یونان کشتی حادثہ اور کشمیر کے بنڈلی گاؤں میں دم توڑتی امیدیں۔۔

ویب ڈیسک

جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے لائن آف کنٹرول پر واقع بنڈلی گاؤں کے بیچوں بیچ چھوٹی چھوٹی پگڈنڈی نما سڑکوں پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی نقل و حرکت بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے قریب رکے بغیر آگے بڑھ جاتے ہیں، گویا ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے ہوں۔ گھروں کے ارد گرد ہلچل بڑھتی جا رہی ہے اور کسی گھر کے پاس سے گزرنے پر خواتین کی آہوں اور سسکیوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں

یہ آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی میں کھوئی رٹہ کا علاقہ ہے، جسے وادی ’بناہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس گاؤں سے غیر قانونی طریقوں سے یورپ جانے کا رجحان کافی پرانا ہے، مگر ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اس گاؤں کا کوئی شخص سمندری حادثے کا شکار ہوا ہو

بنڈلی وہی گاؤں ہے، جہاں سے گزشتہ تین سے چار ماہ کے دوران لگ بھگ تیس افراد غیر قانونی طور پر یورپ جانے کے لیے مختلف طریقوں سے لیبیا پہنچے اور ان میں سے زیادہ تر اس کشتی پر سوار تھے، جو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے یونان کے شہر پائلس کے قریب بحیرۂ روم میں ڈوب گئی تھی

اندازہ ہے کہ اس کشتی میں چار سو سے زیادہ افراد سوار تھے، جن میں ایک بڑی تعداد کم عمر بچوں کی بھی تھی۔ کشتی کے اس حادثے کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد 81 ہو گئی ہے جب کہ 104 لوگوں کو یونانی کوسٹ گارڈ نے زندہ بچا لیا تھا۔ متعدد افراد اب بھی لاپتا ہیں جن میں سے کسی کے بھی زندہ بچنے کے امکانات اب کم ہیں

کشتی پر سوار لوگوں کی اصل تعداد اور ان کی شہریت کے بارے ابھی تک درست معلومات موجود نہیں، تاہم اندازہ ہے کہ اس میں سوار لوگوں میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان، شام، مصر اور افغانستان سے ہے

اس حادثے میں زندہ بچنے والے 104 لوگوں میں سے بارہ پاکستانی شہری ہیں، جن میں بنڈلی گاؤں کے دوو نوجوان اکیس سالہ حسیب الرحمان اور تیئیس سالہ عدنان بشیر بھی شامل ہیں

اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ڈوبنے والی کشتی پر سوار آزاد کشمیر کے نوجوانوں کی تعداد چالیس سے پچاس کے درمیان ہو سکتی ہے اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اسی گاؤں سے ہے

اس حادثے کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس نے 12 معلوم اور کئی نامعلوم ایجنٹوں کے خلاف کھوئی رٹہ تھانے میں مقدمہ درج کر کے 10 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

خالد چوہان کہتے ہیں گرفتار افراد مقامی ہیں، جن کے اصل ایجنٹوں سے رابطے تھےاور یہ مقامی سطح پر معاملات طے کرتے تھے۔ایک مقامی ایجنٹ ایسا بھی ہے جس نے کئی لوگوں کے ساتھ لین دین کیا اور اس کا اپنا بیٹا بھی ڈوبنے والی کشتی پر سوار تھا اور اب لاپتا ہے

جب سے یونان میں کشتی ڈوبنے کی اطلاع اس گاؤں تک پہنچی ہے پورا گاؤں سوگ میں ڈوبا ہے۔ جن جن گھروں کے نوجوان اس کشتی پر سوار تھے وہاں لوگوں کا آنا جانا لگا ہے مگر یہ لوگ باہر سے آنے والے کسی اجنبی سے بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

‘ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد بیرون ملک ہے’

ایل او سی کا بنڈلی گاؤں سے فاصلہ چند کلو میٹر ہے اور ایل او سی کی دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کا راجوری ضلع ہے۔ ارد گرد کے دوسرے علاقوں کی نسبت اس گاؤں کے لوگوں کی معاشی حالت کافی بہتر ہے۔ دونوں اطراف سے پہاڑیوں میں گھری اس چھوٹی سی آبادی میں زیادہ تر گھر پختہ ، بڑے اور جدید طرز کے ہیں

ایک اندازے کے مطابق 10 ہزار آبادی کے اس علاقے کے نصف کے لگ بھگ لوگ برطانیہ، یورپ یا خلیجی ممالک میں ہیں۔ پچھلے تین سالوں کے دوران اس علاقے سے پانچ سو سے زائد نوجوان ڈنکی مار کر غیر قانونی طور پر یورپ گئے۔

مقامی صحافی محمد افضل کے مطابق اس علاقے کا شاید ہی کوئی گھر ہو جس کے ایک یا ایک سے زائد افراد بیرونِ ملک مقیم نہ ہوں

ہر طرف دکھ کی کہانیاں بکھری ہوئی ہیں

بنڈلی کا 27 سالہ شمریز نامی نوجوان بھی اسی گروپ کے ساتھ گاؤں سے نکلا اور ممکنہ طور پر حادثے کا شکار ہونے والی کشتی پر سوار تھا۔

شمریز کی 65 سالہ بیوہ ماں آنکھوں میں آنسو لیے کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے سب کچھ بیچ کر اور گروی رکھ کر قرضہ لے کر گیا۔ ‘غربت نہ ہوتی تو اسے گھر سے کیوں نکلنے دیتی۔’

شمریز کی اہلیہ نے، جو اپنا نام ظاہر کرنانہیں چاہتیں، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب سے حادثے کی خبر ملی ہے وہ بار بار اس ایجنٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں مگر وہ اب کال اٹھاتا ہے اور نہ ہی میسج کا جواب دیتا ہے۔

‘میں نے اس مقامی ایجنٹ سے بھی رابطہ کیا جس کے ذریعے ہم نے اصل ایجنٹ کو پیسے دیے تھے، مگر وہ کہتا ہے کہ آپ کا خاوند ڈوبنے والی کشتی پر سوار نہیں تھا۔’

شمریز کی اہلیہ کے مطابق گزشتہ منگل کو شمریز نے آخری بار پیغام بھیجا کہ ہمارا جہاز آج نکلے گا اور اب آپ سے اٹلی پہنچ کر ہی رابطہ کروں گا۔

وہ کہتی ہیں کہ، ‘اس دن کے بعد ہمارا اس سے کوئی رابطہ نہیں، کوئی ایجنٹ بھی رابطہ نہیں کروا رہا۔ اٹلی میں جو ہمارے رشتہ دار ہیں وہ کہتے ہیں کہ شمریز ڈوبنے والی کشتی پر ہی تھا۔ اب بس دعا ہی کر سکتی ہوں کہ وہ جہاں بھی ہے خیریت سے ہو۔’

بنڈلی کے رہائشی سکندر خان کے خاندان کے چار نوجوان لاپتا ہیں۔ ان کے بقول ان کے دو بھتیجے اور ایک بھانجا ایک ماہ بیس دن قبل گھر سے نکلے تھے جب کہ ایک بھتیجا چھ ماہ سے لیبیا کی جیل میں تھا اور وہاں سے رہا ہونے کے بعد ان کے ساتھ شامل ہوا تھا۔ گزشتہ منگل سے ان کا اپنے عزیزوں سے کوئی رابطہ نہیں۔

سکندر خان ہجرت کی بنیاد بے روزگاری کو ہی قرار دیتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں کہ یہاں نہ کوئی فیکٹریاں ہیں، نہ کاروبار ہے۔ نوجوان یہاں رہیں تو کیا کریں؟ کوئی کام ہی نہیں۔

اس سوال پرکہ یہ نوجوان غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ سکندر خان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی غیر قانونی کام حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ایف آئی اے والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ بغیر ویزہ کے جا رہے ہیں مگر وہ ان کو نہیں روکتے بلکہ پیسے لے کر جانے دیتے ہیں۔

لاپتا نوجوانوں میں ایک ایسا نوجوان بھی شامل ہے جو اپنے پانچ سالہ اور دو سالہ بیٹوں کو چھوڑ کر گیا ہے۔ ویلڈنگ کا کاریگر 26 سالہ ناصر اس امید پر یورپ کے سفر پر نکلا کہ اس کے بچوں کا مستقبل بہتر ہو گا اور وہ پڑھ لکھ کر کسی قابل ہو سکیں گے۔

مقامی سماجی کارکن عابد راجوری نے بتایا کہ جانے سے پہلے جب ان کی ناصر نامی اس نوجوان سے ملاقات ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ میں خود تو زیادہ نہیں پڑھ سکا مگر اپنے بچوں کو ضرور پڑھاؤں گا۔

عابد کے بقول ناصر ابھی لیبیا میں ہی تھا کہ اس کا پانچ سالہ بیٹا اسے مسلسل یاد کرتا رہا اور پھر اچانک کسی نامعلوم بیماری کا شکار ہو کر مر گیا۔ ناصر اپنے بیٹے کے جنازے میں بھی شامل نہیں ہو سکا۔ ‘ہم نے اسے ویڈیو کال پر جنازے میں شامل کیا۔’

عابد کے بقول جس دن کشتی کو حادثہ پیش آیا، اس سے ایک دن قبل ناصر کا دوسرا بیٹا بھی شدید بیمار پڑ گیا تھااور اب اسپتال میں زندگی و موت کی کش مکش میں ہے۔

محمد ایوب کو معلوم ہے اُن کے بھائی اس کشتی پر سوار ہو گئے تھے لیکن اب تک ان کی شناخت نہ تو مرنے والوں میں ہوئی ہے اور نہ وہ ان بارہ پاکستانی شہریوں میں شامل ہیں جو زندہ بچ گئے تھے۔

کشتی کو ڈوبے اب کئی دن بیت چکے ہیں لیکن پھر بھی محمد ایوب کو امید ہے کہ ’شاید۔۔۔ شاید کوئی معجزہ ہو گیا ہو‘ اور ان کے بھائی محمد یاسر اب بھی زندہ ہوں۔

حالانکہ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے گاوں بنڈلی سے جو دو لڑکے زندہ بچ جانے والوں میں شامل تھے، وہ یہ بتا چکے ہیں کہ جب کشتی الٹی تو ان کے گاؤں کے باقی 26 لڑکے بھی اُن کے ساتھ ہی کشتی پر ہی سوار تھے۔

اس کے بعد وہ کہاں گئے گاؤں کے ان دو زندہ بچ جانے والے لڑکوں کو نہیں معلوم۔ وہ تو خود سمندر میں کود گئے تھے جہاں سے یونانی کوسٹ گارڈز نے ان کی جانیں بچائیں۔

یونان میں کشتی ڈوبنے کے واقعے کے بعد اب تک لگ بھگ 78 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ اس کشتی پر 700 سے زیادہ افراد سوار تھے۔

لیکن محمد ایوب نے اپنی آنکھوں سے اپنے سب سے چھوٹے بھائی کی لاش نہیں دیکھی اور اب تک انھیں وہ بُری خبر بھی نہیں ملی جو شاید وہ جانتے ہیں مگر سننا نہیں چاہتے، لیکن ان کے لیے اس خبر کا انتظار بھی کٹھن ہے۔

’پتا تو چلے کہ وہ زندہ ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو اس کی لاش تو ہمیں مل جائے تاکہ ہم اس کی تدفین کر سکیں۔‘

محمد ایوب سے زیادہ یہ انتظار محمد یاسر کی اہلیہ کے لیے جان لیوا ہے جنھوں نے اپنی ایک سالہ بیٹی گود میں اٹھا رکھی ہے۔ ان کا بڑا بیٹا تین سال کا ہے جو گھر کے آنگن میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ اس کو یہ بھی معلوم نہیں کہ گھر کے باہر لگے شامیانے کے نیچے لوگ کیوں آ کر بیٹھ رہے ہیں۔

محمد ایوب آپس میں چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ محمد یاسر ان میں سب سے چھوٹے بھائی تھے۔ ان کے پاس صرف پانچ کنال زرعی زمین ہے جس سے گزر بسر ہونا ناممکن ہے۔

چاروں بھائیوں کو محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے تو گھر چلتا ہے۔ ادھ گری گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ گھر کے صحن میں کھڑے محمد ایوب نے بتایا کہ حالات اتنے زیادہ خراب ہو گئے تھے کہ ان سے تنگ آ کر ان کے بھائی محمد یاسر نے یورپ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔

’کیا کرتے، بھوک سے مر رہے تھے۔ مزدوری کبھی ملتی ہے، کبھی نہیں ملتی اور جو ملتی ہے اس سے گزر بسر نہیں ہوتا اور مہنگائی اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ گھر کا خرچ برداشت کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔‘

ان کے گاؤں کے درجنوں نوجوان اس پُرخطر سفر کے لیے یا تو چند روز پہلے ہی جا چکے تھے، یا ان کے ساتھ جا رہے تھے اور کچھ ان کے بعد کے دنوں میں ان کے پیچھے آنے والے تھے۔

بحرِ روم میں یونان کے پانیوں میں ڈوبنے والی کشتی میں بنڈلی گاؤں کے لگ بھگ 20 سے زیادہ مرد سوار ہونے کی اطلاعات ہیں۔

گاؤں کے ان ہی افراد میں 26 سالہ ساجد اسلم بھی شامل تھے۔ انھوں نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی تھی لیکن اس کے بعد سے والد کے ساتھ ہاتھ بٹانے کے لیے قریب ہی واقع کھوئی رتہ شہر میں اپنی دکان پر کام کرتے تھے۔

ان کی چھوٹی بہن اریبہ اسلم بی اے کی طالبہ ہیں جنھیں اب تک یقین نہیں آ رہا کہ ان کے بھائی شاید اب کبھی واپس نہ آ سکیں گے۔

وہ بات کرنے کے لیے تمام تر ہمت مجتمع کرنے کے باوجود جب بات کرنے لگیں تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔

’میرے والد بلڈ پریشر کے مریض ہیں۔ ہم دو بہنیں پڑھ رہی ہیں، وہ ہمارے گھر کا سہارا تھا۔ اب ہم کیا کریں گے۔‘

اریبہ کو بے بسی کے ساتھ شدید غصہ بھی ہے اور اس غصے کا رخ ان انسانی سمگلروں کی طرف ہے جو ان کے ’بھائی کو ورغلا کر لے گئے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ یہ سارا کیا دھرا ایجنٹوں کا ہے۔ ’انھوں نے میرے بھائی کو سبز باغ دکھائے۔ وہ اپنے بہتر مستقبل کے لیے یورپ کی طرف گئے اور اپنی جان کی بازی ہار گئے۔‘ اس کے بعد وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ ان کے ساتھ بیٹھے ان کے والد راجہ محمد اسلم انھیں دلاسہ دینے کی کوشش کرتے رہے۔

راجہ محمد اسلم کہتے ہیں کہ ان کے خاندان سے بہت سے لڑکے پہلے بھی اسی طرح انسانی سمگلروں کی مدد سے یورپ جانے کی کوشش کر چکے تھے اور کچھ وہاں پہنچ بھی چکے تھے۔ ان کے گاؤں کے بہت سے لڑکے بھی اسی راستے سے گئے تھے۔ خود ساجد اسلم کے چند کزنز ایک سے زیادہ کوششیں کر چکے تھے

محمد ایوب نے اب بھی مکمل طور پر امید نہیں چھوڑی لیکن وہ کہتے ہیں انتظار کی اذیت برداشت کرنا اب ان کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

’اگر ہمارا بھائی زندہ نہیں بھی تو کم از کم ہمیں اس کی لاش مل جائے تا کہ ہم اس کی تدفین کر پائیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ تمام تر حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ان کے بھائی کے زندہ بچ جانے کی امید کم ہے لیکن وہ جب تک خود اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں لیتے، وہ امید قائم ہی رکھیں گے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ جو پاکستانی اب تک ’لاپتہ‘ ہیں انھیں واپس لانے میں وقت لگے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close