چھپن سالہ چینی کروڑ پتی تاجر لیانگ شی یونیورسٹی کے مشکل ترین انٹری ٹیسٹ میں ستائیسویں بار فیل ہو گئے ہیں۔ جمعے کو جب ان کا نتیجہ آیا تو وہ اس ٹیسٹ میں 759 نمبرز میں سے صرف 424 ہی حاصل کر سکے۔ اس سال تقریباً 13 ملین طلبہ نے انٹری ٹیسٹ میں حصہ لیا
چین کی کسی بھی یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے کے لیے انہیں کم از کم 34 مزید نمبر حاصل کرنے تھے کیونکہ کم از کم 458 نمبرز حاصل کرنا ضروری ہیں
اس ٹیسٹ سے قبل ہی لیانگ مقامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئے تھے اور اس شہرت کی وجہ ان کا اعلیٰ تعلیم کا شوق بنا
لیانگ شی سنہ 1983ع سے درجنوں بار کئی امتحان دے چکے ہیں۔ انہوں نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ وہ اس برس کے اپنے نتیجے سے مایوس ضرور ہوئے ہیں اور ان کی یہ تمنا تھی کہ وہ کبھی اپنا اعلیٰ تعلیم کا خواب پورا کر سکیں گے
انہوں نے چینی اخبار تیانمو نیوز کو بتایا ”میں یہ کہتا تھا کہ میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا، مگر اب میں ٹوٹ گیا ہوں“
اس امتحان کا نام گاؤکاؤ ہے، جو ہر اس طالب علم کے لیے بنیادی شرط کی حیثیت رکھتا ہے، جو ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کا خواہاں ہوتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں چینی زبان، ریاضی اور اپنی مرضی کے کسی سوشل سائنس مضمون کا انتخاب کرنا ہوتا ہے
چین کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2021 میں صرف 41.6 فیصد طلبہ ہی یونیورسٹی یا کالج تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکے ہیں
گاؤکاؤ ٹیسٹ چین میں 1950ع کی دہائی سے ایک بنیادی شرط کے طور پر چلا آ رہا ہے۔ اگرچہ اس انٹری ٹیسٹ کی شرط ثقافتی انقلاب کے دنوں میں اٹھا لی گئی تھی
لیانگ شی کا کہنا ہے ”میرا ہمیشہ یہ خواب رہا ہے کہ میں ملک کی کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کر سکوں اور ایک انٹلیکچوئل (مفکر) بن سکوں“
سنہ 1983 میں جب وہ سولہ برس کے تھے تو پہلی بار اس امتحان میں فیل ہونے کے بعد انہوں نے مختلف ملازمتیں کیں
وہ سنہ 1992 تک مسلسل ہر سال یونیورسٹی میں داخلے کی بھی کوشش کرتے رہے۔ اس کے بعد ان کی عمر تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے عمر کی شرط سے زیادہ ہو چکی تھی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ انھوں نے اپنے کاروبار پر توجہ دی
سنہ 1992ع میں وہ جس فیکٹری میں کام کرتے تھے، وہ دیوالیہ ہو گئی تھی۔ نوے کی دہائی کے وسط میں لیانگ شی نے ٹمبر کا ہول سیل کا کاروبار شروع کیا۔ انہیں اس کاروبار میں بہت کم وقت میں ہی بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ ایک سال میں انہوں نے دس لاکھ یوآن کما لیے تھے۔ اس کے بعد لیانگ تعمیراتی میٹیریل کے کاروبار سے منسلک ہو گئے
لیکن سنہ 2001ع میں چین کی حکومت نے انٹری ٹیسٹ گاؤکاؤ پر عمر کی شرط ختم کر دی تو انکوں نے اپنے تعلیمی سفر کا دوبارہ آغاز کیا۔ وہ اپنی خرابی صحت یا کاروباری مصروفیت کی وجہ سے امتحان نہیں دے پاتے تھے
ان کے مطابق کئی برس بعد اب ان کا مقصد اپنی قسمت تبدیل کرنے کے بجائے ہار نہ ماننے پر مرکوز ہو گیا تھا۔ ان کے مطابق قسمت تو بدل گئی مگر تعلیم اب ان کی ضد بن چکی ہے
انہوں نے سنہ 2014 میں چینی اخبار دی پیپرز کو بتایا کہ یہ کتنی عجیب سی بات ہے کہ آپ تعلیم کے لیے کالج نہ گئے ہوں یعنی اس کے بغیر تو آپ کی زندگی ہی ادھوری ہے
رواں برس 7 جون کو انہوں نے دوبارہ ایک ٹیسٹ دیا، جسے ’دی نمبر ون گاؤکاؤ ہولڈ آؤٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن اس بار بھی وہ امتحانی مرکز سے ناکام ہی لوٹے
لیانگ شی کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس کے برعکس اب انہیں شکست کا احساس ہو رہا ہے
انھوں نے تیانمو نیوز کو بتایا ”اب میں اس پہلو پر غور کر رہا ہوں کہ کیا مجھے مزید کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ شاید اب مجھے اپنا خیال رکھنے کی ضرورت ہے“
ایک اور اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے مزید کوشش جاری رکھنے سے متعلق اپنے فیصلے پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”ہو سکتا ہے کہ میں اب (اگلے برس) یہ امتحان نہ دوں۔ اگر میں آئندہ برس بھی امتحان میں بیٹھا اور فیل ہوا تو پھر میں اپنے نام کے آخری حصے ’لیانگ‘ سے دستبردار ہو جاؤں گا۔“