ادھو ٹھاکرے کی مخالفت کے سیاسی محرکات ہیں

وزیر مملکت ادے سامنت کہتے ہیں ”یہ آلودگی سے پاک گرین ریفائنری ہے۔ بطور وزیرِ صنعت یہ میرا کام ہے کہ میں ان لوگوں کی غلط فہمیوں کو دور کروں جنھیں ’بیرونی طاقتیں‘ گمراہ کر رہی ہیں“

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان دعوؤں میں کوئی صداقت نہیں کہ ریفائنری کی تعمیر سے علاقے میں چٹانوں کی نقش نگاری کو کوئی نقصان پہنچے گا، جو اب عارضی طور پر یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست کا حصہ ہیں

وزیر مملکت نے یہ دعویٰ کیا کہ حکومت پہلے ہی منصوبے کے لیے مطلوبہ پانچ ہزار ایکڑ میں سے تین ہزار ایکٹر زمین حاصل کر چکی ہے

البتہ ذرائع ابلاغ نے موقع پر جو مشاہدہ کیا، وہ وزیر مملکت کے دعوؤں کی نفی کرتا ہے

مثال کے طور پر، اس منصوبے کے لیے مٹی کی جانچ کے لیے جہاں کھدائی شروع کی گئی ہے، وہ مقام نقش و نگار والی چٹانوں سے بمشکل چند میٹر کی دوری پر ہیں

حکام نے کم از کم چھ مقامی دیہی کونسلوں کے اعتراضات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ جہاں ریفائنری بننی ہے، وہ زمین ان بستیوں کی ملکیت نہیں ہے

لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاروں نے لوگوں سے دھوکہ دہی سے کم داموں میں زمین حاصل کی ہے۔ ان سرمایہ کاروں میں سیاستدان، پولیس اہلکار اور سرکاری اہلکار بھی شامل ہیں

ریفائنری مخالف کارکن ستیہ جیت چوہان کہتے ہیں ”حکومت اس علاقے کی قسمت کا فیصلہ مقامی لوگوں کے بجائے دو سو سرمایہ کاروں کے ہاتھ میں دے رہی ہے“

اس علاقے میں ریفائنری کے قیام کے حوالے سے رائے تقسیم ہے۔ کچھ لوگ اس کی مخالفت قدرتی ماحول کو خراب کرنے کی وجہ سے کر رہے تھے تو کچھ کی مخالفت کی وجہ علاقائی، نظریاتی جھکاؤ اور طبقاتی تقسیم ہے

دیہی علاقوں سے دور، راجاپور شہر کے ایک چھوٹے سے کاروبار کے مالک سورج پیڈنیکر کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے رتناگری ضلع کی قسمت کھل جائے گی جو ملک کے سب سے امیر ترین صوبے میں صنعتی طور پر پسماندہ ہے

حکومت کے اپنے اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ مہاراشٹر کی جی ڈی پی میں 8.5 فیصد کا اضافہ ہوگا۔

پیڈنیکر نے کہا ”نوجوان مردوں اور عورتوں کی پوری نسل کو روزی کمانے کے لیے ہر سال ممبئی اور پونے جانا پڑتا ہے۔ گاؤں خالی ہو رہے ہیں کیونکہ یہاں کوئی روزگار نہیں ہے۔ اگر ہمیں یہاں ریفائنری مل جاتی ہے اور اس میں پچاس ہزار لوگوں کو روزگار ملے گا، تو آبادی بڑھ جائے گی اور اس سے مقامی کاروباروں کو مدد ملے گی۔ ہم اس کی مخالفت کیوں کریں؟“

ان کے خیالات کی تائید بڑے قصبوں کے کئی دوسرے لوگوں نے بھی کی ہے، جن کا روایتی ذریعہ معاش اس منصوبے سے براہ راست متاثر نہیں ہوگا، لیکن گاؤں والے ان کی رائے سے متفق نہیں ہیں

ماہی گیر امتیاز بھٹکر کا کہنا ہے ”یہ نام نہاد نوکریاں تعلیم یافتہ گریجویٹس کو جائیں گی، مقامی ماہی گیروں کو نہیں۔ ہمیں ایسی نوکریوں کی ضرورت نہیں ہے“

مانشی بول کا کہنا ہے کہ اگر مقامی آبادی میں سے کچھ کو نوکری ملتی بھی ہے تو وہ بھی خاکروب اور چوکیدار کی ہوگی

ریاست میں اس منصوبے کی مخالفت میں کھڑے دیہاتیوں سے ہمدردی بڑھ رہی ہے۔ حال ہی میں پونے میں مقامی لکھاریوں، شاعروں اور مزاحمتی کارکنوں کی میٹنگ میں اس منصوبے کو ختم کرنے کے لیے حکام پر دباؤ ڈالنے کا عہد کیا گیا

ستیہ چوہان نے بتایا کہ وہ لوگوں سے کہیں گے کہ وہ ایسے سیاستدانوں یا سیاسی جماعتوں کو ووٹ نہ دیں، جو ریفائنری کے حق میں ہیں

یاد رہے کہ 1990ع کی دہائی میں اینرون سے لے کر 2000ع کی دہائی کے اوائل میں فرانس کی جانب سے یہاں ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ تعمیر کرنے کی کوشش تک ریلائنس گروپ اور ٹاٹا گروپ جیسے ہندوستانی گروپوں کو مقامی مزاحمتی گروپوں نے کونکن سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے

اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ مجوزہ ریفائنری کا بھی یہی حشر ہوتا ہے یا نہیں۔ مقامی دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس منصوبے کو یہاں سے ختم کرنے کے لیے اپنی آخری سانس تک لڑیں گے۔

ایک بار پھر ایسا لگتا ہے کہ یہ خطہ بھارت کے معاشی عزائم اور اس کے لوگوں کی ماحولیاتی حساسیت کے درمیان ایک فالٹ لائن بن گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close