سورج کی نارنجی کرنیں افق پر اپنے رنگ بکھیرنے لگی ہیں۔ سندھو کی گزرگاہ کا یہ علاقہ قابل دید ہے مگر یہاں زندگی بڑی سخت لیکن بے کیف نہیں کیونکہ راستے اور پگڈنڈیاں جو اس وادی سے گزرتی ہیں، مختلف زمانوں میں مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے مذہبی زائر اور تجار کی گزرگاہ رہی ہیں۔خود لداخ بھی تجارت کا بڑا مرکز ہے۔ یہاں کی ثقافتی زندگی میں کچھ رنگ ان زائرین اور تجار نے بھی بھرے ہیں۔ سندھو کے بالائی حصے میں رہنے کا مطلب ہے ریوڑوں کی دیکھ بھال کرنا، مکئی اور جو کے چھوٹے چھوٹے کھیت کاشت کرنا اور گزرنے والے تاجروں سے اشیاء کا تبادلہ کرنا
میری سماعتوں سے سندھو کی آواز ٹکراتی محسوس ہوئی ہے؛ ”لداخ کمال جگہ ہے۔ چٹیل خشک پہاڑ، ریت ہی ریت، بیچ سے بہتا، چنگھاڑتا، شور مچاتا میرا وجود۔ ’کن لن پہاڑی سلسلہ کے جنوب اور ہمالیہ کے برف پوش سلسلے کے شمال میں سطح سمندر سے بارہ (12000) سے پندہ (15000) ہزار فٹ کی اوسط بلندی پر دل موہ لینے والے نظاروں، خوبصورت جھرنوں کی وادی ہے۔ جنت نظیر کشمیر کی حسین جنت۔ میں تو اسے ٹھٹھرتے موسموں اور خشک پہاڑوں کی سر زمین بھی کہتا ہوں۔ چین، بھارت اور پاکستان سے گھرا ارضیاتی خدوخال کے لحاظ سے یہ خوبصورت علاقہ ہے۔ کچھ مورخ اور سیاح اسے ”لینڈ آف ہائی پاسز“ (land of high passes) بھی کہتے ہیں۔ رنگ برنگے بلند پہاڑ، بنجر اور ویران، لمبے چوڑے میدان اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ سائبیریا کے بعد یہ دنیا کا ٹھنڈا ترین علاقہ بھی ہے۔ یہ تنازعات کی زد میں بھی رہا ہے۔ موجودہ دور میں چین اور بھارت کے تنازعے کی وجہ سے جنگی صورت حال سے دو چار ہے۔ پنتالیس ہزار (45000) مربع میل پر پھیلا یہ امن پسند لوگوں کا خطہ ہے لیکن اس تنازعہ نے مقامی لوگوں کو پریشان کردیا ہے۔“
میرا دوست کچھ دیر کی خاموشی کے بعد پھر بولنے لگا ہے؛ ”لداخ کا دارالحکومت لیہہ صدیوں سے ان تجارتی راستوں کا اہم مرکز اور قدیم گزر گاہ تھی جو قدیم دور میں میری گزرگاہ کے ساتھ ساتھ ہمالیہ اور قراقرم کے سلسلوں میں پھیلے تھے۔ ان تاریخی راستوں کو بحال کرنے کا منصوبہ شاندار ہو سکتا ہے۔ اس سے بھارت، چین، پاکستان اور وسطی ایشائی ممالک کے درمیان پھر سے تجارت شروع ہو سکتی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد جب یہ راستے بند ہو ئے تو اس کی اہمیت بھی کم ہو گئی ہے۔ کارگل اور سیاچن بھی اسی علاقے میں واقع ہیں۔ لیہہ انتہائی سرد اور بلند ترین آبادی ہے۔ اکثر دیہات نو ہزار سے پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر ہیں۔ سیاح، مورخ اور جغرافیہ دان اسے دنیا کی چھت ’بامِ دنیا‘ کہتے ہیں۔۔ دنیا کی اس چھت کے دو دعویدار ہیں، بھارت اور چین۔ موسم خشک، سالانہ اوسط بارش 3 انچ جبکہ برف کئی کئی فٹ پڑتی ہے۔ ’دریائے زنکسار‘ لیہہ سے ایک دو کلو میٹر کی دوری پر مجھ میں ملتا ہے جبکہ سری نگر یہاں سے دو سو ساٹھ (260) کلو میٹر کی مسافت پر ہے
”آج یہ اہم فوجی چھاؤنی ہے۔یہ جگہ اب ماضی سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے جو پہاڑی محاذ کی پشت پر اہم کردار انجام دے رہی ہے۔ اب اس شہر میں گھومنے پھرنے کی اجازت لینے میں ’زو لوجی درے کو پار کرنے سے بھی زیادہ وقت لگتا ہے۔ یہ شہر سندھو کے شمالی کنارے گیارہ ہزار چھ سو (11600) فٹ بلندی پر چار میل کے علاقے میں پھیلا ہے۔ مکان پیلے رنگ کی کچی اینٹوں سے بنے ہیں۔ دروازوں، کھڑکیوں کی چو کھٹوں اور بلند بالکونیوں پر مختلف انداز کی کندہ کاری مختلف رنگوں میں کی گئی ہے۔ گرمیوں میں چھتوں پر گھاس کے مٹھے خشک کئے جاتے ہیں تاکہ سرد موسم میں جانوروں کے لئے بطور چارہ استعمال ہو سکیں۔ مقامی لوگ مویشی پالتے ہیں۔سرد موسم میں جب برف اس وادی کو ڈھانپ لیتی ہے تب لداخی چھتوں سے برف صاف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لداخ کے بادشاہ کا قدیم ’سفید محل‘ اور بڑی خانقاہ کی بھوری دیواریں قصبے کے اوپر منڈلاتی دلکش نظارے کی آئینہ دار ہیں۔ لداخی ثقافت کا شمار دنیا کی قدیم ترین ثقافتوں میں بڑی آن، بان اور شان کے ساتھ ہوا ہے۔ مشرق میں ’پنگیان جھیل‘ ہے جبکہ ’گلیان وادی‘ یہاں سے دو سو پچاس (250) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ مغرب میں ’گھر دملہ ٹاپ‘ اور ترتک کا علاقہ ہے اور اس کے پیچھے گلگت ہے۔ لیہہ ریگستان جیسا خطہ ہے۔ یہاں کے پہاڑ چٹیل لیکن بہت سرد ہیں۔ مصنف پرتھوی ناتھ کول اپنی تصنیف ’کشمیر کی تاریخ“ (A History of Kashmir) میں لکھتے ہیں ’یہ دیومالائی دیس دلائی لامہ کی حکومت کا بھی حصہ رہا ہے۔ 1547ء میں یہ مغل سلطنت کا حصہ بنا اور لداخ بھی اس تبدیلی سے متاثر ہوا۔چین کے ساتھ شالوں کی تجارت بھی ہوتی رہی ہے۔مغل سلطنت کے خاتمہ پر لداخ پھر آزاد ہو گیا“
مجھے کارگل کے رہائشی اور سماجی کارکن ساجد کارگلی سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ دوران گفتگو اس نے بتایا؛ ” پرانی شاہراہ ریشم پر واقع ’ہنورمن‘ نامی دیہات1971 ء تک پاکستان کا حصہ تھا۔ 71ء کی جنگ میں ہندوستان نے اس گاؤں (ہنورمن) پر قبضہ کر لیا تھا اس سے پہلے یہ پاکستان کا حصہ تھا۔ ’دریائے دراس‘ اس کے قریب سے ہی بہتا ہے۔ اسی گاؤں میں کارگل کے معروف عالم دین ’حضرت علی ؒ‘ کا آستانہ ہے۔ گھنٹہ بھر کی مسافت پر ہنورمن گاؤں کے لوگ اس آستانہ کی زیارت کو آ سکتے تھے لیکن 71ء کی جنگ کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا اور منٹوں کے اس فاصلے کو کم کرنے میں نصف صدی کا طویل عرصہ بھی ناکام رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں بھی سرحد کو ’کرتار پور راہداری‘ کی طرح کھولا جائے تاکہ ان گاؤں کے باشندے ماضی کی طرح اس زیارت گاہ کی زیارت کو آ جا سکیں۔ سرحد کے دونوں طرف رشتہ داریاں ہیں۔ خونی رشتہ داریاں۔۔ کبھی یہ شہر اور اس کے بازار لوگوں کی چہل پہل سے آباد تھے اب فوجی مبصروں کی بھیڑ ہے۔ لوگوں کے چہروں پر چین بھارت کی لڑائی کی وجہ سے پریشانی کے سائے ہیں۔“ وہ خاموش ہوئے اور ہم قہوہ پینے ایک ڈھابہ میں چلے آئے ہیں۔ ساجد کارگلی کے ہمراہ کشمیری چائے کا لطف دوبالا ہو گیا ہے۔ میرے انتہائی اصرار کے باوجود چائے کا بل انہوں نے ہی دیا۔
سندھو مجھے بتاتا ہے ”لداخی منگول سے ملتی جلتی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ چھوٹے قد، مضبوط جسم، سخت جان اور لمبی عمر پاتے ہیں۔ قوت برداشت بھی بلا کی اور مزاح کی حس بھی کمال کی۔ دیانت داری بھی کمال کی، وفاداری بھی کمال کی اور دوستی بھی کمال کی۔ لداخی اپنے اندر ایک مخصوص اور منفرد دلکشی لئے ہیں۔ مرد لمبے اونی چوغے، کانوں پر پشم یا اونی ٹوپی پہنتے ہیں جبکہ عورتیں لمبی قمیض اور سر پر ’پیراک‘ اوڑھتی ہیں۔ (پیراک کپڑے کی ایک چوڑی پٹی ہے، جس پر چاندی، زمرد کے نگینے اور سرخ مونگے ٹانکے ہوتے ہیں) یہاں زندگی بہت سخت ہے، غربت ہے، برف ہے، تنگ دستی ہے۔ موسم بہار نئی زندگی کی نوید لاتا ہے۔ کہیں کہیں پھول آنکھیں مل کر بیدار ہونے لگتے ہیں تو کہیں برف میں دبی شاخیں انگڑائیاں لینے لگتی ہیں۔ برفیلے پہاڑوں کے دامن پہ سبزہ جھلک دکھانے لگاتا ہے۔ مسافر بدلتے رنگوں اور رتوں سے لطف اٹھاتے رواں ہوتے ہیں۔ امیروں کے لئے یہ نئی رت ہے لطف اندوز ہونے کی، جبکہ غریب اور ناتواں مقامی باشندے نئے موسم بہار میں زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے بہتری کی آس لگائے کمر پر لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے سوچوں میں گم گھروں کو جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ آفرین! حکمرانوں پر کہ وہ سیاہ شیشوں والی چمکتی قیمتی آرام دہ گاڑیوں میں ان مفلس لوگوں پر نظر ڈالے بغیر ہی گزر جاتے ہیں“
میں سندھو کی باتیں سن کر گہری سوچ میں ڈوب گیا کہ وہ ہر شے پر نظر رکھے ہے۔ سب کچھ دیکھتا، سمجھتا اور محسوس کرتا ہے۔ ہم ہی بے حس ہو چکے ہیں۔ وہ کہانی پھر سے آگے بڑھانے لگا ہے
”لیہہ کے ارد گرد جہاں تک آب پاشی ممکن ہے زمین کاشت کی جاتی ہے۔ بڑی محنت سے نکالے گئے پانی کے چھوٹے چھوٹے کھالے مکئی، جو، گندم، گاجر، مٹرگوبھی اور ٹماٹر کے کھیتوں کو پانی مہیا کرتے ہیں۔ میرے کنارے خوبانی، شہتوت، سیب اور اخروٹ کے درخت ہیں۔ بید مجنوں کی شاخوں سے بید کی ٹوکریاں بنتی ہیں جو یہاں کی اہم دستکاری ہے۔ پاپولر کے درخت کا تنا گھروں اور پلوں کے لئے شہتیر مہیا کرتا ہے
”لیہہ واسیوں بارے کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی گندے لوگ ہیں (صفائی کے لحاظ سے)۔ کئی کئی ماہ گزر جائیں نہائیں گے نہیں۔ بدن کی صفائی کا بھی کوئی خاص خیال نہیں رکھتے۔ یہ ایسا مقام ہے جہاں سارا سال درجہ حرارت کافی کم رہتا ہے۔ برفیلی ہوا رگوں میں خون جماتی ہے۔ ایسے مقام پر نہانا اور صفائی کیا ممکن ہے؟ جہاں پانی کا ایک ایک قطرہ بھی سر پر اٹھا کر لانا پڑے، وہاں نہانے کی خواہش تو ضرور ہو سکتی ہے لیکن عملی طور پر ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ ایک بات طے ہے کہ تبت سے لے کر کشمیر، ہمالیہ، قراقرم اور بلتستان کی یہ دور افتادہ وادیاں اپنے اندر ایسا حسن اور رومانس سموئے ہیں کہ آنے والا مبہوت رہ جاتا ہے۔ کوئی مصور یہاں آ جائے تو سفید برف پوش پہاڑ، نیلگوں آسمان، پراسرار دھند میں لپٹی صبح و شام، درختوں کے پتوں پر چمکتے شبنم کے قطرے، سورج کی دھوپ میں چمکتے خانقاہوں کے کلس، تنگ گھاٹیوں سے گرتے شفاف پانی کے جھرنے، ہری بھری وادیاں، درختوں سے جھولتے طرح طرح کے خوش ذائقہ پھل اور میوے، تیز مچلتے نالے، حد نظر پھیلے گلیشیرز، تازہ ہوا، شفاف فضا میں اڑتے پنچھی، برف زاروں میں رہتے برفانی چیتے، ریچھ، چالاک مارمٹ، آلودگی سے پاک فضا میں رات کو آسمان کی وسعتوں پر دمکتے میرے دوست ستارے اور ان میں گھرا چمکتا مہتاب، سبحان اللہ۔۔ مصور کا کینوس چھوٹا پڑ جائے مگر یہاں کے نظارے ختم نہ ہوں۔“واہ میرے داستان گو نے کیسی منظر کشی کی ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.
-
سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط: 1)
-
سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط 10)