وقتاً فوقتاً پاکستان اور بھارت کی سرحد پر ’جاسوس کبوتروں’ کی گرفتاری کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں اور ان کی بنیاد پر دونوں ملک ایک دوسرے کو طنز کا نشانہ بھی بناتے رہے ہیں
واضح رہے کہ جی پی ایس، خفیہ انداز میں برقی آلات وغیرہ سے پیغام رسانی کی ایجاد سے قبل بھی کبوتروں اور دیگر پرندوں کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کرنا قدیم روایت رہی ہے۔ گزشتہ صدی کے دوران ہونے والی پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں بھی کبوتروں کے ذریعے پیغام رسانی اور خفیہ معلومات کے تبادلہ کیا جاتا تھا۔ مورخین کے مطابق کئی افواج میں باقاعدہ ان پرندوں کے ’دستے‘ شامل ہوتے تھے
کٹھن اور دشوار گزار راستوں اور پہاڑوں پر فوجیوں کو سامان پہنچانے کے لیے آج بھی دنیا بھر میں خچروں اور گدھوں کا استعمال ہوتا ہے۔ صحراؤں میں اونٹ بھی اس مقصد کے لیے کار آمد سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح کتوں کو زخمیوں یا کھو جانے والوں کو تلاش کرنے اور ان تک طبی امداد تک پہنچانے کے لیے بھی تربیت دی جاتی رہی ہے
دفاعی مقاصد کے لیے جانوروں کی تربیت اور استعمال خشکی تک محدود نہیں بلکہ سمندری مخلوق سے مدد کے بھی کئی منصوبے سامنے آ چکے ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ چند برسوں میں سمندر میں وہیل اور ڈولفن کو جاسوسی کے لیے استعمال کرنے کی خبریں ایک بار پھر سامنے آ رہی ہیں
حال ہی میں سامنے آنے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی انٹیلیجنس نے بعض شواہد کی بنیاد پر کہا ہے کہ یوکرین سے مقابلے کے لیے روس نے غیر قانونی طور پر الحاق کیے گئے کریمیا کے خطے میں ڈولفن کو فوجی تربیت دینا شروع کی ہے
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق یوکے ڈیفنس انٹیلیجنس کا کہنا ہے کہ روسی بحریہ نے حالیہ دنوں میں بحیرہِ اسود میں اپنی سیکیورٹی مضبوط کرنے کے لیے گزشتہ ایک سال کے دوران بھاری سرمایہ کاری کی ہے
برطانوی انٹیلیجنس کے مطابق اس مقصد کے لیے روس نے بحیرہِ اسود میں بارودی سرنگیں بچھانے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ سمندری ممالیہ یعنی ڈولفنز کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی تربیت یافتہ ڈولفنز کے ذریعے مقابل فوج کے غوطہ خوروں کا مقابلہ کیا جاتا ہے
یاد رہے کہ اس سے قبل 2019 میں بھی ناروے کے سمندری علاقوں میں بلوگا نسل کی وہیل دیکھی تھی، جسے پٹے پہنائے گئے تھے۔ اس کے بعد یہ اطلاعات گردش میں رہیں کہ روس بحری نگرانی کے لیے اس سمندری ممالیہ کا استعمال کر رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایسی ہی بلوگا وہیل سوئیڈن کے ساحلی علاقوں میں بھی دیکھی گئی
وہیل کو پہنائے گئے پٹوں میں ایک کیمرا نصب تھا اور اس پر لگے آلات میں سے ایک پر ’ایکویپمنٹ سینٹ پیٹرز برگ‘ کے الفاظ بھی لکھے تھے
روس کی وزارتِ دفاع نے 2016ع میں سوویت دور کا اپنا زیرِ سمندر انٹیلیجنس پروگرام بحال کرنے کے لیے پانچ ڈولفنز خریدنے کا فیصلہ بھی کیا تھا
اس حوالے سے سرد جنگ کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ امریکہ اور سابق سوویت یونین کے درمیان جاری 1947 سے 1991 تک دنیا میں اپنے اثر و رسوخ بڑھانے کی دوڑ کو سرد جنگ کہا جاتا ہے۔ اس دور میں سیاست سے لے کر دفاعی اور فوجی تیاری کے شعبوں میں دونوں عالمی قوتیں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی دوڑ میں تھیں۔
جانوروں کو جاسوسی اور لڑائی میں استعمال کرنے کے لیے تربیت دینے جیسے منصوبے بھی اسی دور کی یاد گار ہیں۔ اس دور میں امریکہ اور سوویت یونین دونوں نے آب دوزوں، بارودی سرنگوں، مشتبہ اشیا اور ایک دوسرے کی بندرگاہوں کے قریب جاسوس غوطہ خوروں کا سراغ لگانے کے لیے ڈولفنز کا استعمال شروع کیا تھا
یہاں تک کہ سوویت دور کے ایک ریٹائرڈ کرنل وکٹر برینیتس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ماسکو نے ڈولفنز کو دشمن فوج کی کشتیوں اور بحری جہازوں میں دھماکہ خیز مواد نصب کرنے کی تربیت بھی دی تھی
سوویت یونین کے بعد اور اس سے پہلے فوجی مقاصد کے لیے ڈولفنز کی تربیت سے وابستہ رہنے والے وکٹر برینیتیس کے مطابق ڈولفنز بحیرہ اسود میں زیرِ آب موجود ٹورپیڈوز اور ڈوبے ہوئے جہازوں کا سراغ لگانے کی صلاحیت رکھتی ہیں
اگر امریکہ کی بات کی جائے تو امریکہ نے 1960ع میں ’مرین میمل پروگرام‘ شروع کیا تھا، جس میں ڈولفنز اور پانی کی بلیوں کو سمندر کے اندر نگرانی اور خطرات سے بر وقت آگاہی جیسے مقاصد کے تحت بحری فوج کا حصہ بنایا گیا تھا
امریکی بحریہ نے نائن الیون حملوں کے بعد شروع ہونے والے آپریشن ’انڈیورنگ فریڈم‘ کے دوران 2003ع میں بحرین میں تربیت یافتہ پانی کی بلیوں اس مقصد کے لیے استعمال کیا تھا
قبل ازیں سرد جنگ کے دوران ہی امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے 1960ع کی دہائی میں ’آپریشن اکیوسٹک کٹی‘ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا، جس کا مقصد زندہ بلیوں کے کان میں مائیک اور اس کے کھال میں خفیہ اور چُھپا ہوا اینٹینا نصب کر کے انہیں جاسوسی کے لیے استعمال کرنے پر کام کیا گیا تھا
اس منصوبے پر کام کرنے والے حکام کا خیال تھا کہ وہ اس طرح جاسوسی کے لیے تیار کی گئی بلیوں کو غیر ملکی افراد کے پاس بٹھا کر خفیہ طور پر ان کی باتیں سن سکیں گے
اس منصوبے کے بارے میں صحافی ایملی ایتھنز اپنی کتاب ’فرینکینسٹائنز کیٹ‘ میں لکھتی ہیں کہ جاسوسی کے لیے تیار کی بلی کو تجربے کے لیے ایک پارک میں بینچ پر بیٹھے دو افراد کی گفتگو سننے کے لیے اسے وہاں چھوڑا گیا، لیکن اس کی پہلی ہی آزمائش بری طرح ناکام ہوئی، کیونکہ بلی نے جم کر اس بینچ کے پاس بیٹھنے کے بجائے، آس پاس گلیوں میں آوارہ گردی شروع کر دی اور اس دوران وہ ایک ٹیکسی کے نیچے آ کر جان سے گئی
ایملی ایتھنرز مزید لکھتی ہیں کہ اس منصوبے کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بلیوں کو تربیت دینا مشکل ہوتا ہے اور کتے یا دیگر جانوروں کے مقابلے میں ان کا رویہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس منصوبے پر دو کروڑ ڈالر خرچ کیے گئے تھے
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دور میں یہ منصوبہ سوائے سرد جنگ میں انٹیلیجنس ایجنسی کے درمیان برتری کے لیے جاری دوڑ کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ’جاسوس کیڑوں کے دور‘ کا ذکر یقینًا ہمیں چونکا دیتا ہے
صحافی ایملی ایتھنز لکھتی ہیں کہ ایسا نہیں کہ اس منصوبے کے ناکامی کے بعد امریکہ اور دنیا کے دیگر ملکوں نے حیوانات کے ذریعے معلومات جمع کرنے کے منصوبے ترک کر دیے
ان کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں اب اڑنے والے کیڑوں کی شکل کے چھوٹے روبوٹس پر کام ہو رہا ہے اور 2006ع میں امریکی وزارتِ دفاع پینٹاگون نے ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی(ڈی اے آر پی اے) کو ’سائی بورگ‘ تیار کرنے کا کام سونپا تھا
سائی بورگ کسی ایسے جانور کو کہتے ہیں، جس میں برقی آلات نصب کیے گئے ہوں۔ اگرچہ ایسے منصوبوں پر اخلاقی اعتبار سے سوال اٹھائے جاتے ہیں
ماہرین کے مطابق ٹیکنالوجی کی ترقی کو دیکھا جائے تو حشرات سے مشابہت رکھنے والے جاسوسی آلات کی تیاری یا کیڑے مکوڑوں میں آلات نصب کر کے جاسوسی یا نگرانی وغیرہ کے لیے انہیں تیار یا استعمال کرنا اب کوئی انہونی بات نہیں ہے۔