اٹھائیس سالہ توقیر خان دو سال سے اٹلی کے شہر میلان میں ہے۔ اس کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی سے ہے اور وہ لیبیا سے سمندری راستے سے غیر قانونی طور پر اٹلی میں داخل ہوا تھا
ٹیلی فون پر اپنی کہانی سناتے ہوئے توقیر خان نے بتایا میں اپنے گھر سے نکلنے کے تین ماہ بعد اٹلی پہنچا۔ جس ایجنٹ کے ذریعے میں یہاں تک پہنچا اس کے ساتھ میرا رابطہ اپنے ایک کزن کے ذریعے ہوا، جس کو اسی ایجنٹ نے تعلیمی ویزے پر اٹلی بھیجا تھا۔ میں بھی تعلیمی یا وزٹ ویزے پر آنا چاہتا تھا۔ ایجنٹ نے بتایا کہ پاکستان سے ویزا ملنا مشکل ہے البتہ دبئی سے ایک ماہ میں ویزہ مل جاتا ہے“
توقیر خان اور اس کے تین ساتھی اسی ایجنٹ کے ذریعے دبئی کا وزٹ ویزا لے کر وہاں پہنچے، تو وہاں اس ایجنٹ کے لوگ انہیں دبئی سے دور راس الخیمہ کے علاقے میں ایک زیرِ تعمیر بستی میں لے گئے اور وہاں ٹھہرا دیا۔ توقیر نے اس گروہ کے اہلکاروں کا تعلق گجرات سے بتایا
توقیر بتاتے ہیں ”انہوں نے ہمارے پاسپورٹ وغیرہ لے لیے۔ اور ہمیں یہ کہتے ہوئے اس جگہ سے باہر جانے سے سختی سے منع کر دیا کہ پولیس گرفتار کر لے گی۔ اس جگہ ہمارے علاوہ تقریباً دو درجن لوگ اور بھی تھے۔ ہم دس پندرہ دن وہاں رہے۔ اس دوران ایجنٹ کے ساتھ ہمارا کبھی کبھار واٹس ایپ پر رابطہ ہوتا تھا“
توقیر کے مطابق انہوں نے اس ایجنٹ کو اٹھارہ لاکھ روپے پیشگی ادا کیے تھے، مگر دبئی پہنچ کر ایجنٹ نے مزید پیسوں کا تقاضا شروع کر دیا کہ دبئی سے ویزا لگنا مشکل ہے، اب لیبیا جانا پڑے گا اور وہاں سے ویزا با آسانی مل جائے گا
وہ کہتے ہیں ”میں نے گھر والوں سے منگوا کرمزید چار لاکھ روپے ایجنٹ کو دیے۔ لگ بھگ ڈیڑھ ماہ بعد وہ لوگ ہمیں دبئی سے لیبیا کے شہر طبرق لے آئے۔ یہاں ساحل کے قریب ایک بدبودار گودام میں ہم نے تقریباً بیس دن گزارے۔ لیبیا پہنچ کر اس ایجنٹ نے ہمیں مصری لوگوں کے ایک گروہ کے حوالے کر دیا۔ ان لوگوں نے ہم سے پاسپورٹ وغیرہ واپس لے لیے۔ یہاں انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر نہیں تھی۔ نہ مصری گروہ کو ہماری بات سمجھ آتی نہ ہمیں ان کی۔ بیس دن کے بعد میرا کسی نہ کسی طرح ایجنٹ سے رابطہ ہوا تو اس نے کہا کہ ویزا ملنا تو مشکل ہے اب ایک ہی راستہ ہے، اٹلی جانا ہے تو کشتی میں بیٹھ کر جانا پڑے گا“
توقیر خان کے بقول اس عرصے میں ان کا گھر والوں سے بھی بس ایک آدھ بار مرتبہ ہی رابطہ ہو پایا۔ ہم لوگ بدبو کی وجہ سے بیمار پڑ گئے تھے۔ ہمارے جسم پر پھوڑے نکل آئے اور دبئی سے نکلنے کے بعد ہم نے شیو کی اور نہ بال کاٹے
توقیر نے بتایا ”اپنی پریشانی گھر والوں کو بھی نہیں بتا سکتے تھے۔ مصری گروہ کے لوگوں سے کہتے کہ ہمارا پاسپورٹ واپس کرو ہم واپس چلے جاتے ہیں مگر وہ دھمکیاں دیتے کے اگر شور شرابہ کیا تو پولیس کے حوالے کر دیں گے۔ پاسپورٹ اب اٹلی جا کر ہی ملے گا۔ ہم ان کی قید میں تھے اور وہاں سے باہر نکلنے کا مطلب پولیس کے ہاتھ آنا تھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ گودام سے باہر نکلے تو واپسی کا راستہ نہیں ملے گا۔ انہوں نے ہمیں کھانا پینا دینا بھی بند کر دیا۔ تو تنگ آ کر ہم نے کشتی کے ذریعے ہی اٹلی آنے کا فیصلہ کیا۔“
انہوں نے مزید بتایا ”ہمارا یہ سفر رات کے پچھلے پہر شروع ہوا اور چھوٹی سی کشتی میں ہم چار سو کے لگ بھگ لوگ تھے۔ ہم سات دن اور آٹھ راتیں سمندر میں گزارنے کے بعد اٹلی پہنچے اور اس دوران راستے میں کئی مرتبہ سمندری محافظوں سے بچنے کے لیے کشتی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شدید دھوپ اور طوفانی بارش کی وجہ سے ہماری حالت خراب ہو گئی تھی۔ کئی بار ایسی طوفانی لہروں سے ٹکرائے کہ کشتی الٹتے الٹتے بچی۔“
توقیر بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ اس کشتی میں کئی شامی خاندان اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ ”کم از کم تین بچوں کو میں نے بھوک پیاس اور موسم کی سختی سے راستے میں ہی مرتے دیکھا۔ کشتی کا عملہ بار بار ان بچوں کی لاشیں سمندر میں پھینکنے کے لیے ان لوگوں کو مجبور کرتا“
انسانی سمگلر کہاں سے اور کیسے ملتے ہیں؟
آزاد کشمیر کے گاؤں بنڈلی راجہ محمد اسلم کا بیٹا ساجد اسلم حال ہی میں یونان کے ساحل پر حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں سوار تھا۔ راجہ اسلم کہتے ہیں کہ یہ اسمگلر زیادہ تر ان ہی کے علاقے کے ہوتے ہیں، جنہیں سب جانتے ہوتے ہیں۔ وہ نوجوان لڑکوں کو راستہ دکھاتے ہیں کہ بغیر ویزے کے بھی یورپ جانا ممکن ہے اور وہاں جا کر ان کی زندگی بدل جائے گی
انہوں نے بتایا ”میں نے اپنے بیٹے کو بہت سمجھایا کہ یہ بہت خطرناک راستہ ہے لیکن وہ بضد تھا۔ تو مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ اگر میں نے اس کو زیادہ روکا یا پیسے نہ دیے تو وہ گھر سے بھاگ کر بھی یہ قدم اٹھا لے گا“
بنڈلی کے رہائشی محمد ایوب کے ساتھ معاملہ قدرے مختلف تھا۔ ان کے بھائی محمد یاسر نے خاندان کی مشاورت سے فیصلہ کیا تھا۔ پھر انہوں نے کسی ’انسانی اسمگلر ایجنٹ‘ سے رابطہ کیا جو راولپنڈی میں رہتا تھا۔ محمد یاسر کے علاوہ اس ایجنٹ سے ان کے گھر کے کسی فرد کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی
”اس کے ساتھ بس فون پر ہی رابطہ تھا۔ میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔ صرف میرے بھائی کو ہی علم تھا کہ وہ اس سے کیسے ملا۔“
راجہ محمد اسلم کہتے ہیں کہ یہ ایجنٹں مختلف گروپوں میں کام کرتے ہیں۔ یہاں کے ایجنٹس کا کام صرف یہاں سے لوگوں کو تیار کرنا، پیسے لینا اور انہیں اگلی منزل کی طرف روانہ کر دینا ہوتا ہے۔ آگے دوسرے ایجنٹ ہوتے ہیں اور پھر لیبیا میں پہنچ کر بڑے ایجنٹس ہوتے ہیں
محمد یاسر اور ساجد اسلم بحرِ روم تک کیسے پہنچے؟
محمد ایوب نے بتایا کہ ان کے بھائی نے لگ بھگ ایک ماہ قبل خاندان والوں سے آخری ملاقات کی اور وہ بنڈلی سے اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ اسلام آباد سے ایجنٹ نے انھیں ٹکٹ دے کر جہاز پر بٹھایا۔ اسی ٹکٹ پر انھیں اسلام آباد سے لیبیا تک سفر کرنا تھا اور راستے میں جہاز کو پہلے دبئی اور پھر مصر میں رکنا تھا۔ ساجد اسلم کا سفر بھی بالکل ایسا ہی تھا
ساجد کے کزن وسیم اکرم نے بتایا کہ مصر سے لیبیا جانے کے لیے ایجنٹس نے انھیں کچھ پرمٹ دیا، جو جعلی ہوتا ہے اور اس پر لیبیا میں داخلہ غیر قانونی ہوتا ہے ’لیکن لیبیا میں حکومت وغیرہ تو ہے نہیں اس لیے وہاں جانا آسان ہوتا ہے اس لیے سارے ایجنٹس لیبیا ہی کا انتخاب کر رہے ہیں۔‘
محمد ایوب کہتے ہیں کہ جب ان کے بھائی محمد یاسر لیبیا پہنچ گئے اور انھوں نے وہاں سے فون پر اطلاع دی تو پھر ایجنٹ کے ساتھ معاہدے کے مطابق انھوں نے یہاں 22 لاکھ روپے کی رقم ایجنٹ کے بجھوا دی۔ یہ پیسے انھوں نے مختلف رشتہ داروں اور دوستوں سے ادھار لی تھی
ان کا خیال تھا کہ جب ان کے بھائی یورپ پہنچ کر کمانا شروع کر دیں گے تو وہ تمام لوگوں کو رقم واپس کر دیں گے لیکن اب وہ یہ کیسے یہ رقم لوٹائیں گے، انھیں نہیں معلوم
لیبیا پہنچنے پر کیا ہوتا ہے؟
محمد ایوب کہتے ہیں کہ لیبیا پہنچ کر بس انتظار ہوتا رہا کہ کب کشتی تیار ہو اور کب ان کے بھائی اس پر سوار ہو کر یورپ کی طرف سفر شروع کریں۔ اس انتظار کے دوران ان کے بھائی کو بہت کٹھن دن بھی گزارنے پڑے
’ایک دن اس نے فون کیا اور بتایا کہ انھوں نے مجھے کھانے کے لیے تین چار دن سے کچھ نہیں دیا۔ میں تو بالکل لاغر ہو گیا ہوں، کیا کروں۔ اس کے بعد ہم نے یہاں ایجنٹ سے رابطہ کیا اور اسے کہا کہ یہ کیا ہو رہا۔ ایسے حالات ہیں تو یا اس کو واپس بھیج دو یا آگے یورپ بھیجو۔ آخر تم نے پیسے لیے ہیں، 22 لاکھ روپے لیے ہیں۔‘
اس کے ایک دو روز بعد ہی محمد یاسر کی کشتی پر جانے کی باری آ گئی۔ انھوں نے اپنے خاندان والوں کو بتایا کہ ’آج میں جا رہا ہوں۔ میں کشتی پر بیٹھ گیا ہوں۔‘
ساجد اسلم بھی اسی کشتی پر سوار ہو گئے تھے۔ وہ بھی ایجنٹ کو بائیس لاکھ روپے ادا کر کے آ رہے تھے۔ ان کی اپنی بہن اریبہ اسلم سے فون پر بات ہوئی تھی۔
’انھوں نے بتایا تھا کہ وہ تین دن بعد یورپ پہنچ جائیں گے لیکن جب سات دن گزر گئے اور ان سے رابطہ نہیں ہوا تو ہمیں خوف ہوا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔‘
بحیرۂ روم میں کیا ہوا؟
محمد ایوب اور راجہ محمد اسلم کہتے ہیں کہ عموماً اس قسم کے سفر پر تین دن ہی لگتے تھے، جن میں لوگ لیبیا سے یورپ پہنچ جاتے تھے۔ جس کشتی پر ان کے بیٹے سوار ہوئے تھے اس کو لیبیا سے نکلے تین دن سے زیادہ گزر چکے تھے۔ ان کا اپنے بیٹے سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔
انھوں نے پاکستان میں موجود ایجنٹس کو فون کیا اور معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ان کے بیٹے کہاں ہیں۔ ’وہ پہلے تو ٹال مٹول کرتے رہے کہ آج فلاں فلاں جگہ پر ہیں کل یورپ کے پانیوں میں داخل ہو جائیں گے لیکن پھر ایک دن انھوں نے اپنے فون بند کر دیے۔‘
اس کے بعد یونان سے راجہ محمد اسلم کے کسی عزیز نے ان کو خبر دی کی تارکین وطن کی لیبیا سے یورپ جانے والی کشتی کو حادثہ پیش آ گیا ہے اور وہ ڈوب گئی ہے۔ اس کے بعد خبریں آنا شروع ہو گئیں۔ صرف 80 کے لگ بھگ افراد کی جان بچائی جا سکی تھی جن میں صرف 12 پاکستانی شامل تھے۔ ان میں سے دو کا تعلق بنڈلی سے بھی تھا لیکن وہ محمد یاسر اور ساجد اسلم نہیں تھے۔
محمد ایوب اور راجہ محمد اسلم کے خاندانوں کو ایک مبہم سی امید تھی کہ شاید ان کے پیارے اس کشتی میں سوار ہی نہ ہوئے ہوں لیکن بنڈلی کے دو زندہ بچ جانے والوں نے اپنے پیغامات میں بتایا کہ وہ ان کے ساتھ ہی کشتی میں سوار تھے۔ ان کے مطابق بنڈلی سے تعلق رکھنے والے 28 افراد اس کشتی میں سوار تھے۔