امریکہ کی دو کمپنیوں کو جانوروں کے خلیوں سے تیار کیے گئے چکن کو براہ راست فروخت کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جلد ہی ‘کاشت شدہ گوشت’ بھی صارفین کو مخصوص ریستورانوں میں دستیاب ہوگا۔
امریکی محکمہ زراعت نے 21 جون بدھ کے روز ملک میں لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت کی فروخت کی منظوری دی
’اپ سائیڈ فوڈز‘ اور ’گڈ میٹ‘ نامی ایسی پہلی دو کمپنیاں ہیں، جنہوں نے ایسے گوشت کے فروخت کی منظوری حاصل کی ہے۔ گزشتہ نومبر میں یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے پہلے ہی لیب میں تیار کردہ گوشت کو کھانے کے لیے محفوظ قرار دیا تھا
اپ سائیڈ فوڈ کی سی ای او اور کمپنی کی بانی اوما والیٹی نے اس منظوری کو ایک ’خواب کا سچ ہونا‘ قرار دیتے ہوئے کہا ”یہ ایک نئے دور کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے“
اوما والیٹی کا کہنا تھا کہ یہ منظوری بنیادی طور پر اس بات کو تبدیل کر دے گی کہ گوشت ہمارے کھانے کی میز پر کس طرح پہنچتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی پائیدار مستقبل کی جانب ایک بڑا قدم ہے، جو انتخاب کرنے کے عمل اور، بقول ان کے، زندگی کو بھی محفوظ رکھتا ہے
واضح رہے کہ روایتی طور پر افزائش شدہ گوشت کے برعکس، لیبارٹری سے تیار کردہ گوشت کو مصنوعی طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ اس میں دراصل جانوروں کی پروٹین ہی شامل ہوتی ہے۔ تاہم روایتی گوشت کے برعکس، اس میں جانوروں کو ذبح کرنا شامل نہیں ہے
لیب میں ایسا گوشت تیار کرنے کے لیے ایک زندہ جانور یا فرٹیلائزڈ سیل سے خلیات کو حاصل کیا جاتا ہے، پھر ان خلیات کو ایک ساتھ جمع کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد خلیوں کو اسٹیل کے ٹینکوں میں رکھ کر اس کی کاشت کی جاتی ہے اور پھر اس عمل کے دوران اسے اسی طرح کے غذائی اجزاء بھی دیے جاتے ہیں، جو جانور کھاتے ہیں
اس کے بعد اس گوشت کو روایتی کٹلیٹس یا پیڑوں، جیسے فیلیٹ، نگیٹس یا ساتے کی شکل دی جاتی ہے
واضح رہے کہ سنگاپور پہلا ملک ہے، جن نے دسمبر 2020ع میں ایک کمپنی ’جسٹ اِیٹ‘ کو مصنوعی طریقے سے گوشت تیار کرنے کی اجازت دی تھی
امریکی حکومت نے لیب میں تیار شدہ گوشت کو فروخت کرنے کی اجازت تو دے دی ہے، تاہم اس کی پیداوار میں چونکہ لاگت بہت زیادہ آتی ہے، اس لیے اوسط امریکیوں کے استعمال کے لیے ایسے گوشت کی دستیابی راتوں رات ہونے کی توقع نہیں ہے
لیکن اسی دوران اعلیٰ درجے کے ریستورانوں نے اپنے یہاں ایسا گوشت استعمال کرنے کے لیے معاہدے بھی کر لیے ہیں
’اپ سائیڈ‘ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کا پہلا آرڈر سان فرانسسکو میں بار کرین کے معروف شیف ڈومینک کرین کے ریستوراں میں پکایا گیا تھا، جبکہ ’گڈ مِیٹ‘ کا پہلا تیار شدہ گوشت معروف شیف جوز اینڈریس کو فروخت کیا جائے گا
لائف سائیکل کی تحقیق کے مطابق 2040 تک مصنوعی گوشت عالمی منڈی کے 35 فیصد پر حاوی ہو جائے گا
اس صنعت کو ماحولیاتی نقطہ نظر سے بھی کافی سراہا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا 14.5 فیصد حصہ مویشیوں کی پیداوار ہے
اسی لیے پہلے سے ہی لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت کو ایک ماحول دوست کے متبادل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جبکہ ماہرین اس رائے سے متفق نظر نہیں آتے
گزشتہ ماہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی جانب سے، جس نے اس کا جائزہ لینے کے لیے اس پر تحقیق کی ہے، نے تجویز کیا تھا کہ جدید گوشت ماحول کے لیے اتنا اچھا بھی نہیں ہے، جتنا کہ خیال کیا جاتا ہے
تحقیقات کے مطابق لیبارٹری میں گوشت کی پیداوار کے تمام مراحل میں جو توانائی خرچ ہوتی ہے اور اس عمل میں جن گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ہوتا ہے، وہ روایتی گوشت کی تیاری کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اس کے مطابق خاص طور پر لیبارٹری میں تیار شدہ گائے کے گوشت کے معاملے میں، تو یہ بالکل سچ ہے
جہاں تک لیب میں تیار کردہ چکن کے عوام میں مْقبول ہونے کا سوال ہے تو سنگاپور دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے لیبارٹری میں تیار کیے گئے گوشت کی فروخت کی اجازت دی تھی لیکن تقریباً ڈھائی سال گزرنے کے بعد بھی وہاں اس نئی صنعت کو سپلائی کے مسائل اور عوامی قبولیت جیسی رکاوٹوں کا سامنا ہے
ایسے وقت میں جب ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں خوراک کی عالمی کمی کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے اس پروڈکٹ کو متعدد مسائل کا ممکنہ حل سمجھا جا رہا تھا
زمین کی کمی کے سبب سنگاپور میں یہ مسئلہ اور بھی زیادہ سنگین ہے، جہاں 90 فی صد خوراک درآمد کرنی پڑتی ہے
ایسے گوشت تک رسائی اور اس کی مسلسل فراہمی کو ممکن بنانا، سنگاپور کی خوراک سے متعلق پالیسی میں شامل ہے
2030 تک اپنی غذائی ضروریات کا 30 فی صد مقامی طور پر پیدا کرنا سنگاپور کے اہداف میں شامل ہے
کرونا کی عالمی وبا کے دوران خوراک کی برآمدات پر مرتب ہونے والے اثرات سنگاپور کے لیے ایک اور وارننگ تھی۔
’چکن رائس‘ کو سنگاپور کی قومی ڈش تصور کیا جاتا ہے لیکن اس کے پڑوسی ملک ملائیشیا نے گزشتہ برس خوراک کی عالمی کمی کی وجہ سے سنگاپور کو چکن کی برآمد پر پابندی لگا دی تھی
’ہیوبرز بچری اینڈ بِسترو‘ سنگاپور کاواحد ایسا ریستوران ہے، جو لیب میں تیار کردہ چکن کی ڈشز صارفین کو پیش کرتا ہے۔ اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آندرے ہوبر کہتے ہیں ”ہمیں دوسرے ممالک سے چکن کے حصول کے لیے کوششیں کرنی پڑتی ہیں، اسی لیے حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں اپنی خوراک خود پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے پاس زمین یا جانور نہیں ہیں۔اس لیے ہم اپنی ضرورت کا گوشت لیباٹری میں تیار کر سکتے ہیں۔“
سنگاپور نے دسمبر 2020 میں لیبارٹری میں تیار کردہ چکن کی فروخت کی اجازت دی تھی جس کے بعد لیب میں تیار شدہ گوشت کی پروڈکٹس ہیوبرز بچری اینڈ بِسترو میں دستیاب ہیں، لیکن ان کی فراہمی محدود ہے۔ لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت کے لیے صارفین کی قبولیت اس صنعت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو سکتی ہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے کے نائب سربراہ ہوانگ ڈیجیان اس گوشت کے مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سی بنیادیں پہلے ہی رکھی جا چکی ہیں اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آئندہ پانچ برسوں میں لوگوں کو لیب میں تیار کردہ گوشت چکھنے کا موقع مل سکتا ہے
انہوں نے لیب میں تیار شدہ گوشت کے بارے میں کہا کہ اس کا مستقبل کافی روشن ہے۔