قومی اسمبلی نے نئے مالی سال کے بجٹ کی منظوری دے دی ہے، جس میں تنخواہ دار طبقے کے ایسے افراد جو سالانہ چوبیس لاکھ کماتے ہیں، ان پر ٹیکس کی شرح میں ڈھائی فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے
ٹیکس شرح میں یہ اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت کیا گیا ہے تاکہ پاکستان اضافی ریونیو جمع کر پائے جو قرضہ پروگرام کی بحالی کی شرائط میں سے ایک ہے
موجودہ مالی سال کا بجٹ جب جون 2022 میں پیش کیا گیا تھا اور اس میں تنخواہ دار طبقے کی ٹیکس سلیب کو بارہ سے کم کر کے سات کر دیا گیا تھا، تاہم نئے مالی سال کے لیے منظور کیے جانے والے فنانس بل میں اب ان کی تعداد چھ کر دی گئی ہے
پہلے سلیب میں ایسے افراد شامل ہیں، جن کی تنخواہ چھ لاکھ روپے سالانہ ہے اور ان پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا
دوسرا سلیب ایسے افراد کا ہے، جن کی سالانہ آمدن چھ لاکھ سے زیادہ مگر بارہ لاکھ تک ہے۔ ایسے افراد کو 2.5 فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کرنا ہوگا
تیسرے سلیب سالانہ بارہ لاکھ سے چوبیس لاکھ کی آمدن پر پندرہ ہزار فکسڈ ٹیکس کے علاوہ 12.5 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا، جو بارہ لاکھ سے زائد کی آمدن پر لگے گا
چوتھا سلیب ان افراد کے لیے ہے، جن کی سالانہ تنخواہ چوبیس لاکھ سے زیادہ اور چھتیس لاکھ تک ہے، انھیں سالانہ ساڑھے سولہ ہزار فکسڈ اور 24 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 22.5 فیصد کے حساب سے ٹیکس ادا کرنا ہوگا
واضح رہے کہ موجودہ مالی سال میں یہ تںخواہ دار طبقہ 20 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے، جو اب 22.5 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے
پانچواں سلیب چھتیس لاکھ سے ساٹھ لاکھ کی سالانہ آمدن والے افراد کے لیے ہے، جنھیں چار لاکھ 35 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 36 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 27.5 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا ۔ پہلے ٹیکس کی یہ شرح 25 فیصد تھی جو اب 27.5 فیصد کر دی گئی ہے
چھٹا سلیب ساٹھ لاکھ سے زائد آمدنی والے تنخواہ دار طبقے پر دس لاکھ 95 ہزار فکسڈ انکم ٹیکس اور 35 فیصد کی شرح سے ساٹھ لاکھ سے زائد آمدن پر ٹیکس ہوگا
واضح رہے موجودہ مالی سال میں ساتویں سلیب میں ایسے افراد شامل ہیں، جن کی سالانہ آمدن ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ ہے اور وہ 29 لاکھ 55 ہزار فکسڈ ٹیکس جبکہ ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 35 فیصد ٹیکس ادا کر رہے ہیں، تاہم اب نئے مالی سال کے لیے یہ سلیب موجود نہیں
ٹیکس امور کے ماہر ذیشان مرچنٹ کا کہنا ہے کہ ساتویں سلیب اب غیر متعلقہ ہو گئی ہے، کیونکہ پہلے ساٹھ لاکھ سے ایک کروڑ بیس لاکھ تک تنخواہ پانے والے افراد 32.5 فیصد کے حساب سے ٹیکس دے رہے تھے تاہم اب ساٹھ لاکھ تنخواہ پر ہی 35 فیصد سے ٹیکس کی شرح لاگو ہوگی اس لیے اب اس ٹیکس سلیب کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی
ٹیکس کی شرح میں اضافے سے کون سا طبقہ زیادہ متاثر ہو گا؟
نئے مالی سال کے لیے اسمبلی سے منظور کیے جانے والے فانس بل میں تنخواد طبقے پر ٹیکس کی جو نئی شرح لاگو کی گئی ہے، اس کے بارے میں ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے اس نئی ٹیکس شرح سے درمیانے طبقے کے افراد سب سے زیادہ متاثر ہوں گے
انہوں نے کہا کہ جو افراد ہر مہینے دو لاکھ سے کم تنخواہ پاتے ہیں، ان پر تو ٹیکس کی شرح وہی پرانی ہے، تاہم جو دو لاکھ روپے سے زیادہ ہر مہینے کماتے ہیں، انہیں اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا
انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں جب روپے کی قدر بہت زیادہ گر چکی ہے اور مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے تو اس دور میں دو لاکھ سے زائد کمانے والے افراد اب مڈل کلاس میں ہی شمار ہوتے ہیں اور یہ کوئی بہت زیادہ آمدن نہیں تاہم اب انھیں زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا
اسی طرح جو زیادہ تنخواہ لے رہا ہے، اس کا ٹیکس ریٹ بھی پرانا ہے۔ مثلاً ہر مہینے دس لاکھ روپے یا اس سے زائد تنخواہ لینے والے افراد پہلے بھی 35 فیصد دے رہے تھے اور اب بھی انھیں 35 فیصد ادا کرنا پڑے گا تاہم ماہانہ دو لاکھ سے پانچ سے سات لاکھ کمانے والے افراد کو اب زیادہ ٹیکس دینا پڑے گا، جو مہنگائی کے اس دور میں ان پر اضافی بوجھ ڈالے گا
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ٹیکس کی یہ شرح نہ بڑھاتی اور انکم ٹیکس کی چھوٹ کی مد میں جو سالانہ ساڑھے سات سو ارب روپے ہیں، ان کو آدھا ہی کر دیتی تو اس سے اضافی آمدنی بھی ہوتی اور مڈل کلاس طبقے پر اضافی ٹیکس کے بوجھ سے بھی بچا جا سکتا تھا
ذیشان مرچنٹ اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ یقینی طور پر مڈل کلاس تنخواہ طبقہ ہی اس اضافی ٹیکس کا بوجھ سہے گا کیونکہ وہ سب سے آسان ہدف ہوتا ہے کہ اس پر اضافی ٹیکس کا بوجھ ڈال کر ریونیو زیادہ حاصل کر لیا جائے
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بھی یہی کیا کہ جو طبقہ پہلے سے ٹیکس ادا کر رہا ہے، اسی پر زیادہ ٹیکس لگا دیا جائے
انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی ناکامی ہے کہ وہ ٹیکس نہ دینے والے طبقات اور شعبوں کو تو ٹیکس نیٹ میں لانے سے قاصر ہے اور جو ٹیکس دے رہے ہیں، انہیں زیادہ ٹیکس دینے پر مجبور کرے
تنخواہ دار طبقہ کتنا اضافی ٹیکس ادا کرے گا؟
نئے مالی سال کے منظور شدہ فنانس بل کے مطابق چوبیس لاکھ سالانہ تنخواہ پانے والوں پر ٹیکس کی شرح میں 2.50 فیصد کا اضافہ کر دیا گیا ہے
اس اضافی ٹیکس شرح کو روپوں میں دیکھا جائے تو ٹیکس میں اضافہ درج ذیل حساب سے ہوگا:
– سوا دو لاکھ روپے ماہانہ کمانے والے کو ہر مہینے سوا چھ سو روپے کا اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا
– ڈھائی لاکھ ماہانہ تنخواہ پر ہر مہینے ساڑھے بارہ سو روپے زیادہ ٹیکس ادا کرنا ہوگا
– تین لاکھ ماہانہ تنخواہ پر ڈھائی ہزار روپے زیادہ ٹیکس ادا کرنا ہوگا
– سوا تین لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر 3125 روپے اضافی ٹیکس اد کرنا ہوگا
– چار لاکھ آمدنی پر ہر مہینے اضافی پانچ ہزار ٹیکس ادا کرنا ہوگا
-پانچ لاکھ آمدنی پر ہر مہینے ساڑھے سات ہزار اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا
-سوا پانچ لاکھ ماہانہ تنخواہ پر 8125 روپے زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا
– چھ لاکھ کی تنخواہ پانے والے افراد کو دس ہزار روپے اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا
-سات لاکھ ماہانہ آمدنی پر سارھے بارہ ہزار روپے اضافی ٹیکس دینا ہوگا
– آٹھ لاکھ ماہانہ آمدنی پر پندرہ ہزار روپے اضافی ٹیکس دینا ہوگا
-جبکہ دس سے بارہ لاکھ تنخواہ پر ہر مہینے بیس ہزار روپے اضافی ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔