شور اٹھا کہ ہال آتا ہے: سابق ویسٹ انڈین بالر وزلے ہال، اردو ادب، عمران خان اور نواز شریف۔۔

ویب ڈیسک

’کرکٹ انفو‘ پر وزلے ہال کا تعارف اس جملے سے شروع ہوتا ہے: ”وزلے ہال نے ایک عشرے تک دنیا بھر کے بلے بازوں کو خوف زدہ کیے رکھا۔“

سر ویزلی ونفیلڈ ہال نے 1960 کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کے حملے کی قیادت کرنے کے لیے اسٹیمینا کے ساتھ تیز بولنگ کو بھی دوگنا کیا۔ یہ 1957-58 میں ہندوستان اور پاکستان کے دوروں کے دوران تھا، جب ہال نے بال کی رفتار اور کنٹرول کے ساتھ بالنگ کرکے 46 وکٹیں حاصل کیں

آنے والے سالوں میں، انہوں نے ایک اور خوفناک تیز گیند باز، چارلی گریفتھ کے ساتھ ایک مہلک شراکت داری بھی قائم کی۔ جب ہندوستان 1961-62 میں کیریبین کے ساحلوں پر آیا تو ہال ایک بار پھر بلے بازوں کے لیے خوف کی علامت بن گئے کیا اور 15.74 کی شاندار اوسط سے 27 وکٹیں حاصل کیں

تاہم، ہال کو بنیادی طور پر 1960-61 میں آسٹریلیا میں ان کی بہادری کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ گابا، برسبین کے مشہور ٹائی ٹیسٹ میں انہوں نے نو وکٹیں حاصل کیں۔ وہ اس میچ کے آخری اوور میں رچی بیناؤڈ اور ویلی گراؤٹ کو باؤنس کرا کے اپنے کپتان کے حکم کے بھی خلاف چلے گئے

یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا پہلا ٹائی میچ تھا، ہال نے اس میچ میں نو کھلاڑی آوٹ کیے۔ میچ کا آخری اوور بھی کروایا جس میں مخالف ٹیم کو جیت کے لیے چھ رنز درکار تھے۔ اس اوور میں انہوں نے باؤنسر سے آسٹریلوی کپتان رچی بینو کی قیمتی وکٹ لی۔ اس سیریز میں انہوں نے مجموعی طور پر 21 وکٹیں حاصل کیں

یہاں تک کہ جب ویسٹ انڈیز نے 1963 میں انگلینڈ کا دورہ کیا تو انہوں نے کچھ مہلک اسپیل کیے۔ خاص طور پر، انہوں نے لارڈز میں کولن کاؤڈری کو ایک غضب ناک گیند پھینکی، جس نے ان کا بازو ہی توڑ ڈالا

چھ فٹ دو انچ قد کے حامل وزلے ہال نے 48 ٹیسٹ میچوں میں 26.38 کی اوسط سے 192 وکٹیں حاصل کیں

بدقسمتی سے، اپنے کیریئر کے آخری حصے کے دوران، ہال حملے کی قیادت کرنے کے لیے تھوڑی جدوجہد کرتے نظر آئے، لیکن اب بھی کرکٹ پنڈتوں کا خیال ہے کہ بلاشبہ یہ ہال ہی تھے، جنہوں نے کیریبین کے بہت سے نوجوانوں کو تیز گیند بازی کرنے کی ترغیب دی۔

ہال کے کھیل سے ریٹائر ہونے کے بعد، وہ بارباڈوس حکومت کی خدمت کرتے ہوئے سیاحت اور کھیل کے وزیر بن گئے۔ سال 2012 میں انہیں نائٹ کا خطاب بھی دیا گیا

بہرحال ویسٹ انڈین فاسٹ بولر کی دہشت، کھلاڑیوں اور مبصرین نے اپنے اپنے رنگ میں بیان کی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ وزلے ہال کی برق رفتاری کا حوالہ اردو شاعری میں بھی مل جاتا ہے۔ معروف شاعر ضمیر جعفری نے ہال کی تندی و تیزی بڑے ظریفانہ پیرائے میں نظم کی ہے:

ہال کے بال
(ویسٹ انڈیز کے تیز رفتار باؤلر وزلے ہال کا کھیل دیکھ کر)

شور اٹھا کہ ہال آتا ہے،
کھیل کا انتقال آتا ہے!
ہال پر جب جلال آتا ہے،
بال سے پہلے ’حال‘ آتا ہے۔۔
ہم کو تو کچھ نظر نہیں آتا،
لوگ کہتے ہیں بال آتا ہے!
الاماں اس کی برق رفتاری،
بال ہے یا خیال آتا ہے۔۔
بال آتا ہے یا نہیں آتا،
کچھ مگر لال لال آتا ہے!

محمد سلیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ سنہ 1959 میں ویسٹ انڈین ٹیم کے دورہ پاکستان کے موقع پر ضمیر جعفری نے لاہور ٹیسٹ پر بھی نظم لکھی تھی، جو حنیف رامے کے رسالے ’نصرت‘ میں چونسٹھ برس پہلے شائع ہوئی تھی

اس نظم کا آغاز وزلے ہال کے نامِ نامی سے ہوتا ہے:
آؤ وزلے ہال کی باتیں کریں،
اس سیہ بھونچال کی باتیں کریں!

لاہور ٹیسٹ میں پاکستان کو ایک اننگز اور 156 رنز سے شکست ہوئی۔ اپنی سرزمین پر ٹیسٹ کرکٹ میں یہ پاکستان کی پہلی شکست تھی۔ ویسٹ انڈیز کی کامیابی میں روہن کہنائی کا بڑا اہم کردار تھا، جنہوں نے 217 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی۔ ضمیر جعفری نے نظم میں کہنائی کی شاندار پرفارمنس کی طرف بھی اشارہ کیا :
میچ تو بھائی کہنائی لے گیا

محمود الحسن اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ کہنائی کا اردو نظم ہی نہیں، معروف ادیب شوکت تھانوی کے کرکٹ پر پرُلطف مضمون میں بھی ذکر ہوا ہے، جس میں کرکٹ کے رسیا ڈاکٹر صاحب کا دھیان، مریضوں پر کم، ٹیسٹ میچ کی طرف زیادہ ہے۔ اس رویے پر بیمار بچے کا باپ شکوہ کناں ہے:
’کرکٹ کا جنوں وبائی صورت اختیار کر گیا ہے۔ صبح بچے کو ڈاکٹر صاحب کے پاس لے کر گیا تھا، اس کو دو دن سے بخار آ رہا ہے۔ یہ ڈاکٹر اچھے خاصے آدمی ہیں۔ بڑی اچھی تشخیص ہے۔ دست شفا بھی ہے، لالچی بھی کچھ زیادہ نہیں، صرف اپنے نسخے اپنی ہی ڈسپنسری میں بندھواتے ہیں مگر آج ان کا عالم ہی اور تھا۔ نہ وہ توجہ تھی نہ مرض کی تہہ تک پہنچ جانے والا انہماک۔ بچے کی نبض ان کے ہاتھ میں تھی اور حال سن رہے تھے ایک اور صاحب سے کہنائی کا۔ میں نے بچے کا حال سنانا شروع کیا کہ پرسوں اس نے ہم لوگوں سے چھپ کر دہی بڑے کھا لیے تھے کہ یکایک مطب میں شور اٹھا ’آؤٹ‘ اور ڈاکٹر صاحب نے بچے کی نبض اس طرح چھوڑ دی گویا اسی کی وجہ سے امتیاز آؤٹ ہوا ہے اور اس طرح سر جھکا کر بیٹھ گئے گویا خود ان کا کوئی ذاتی حادثہ ہو گیا ہے۔‘

پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان سنہ 1959 میں کھیلے گئے لاہور ٹیسٹ کا ایک اور دلچسپ پہلو بھی ہے۔ آج کل پاکستانی سیاست میں ایک دوسرے کے حریف عمران خان اور نواز شریف نے زندگی میں پہلی دفعہ جو ٹیسٹ دیکھا، وہ اتفاق سے باغ جناح میں کھیلا جانے والا یہی ٹیسٹ میچ تھا

اس زمانے میں عمران خان کرکٹ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی، اس لیے وہ والدہ کے ساتھ میچ دیکھنے گئے تو بور ہو گئے۔ وزلے ہال کی گیند سے اعجاز بٹ کی ناک پر چوٹ لگی اور انہیں زخمی حالت میں گراؤنڈ سے باہر آنا پڑا۔ یہ منظر دیکھ کر عمران خان کی میچ میں رہی سہی دلچسپی بھی جاتی رہی۔ مستقبل کے عظیم فاسٹ بولر کو ہال کی بولنگ نے بھی متاثر نہ کیا

سنہ 2017 میں چیمپئنز ٹرافی کی فاتح پاکستانی ٹیم کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں وزیراعظم نواز شریف نے کرکٹ سے جڑی یادیں تازہ کیں تو معلوم ہوا کہ وہ بھی پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین ٹیسٹ میچ دیکھنے باغ جناح گئے تھے اور یہ پہلی دفعہ تھا جب انہوں نے کوئی ٹیسٹ میچ ’لائیو‘ دیکھا۔
انہوں نے وزلے ہال کے ہاتھوں اعجاز بٹ کے زخمی ہونے کا حوالہ بھی دیا۔ ان کے بقول ’ہال ایک بڑا زبردست بولر ہوتا تھا۔‘

اس میچ میں ہال نے مسلسل تین گیندوں پر مشتاق محمد، فضل محمود اور نسیم الغنی کو آؤٹ کر کے ہیٹ ٹرک کی۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے ویسٹ انڈین بولر تھے

پاکستان کے لیجنڈری بیٹسمین حنیف محمد نے ’پلیئنگ فار پاکستان‘ میں اپنے فیورٹ کھلاڑیوں کی فہرست میں وزلے ہال کو شامل کیا ہے اور انہیں کیریئر میں آنے والے خطرناک بولروں میں سے ایک قرار دیا ہے، جس کا لمبا رن اپ اور کلاسیکل ایکشن تھا۔
حنیف محمد نے لکھا ہے کہ ہال کا مزاج دوسرے فاسٹ بولروں سے مختلف تھا۔ نہایت شریف اور فراخ دل کرکٹر۔ انہی خوبیوں کی بنا پر وہ تماشائیوں میں بہت مقبول تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close