موت سے بچ کر یورپ پہنچ بھی جائیں تو یہاں قدم قدم پر مگرمچھ تاک لگائے بیٹھے ہیں

عفت حسن رضوی

اخبارات کے حاشیے، یوٹیوب کی وڈیوز اور ڈیجیٹل میڈیا کی خبریں غیر قانونی تارکین وطن کی کربناک داستانوں سے اکثر بھری رہتی ہیں۔ بحیرہ روم کے گہرے پانیوں میں ڈوبنے والوں کی ویڈیوز اور سرحدی حکام کے ہاتھوں گرفتاری کے ویڈیو کلپس بھی میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں

فرض کریں کہ ڈنکی لگانے والا بندہ ماں کی دعا، قسمت کی لکیر، اَن گنت منتوں، مرادوں، درجنوں بارڈر سکیورٹی اہلکاروں کی کرپشن، سمندر کے سازگار موسم اور ایجنٹ کی مہربانی سے موت کو شکست دے کر یورپ پہنچ جائے۔ اب آگے کیا؟

بحیرہ روم کے ذریعے غیر قانونی پناہ گزیوں کے یورپ پہنچنے کے تین راستے ہیں، جن میں سب سے مصروف مرکزی سمندری راستہ شمالی افریقہ یعنی لیبیا سے اٹلی اور بعض کیسز میں مالٹا کو جاتا ہے

یورپی یونین کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں پاکستانی غیر قانونی تارکین وطن نے سب سے زیادہ اسی سمندری راہداری کو استعمال کیا۔ اگر مناسب سواری نہ ہو تو سمندر کا سفر تو ویسے ہی خطرناک ہوتا ہے مگر بحیرہ روم تارکین وطن کے لیے بالخصوص جان لیوا ثابت ہوا۔ ’مسنگ مائیگرنٹ پراجیکٹ‘ کے مطابق 2014 سے اب تک بحیرہ روم کے مرکزی سمندری راستے میں 17,000 سے زیادہ افراد غرق ہو چکے ہیں

موت یا یورپ کے اس سفر میں بالفرض اگر قسمت کی دیوی مہربان ہو جائے، موت اور حکام سے آنکھیں چرا کر یورپ مل بھی جائے تو ان بڑے خواب دیکھنے والوں کے ساتھ آگے کیا ہوتا ہے؟ یہ کئی ملین یوروز کا سوال ہے، جس کی کھوج میں اب تک لاکھوں یورو لگا کر کئی تحقیقاتی رپورٹس تیار کی گئی ہیں مگر کچھ بھی حتمی نہیں کیونکہ موت سے پُر اس راستے سے غیر قانونی تارکین وطن کی آمد بہت ڈرانے، بہت دھمکانے کے باوجود تھمنے کو نہیں آ رہی

یورپ کی آغوش میں لاکھوں پاکستانی غیر دستاویزی یا غیر قانونی تارکین وطن پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ناممکن کو ممکن بنا کر کسی نہ کسی طرح یورپ پہنچنے والوں کو آگے روزانہ کی بنیاد پر استحصال کے ایسے سمندر کا سامنا ہوتا ہے جس میں تیرتے مگرمچھ پھر کئی برسوں انہیں جینے نہیں دیتے۔ یہ یورپی معاشرے کے ایسے کمزور لوگ ہوتے ہیں جو مشکل ترین حالات میں بھی قانونی، سماجی یا حکومتی مدد حاصل نہیں کر پاتے

درست ویزا یا پناہ گزین کی حیثیت کے بغیر یہ پاکستانی اس یورپ کو ڈھونڈتے ہی رہ جاتے ہیں، جس کی ویڈیوز دیکھ دیکھ کر انہوں نے خواب سجائے تھے۔ مثلاً صاف ستھری رہائش گاہ، یوروز میں بے حساب کمائی، صحت کی بنیادی سہولت، جاب سکیورٹی اور سوشل سکیورٹی۔ لیکن غیر قانونی طور پر آنے والوں کو یورپی سرد موسم کے حسین نظارے ڈھونڈے نہیں ملتے

یورپی ممالک میں اب دفتری امور میں کاغذ قلم ختم ہو کر ڈیجیٹل آئی ڈی سسٹم بن گیا ہے۔ ایک ہی ڈیجیٹل آئی ڈی نمبر سے پولیس، امیگریشن، صحت اور ٹیکس کے معاملات ڈیل ہوتے ہیں۔ آفت کے مارے یہ غیرقانونی پاکستانی پناہ گزین کئی کئی برس سرکاری رجسٹریشن سے کتراتے رہتے ہیں

جب حیثیت قانونی نہیں تو بینک اکاؤنٹ بنوانا ممکن نہیں، یوں انہیں انتہائی معمولی یومیہ اجرت پر رکھ لیا جاتا ہے۔ بعض کو ایسے استحصال سے گزرنا پڑتا ہے کہ نوکری دینے والا کئی کئی ماہ کے پیسے کھا جائے، یہ چوں نہیں کر سکتے۔ زیادہ تکلیف کی بات یہ ہے کہ ایسا استحصال عموماً اپنے ہم وطن ہی کرتے ہیں

نیدر لینڈز میں پولیس جرم کے متاثرین اور گواہوں کو اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنی امیگریشن کی حیثیت کا حوالہ دیے بغیر جرم رپورٹ کر سکتے ہیں لیکن ہر یورپی ملک یہ سہولت نہیں دیتا۔ ایسے پاکستانیوں کا غیر قانونی پناہ گزین ہونا ہی ان کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے، جرائم پیشہ اور مفاد پرست اس مجبوری کو خوب استعمال کرتے ہیں

کاغذ پورے نہ ہوں تو معمولی کام بھی انہیں مہنگا پڑتا ہے۔ بات بات پہ یورپ میں بیٹھے بہروپیے ان سے محنت کی کمائی اینٹھتے ہیں اور مشکل سے جو بچ جائے وہ رقم پاکستان بھیجنے کے لیے الگ پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ یہاں قدم قدم پر انہیں اپنے غیر قانونی ہونے کا بھتہ بھرنا پڑتا ہے

شناخت قانونی نہ ہو تو ہنگامی صورت حال میں بھی حکام سے بچنے کے لیے بڑے سے بڑا سانحہ خاموشی سے جھیلنا پڑتا ہے۔ یہ پاکستانی شدید بیماری کی صورت میں بھی ڈاکٹروں سے کتراتے ہیں، کیونکہ بعض یورپی ممالک میں ڈاکٹرز پابند ہیں کہ وہ حکام کو غیر قانونی مریضوں کی معلومات فراہم کریں

یورپ کے پالیسی ساز ہمیشہ غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے آبائی ممالک میں واپس بھیجنے یا ریگولرائزیشن پروگرام کو ممکنہ حل کے طور پر دیکھتے ہیں

افغانستان میں طالبان کی واپسی اور یوکرین ۔ روس جنگ کے بعد یورپ میں مہاجرین کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے، اس لیے غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کو اب مستقبل میں یورپ کیسے کیسے قانونی شکنجوں میں کستا ہے، یہ دیکھنا بھی اہم ہے

غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن زندگی کے کتنے ہی برس یقین اور غیر یقینی کی کیفیت میں گزار دیتے ہیں اور اس وقت تک سکھ کا سانس نہیں لے پاتے جب تک ان کی حیثیت قانونی نہ ہو جائے۔ وہ الگ بات ہے کہ یورپ میں غیر قانونی سے قانونی ہونے کا یہ طویل سفر بھی بحیرہ روم میں غوطے کھاتی کشتی کے سفر سے کچھ کم تکلیف دہ نہیں

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close