ماہِ رواں میں بحر اوقیانوس سے جڑے دو حادثے سامنے آئے۔ پہلے حادثے میں بحیرۂ روم کے ذریعے لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی جنوبی یونان کے ساحل کے قریب سینکڑوں تارکین وطن کے ساتھ ڈوب گئی، جبکہ دوسرے حادثے میں ایک تفریحی آبدوز ممکنہ طور پر سمندری دباؤ سے تباہی کا شکار ہوئی، جس میں سوار پانچ لوگوں کو ٹائٹینک کا ملبہ دکھانے کے لیے لے جایا جا رہا تھا
دونوں ہی واقعات پر عالمی سطح پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے، یقیناً دونوں حادثات اپنے اندر کرب کی کہانیاں سموئے ہوئے ہیں
لیکن لوگ کچھ الگ زاویے سے سوچ رہے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ ان دونوں واقعات پر امدادی کارروائیاں، میڈیا کی کوریج اور دلچسپی یکساں نہیں
ٹائٹن آبدوز میں سفر کرنے والے ہر اس شخص کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہے، جس نے ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنے کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر ادا کیے تھے۔ جبکہ اس حادثے پر امریکی کوسٹ گارڈ کی نیوز کانفرنسز اور ٹی وی چینلوں کی لائیو نشریات نے لاکھوں ویوز بٹورے ہیں
اس معاملے پر اوشین گیٹ کمپنی کی بنائی اس آبدوز کا بھی ذکر ہو رہا ہے اور اس کے مالک کے سابقہ انٹرویوز گردش کر رہے ہیں، جس میں انہوں نے عالمی میڈیا کے ذریعے ان تفریحی دوروں کی تشہیر کروائی تھی
غربت کے ستائے تارکین وطن کے یورپ جانے کا سفر اور تفریح کی غرض سے ٹائٹینک دیکھنے کے خواہشمند امرا کی کہانیاں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ تاہم ان دونوں واقعات کے بارے میں انٹرنیٹ پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ اکثر لوگ ان حادثوں پر ریسکیو حکام کا ردعمل اور میڈیا کی کوریج کو تنقید کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو سمجھتا ہے کہ تارکین وطن، جن کی سینکڑوں کی تعداد میں ہلاکت کا خدشہ ہے، انھیں نظر انداز کیا گیا
کشتی سے بچائے گئے لوگوں نے یہاں تک بتایا ہے کہ اس پر سو بچے بھی سوار تھے اور انہوں نے کئی بار وہاں گزرنے والے مسافر اور کارگو جہازوں سے مدد مانگی تھی، مگر انہیں پانی اور کھانا دینے کے علاوہ ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی تھی
یونان کے کوسٹ گارڈ کا دعویٰ ہے کہ کشتی اٹلی کی جانب روانہ تھی اور اسے مدد کی ضرورت نہیں تھی، لیکن موصول ہونے والی شہادتیں اور ٹریکنگ ڈیٹا اس کی نفی کرتی ہیں
کئی لوگوں نے یہ محسوس کیا ہے کہ تارکین وطن کی اموات میں اس قدر دلچسپی ظاہر نہیں کی گئی جتنی آبدوز کے ڈوبنے میں۔۔
مریم نامی ایک صارف ٹوئٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں ”امیر سیاحوں کی تلاش کے عمل کو دی جانے والی پریس کوریج سے لے کر تلاش کا عمل اور دوسری جانب ڈوبنے والے تارکینِ وطن کی کوریج نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ اس دنیا کی عکاس ہے، جس میں ہم سب رہتے ہیں“
شمس خان کہتے ہیں کہ دونوں حادثوں کی ایک جیسی رپورٹنگ ہوئی نہ ایک جیسا عالمی ردعمل سامنے آیا۔ ان کے خیال میں یہ موازنہ بلا جواز نہیں ہے
مگر ایمن شنواری کہتی ہیں کہ ٹائٹن آبدوز میں مرنے والوں کا مذاق اڑانا افسوسناک ہے تاہم ’اس کا موازنہ یونان کشتی حادثے سے نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں واقعات تکلیف دہ ہیں اور یہ نہیں ہونے چاہیے تھے۔‘
امل خان کی رائے ہے کہ یونان میں کشتی ڈوبنے سے سینکڑوں تارکین وطن کی ہلاکت اور ٹائٹیٹنک دکھانے والی آبدوز میں پانچ مسافروں کی موت دونوں ہی واقعات پر درد اور افسوس محسوس کرنا ممکن ہے۔ وہ کہتی ہیں ”یہاں بہت سے سیاسی معاملات کا تذکرہ ہوسکتا ہے مگر یہ لمحہ اس سب کے لیے نہیں“
صحافی اور تجزیہ کار ضرار کھوڑو انٹرنیٹ پر ہونے والے تبصروں سے متفق نہیں۔ ان کا کہنا ہے ”اکثر کسی بڑے حادثے کے بعد آپ کو انسانیت کا اچھا اور بُرا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ جہاں ایک طرف ہم نے دیکھا کہ کیسے کوسٹ گارڈز نے ڈوبتے تارکینِ وطن افراد کی مدد نہیں کی، وہیں دوسری جانب ہم نے سینکڑوں لوگوں کو یونان کے دارالحکومت ایتھنس میں تارکینِ وطن کے لیے بُرا رویہ رکھنے والوں کے خلاف احتجاج کرتے دیکھا“
ضرار کھوڑو کا کہنا تھا ”اسی طرح اس وقت ہم سب ایک آبدوز میں پانچ افراد کو سانس کی کمی ہونے سے ایک دردناک موت مرتا دیکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر کسی قسم کا احتساب نہیں ہے جس کے نتیجے میں کوئی بھی، کسی کے بھی بارے میں بہت ہی دلخراش بات کر سکتا ہے۔ اور بچ کر نکل سکتا ہے۔ ایک بیانیہ گردش کر رہا ہے کہ چونکہ آبدوز میں ہلاک ہونے والے پانچ لوگ امیر ہیں تو ان کے ساتھ ایسا ہونا چاہیے۔ اس آبدوز میں ایک انیس سال کا نوجوان بھی تھا اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ ایک دردناک موت صرف اس لیے مرے کیونکہ اس کے والد امیر ہیں؟ صرف سوچ کر دیکھیں کہ یہ بات کیسی لگ رہی ہے“
جہاں ضرار کا خیال ہے کہ آبدوز حادثے میں ہلاکتوں کو محض اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا کیونکہ وہ امیر تھے، وہیں تجزیہ کار فرح ضیا کہتی ہیں کہ ’یونانی کشتی کا واقعہ اور امریکی آبدوز کا واقعہ آگے پیچھے پیش آئے اور لوگوں کی ان دونوں واقعات میں دلچسپی اور میڈیا کی کوریج میں فرق کی واضح وجوہات ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس میں میڈیا کا کردار ’زیادہ غور طلب ہے۔‘
انھوں نے کہا ’عمومی طور پر دنیا بھر میں امیر اور طاقتور افراد کی زندگیوں میں لوگوں کی زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ اور جب وہ کسی حادثے سے دوچار ہوتے ہیں تو اسے ایک بڑے سانحہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘
’اچھا ہے کہ امریکی اور برطانوی میڈیا میں یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ میڈیا کس طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو زیادہ توجہ دیتا ہے۔ آنے والے دنوں میں ان کی کوریج پر اثر پڑ سکتا ہے۔‘
لیکن ضرار کے مطابق اس وقت دنیا میں دو حادثے ہوئے ہیں اور دونوں میں انسانی جانوں کا ضیاں ہوا ہے۔ ’یہ نہ ختم ہونے والی بحث ہے۔‘
وہ اس کی مثال کچھ ایسے دیتے ہیں کہ ’جب پیرس میں نوٹر ڈام میں آگ لگی تھی تو پوری دنیا نے پیسے جمع کر کے اسے دوبارہ بنوایا تھا۔ کیا ہم نے ایسا کبھی ترقی پذیر ممالک میں ہونے والی تباہ کاریوں کے بعد دیکھا ہے؟
’کیا ہمیں بُرا لگنا چاہیے؟ بالکل۔ لیکن کیا دنیا میں انصاف ہے؟ نہیں۔‘
اس ساری کہانی کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ شہزادہ داؤد اور ان کی فیملی ادیب رضوی کے حوالے سے جانے جانے والے بڑے ادارے ایس آئی یو ٹی کے بڑے ڈونرز میں سے ہیں، جہاں غریبوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں کرونا کی وبا کے دوران شہزادہ داؤد کے والد حسین داؤد نے ، جو پاکستان کے دولتمند ترین لوگوں میں سے ایک ہیں، وباء کے خلاف کام کے لئے تین ملین پاؤنڈ کے مساوی رقم دی تھی۔