جنگ کی چھاؤں تلے (نائجیرین ادب سے منتخب افسانہ)

بین اوکری (ترجمہ: حمید رازی)

اس دن تین فوجی گاؤں آئے۔۔ ان کو دیکھ کر بکریاں اور مرغیاں تتر بتر ہو گئیں۔۔ وہ بار گئے اور کھجور کی شراب کا آرڈر دیا۔۔ وہ اڑتی مکھیوں کے درمیان شراب پیتے رہے۔۔۔
’اموو‘ کھڑکی میں بیٹھا باپ کے جانے کا منتظر تھا اور انہیں دیکھتا جا رہا تھا۔۔ باپ بیٹے نے ریڈیو سنا، اس کے باپ نے یہ ریڈیو ایک خاندان سے خریدا تھا، جیسے جنگ کی وجہ سے شہر بدر ہونا پڑا۔۔ اس نے اسے سفید کپڑے سے ڈھانپ رکھا تھا تاکہ یہ گھر کی کوئی چیز نظر آئے۔۔ انہوں نے ملک میں بمباری کی خبریں سنیں۔۔ اس کے باپ نے بال سنوارے اور بڑھی داڑھی پر آفٹر شیو ملا۔۔ پھر اس نے اپنا پھٹا پرانا کوٹ پہننے کی کوشش کی۔۔

اموو اپنے باپ سے ناراض کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔۔۔ پچھلے سات دن سے ایک عورت کالا برقع پہنے ان کے گھر کے قریب سے گزرتی۔۔ وہ گاؤں سے گزر کے بڑی سڑک سے ہو کر جنگل میں غائب ہو جاتی۔۔ اموو اس کا منتظر رہا۔۔

اہم خبریں ختم ہوگئیں تھیں۔۔ ریڈیو نے خبر دی اس رات چاند گرہن ہوگا۔۔

اموو کے باپ نے پسینہ پونچھا اور کرختگی سے بولا ”چاند گرہن سے کون سی جنگ بند ہو جائے گئی۔۔“

”یہ چاند گرہن کیا ہوتا ہے؟“ اموو نے پوچھا

”اس وقت پوری دنیا میں اندھیرا چھا جاتا ہے اور عجیب واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔۔“

”مثلاً؟“

اس کے باپ نے سگریٹ سلگایا، ”اس وقت مردے چلنا اور گانا شروع کر دیتے ہیں۔۔ تم رات کو باہر نہیں نکلنا۔۔ گرہن بچے کھاتا ہے۔۔“

اموو کو ان باتوں پر قطعاً یقین نہیں تھا۔۔ اس کا باپ مسکرا دیا۔۔ اموو کو دس ’کوبو‘ دیئے اور کہا، ”ریڈیو بند کر دو۔۔ جنگ کی خبریں بچوں کے لئے اچھی نہیں ہوتیں۔۔“

اموو نے ریڈیو بند کر دیا۔۔ اس کے باپ نے دروازے میں کھڑے ہو کر اپنے بزرگوں کے لئے دعا کی۔۔ اس کے بعد اپنا بریف کیس اٹھایا اور ہاہر نکل گیا۔۔ اموو اسے بسوں کے اڈے تک جاتے دیکھتا رہا۔۔ جب وہ بس کے اندر چلا گیا اس نے ریڈیو آن کیا۔۔ وہ کھڑکی میں بیٹھ کر اس عورت کا انتظار کرتا رہا۔۔ آخری بار جب اس نے اسے دیکھا تھا، وہ دھواں چھوڑتے ہوئے جا رہی تھی۔۔ لڑکے اپنا کھیل درمیان میں ختم کر دیتے اور اسے دیکھنا شروع کر دیتے۔۔ وہ کہتے اس کا کوئی سایہ نہیں، وہ یہ بھی کہتے وہ زمین کو چھوئے بغیر چلتی ہے۔۔ وہ جب گزرتی لڑکے اسے مختلف چیزیں مارتے، وہ رکتی نہ آہستہ ہوتی اور نہ مڑ کے دیکھتی۔۔

گرمی بڑھ گئی تھی۔۔ اطراف سے آوازیں آنا کم ہو گئی تھیں۔۔ لوگوں کو اپنے کام کاج کرنے میں دقت پیش آ رہی تھی۔۔ ایسے لگتا جیسے وہ نیند میں چل رہے ہوں۔۔ تینوں فوجیوں نے کھجور کی شراب پی اور تاش کھیلتے رہے۔۔ اموو نے دیکھا جب بھی کوئی لڑکا ان کے نزدیک سے گزرتا ہے، وہ اسے اپنے پاس بلا لیتے ہیں، باتیں کرتے ہیں اور پیسے بھی دیتے ہیں۔۔ اموو بھی سیڑھیوں سے اترا اور ان کے قریب چلا گیا۔۔ فوجیوں نے اسے دیکھا اور اپنے پاس بلالیا۔۔۔

”تمہارا نام کیا ہے؟“ ان میں سے ایک نے پوچھا

اموو ٹھہر کے شرارت سے بولا: ”گرہن“

سپاہی ہنس پڑا اور اس کے چہرے پر تھوک دیا۔۔ اس کے چہرے کی رگیں پھول گئیں۔۔۔۔

اس کے دوسرے ساتھیوں نے اس کی طرف دھیان نہ دیا۔۔ وہ مکھیاں اڑاتے رہے اور کھیلتے رہے۔۔ ان کی بندوقیں میز پر پڑی تھیں اموو نے دیکھا ان پر نمبر لکھے ہوئے تھے

فوجی بولا: ”تمہارے باپ نے یہ نام اس لئے رکھا ہے کہ تمہارے ہونٹ بڑے بڑے ہیں؟“

دوسرے سپاہیوں نے بھی اموو کی طرف دیکھا اور ہنس پڑے۔۔ اموو نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔

”تم اچھے لڑکے ہو“ وہ رکا اور پھر مختلف لہجے میں بولا، ”تم نے وہ عورت دیکھی ہے جو اپنا چہرہ کالے کپڑے میں ڈھانپ کے رکھتی ہے۔۔“

”نہیں“

فوجی نے اموو کو دس کوبو دیئے اور کہا، ”وہ جاسوس ہے، ہمارے دشمنوں کی مدد کرتی ہے، اسے دیکھو تو ہمیں خبر کرو۔۔۔“

اموو نے پیسے واپس کر دیئے اور واپس آ کر کھڑکی میں بیٹھ گیا۔۔۔ سپاہی کبھی کبھار اسے دیکھ لیتے۔۔ اسے گرمی لگ رہی تھی وہ کھڑکی میں ہی سو گیا۔۔ پھر کووں کی کاں کاں نے اسے جگا دیا۔۔

پچھلا پہر شام میں بدل رہا تھا۔۔ فوجی اب بھی بار میں بیٹھے جمائیاں لے رہے تھے۔۔۔ خبروں کا وقت ہوگیا تھا۔۔۔ وہ دن بھر میں مرنے والوں کی گنتی سمجھے بغیر خبریں سنتا رہا۔۔ نیوز ریڈر بے ہوش ہو گئی، جب اسے ہوش آیا اس نے معافی مانگی اور لڑائی کی باقی تفصیل بتائی۔۔۔

اموو نے اردگرد دیکھا، عورت پہلے ہی جا چکی تھی۔ سپاہی بھی بار سے چلے گئے تھے۔۔ اس نے انہیں کچے پکے مکانوں اور مٹی دھول میں سے گزرتے دیکھا، عورت ان کے آگے آگے جا رہی تھی۔ اموو سیڑھیاں اتر کے فوجیوں کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔۔ ان میں سے ایک نے اپنی قمیض اتار دی اور ایک کی پتلون نیچے گر رہی تھی۔۔ اموو بڑی سڑک تک ان کا پیچھا کرتا رہا۔۔ جب وہ جنگل میں گھس گئے، انہوں نے اپنا راستہ تبدیل کرلیا۔۔۔ انہیں پتہ تھا وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔۔ اموو نے رفتار تیز کر دی تاکہ عورت اس کی آنکھوں کے سامنے رہے۔۔ وہ گھنے درختوں میں اس کا پیچھا کرتا رہا، اس نے پھٹے پرانے کپڑے خاکی شال اور کالا برقع پہنا ہوا تھا۔۔ اس کے سر پر سرخ ٹوکری تھی، وہ یہ دیکھنا بلکل بھول گیا کہ اس کا سایہ تھا کہ نہیں اور اس کے پیر زمین کو چھوتے تھے کہ نہیں۔۔۔

وہ ادھ بنے مکانوں اور گری باڑھ میں سے گزرا، اس نے خالی سمینٹ فیکٹری دیکھی، ٹوٹی اینٹیں روڑے اور مزدوروں کے ویران گھر بھی دیکھے۔۔ وہ ایک درخت کے قریب سے گزرا، جہاں ایک جانور کا ڈھانچہ پڑا ہوا تھا۔۔ اس نے ایک سانپ شاخ سے گرتے اور جڑوں میں گھستے دیکھا۔۔ اس نے لوگوں کو دور پہاڑی پر جنگی گیت اونچی آواز میں گاتے سنا۔۔

اس نے اس وقت تک عورت کا تعاقب کیا، جب تک فوجی میدان تک نہ پہنچ گئے۔۔ غار کی مدھم روشنی میں سے کچھ سائے باہر نکلے اور اسے گھیر لیا۔۔ انہوں نے اسے پکڑا اور غار کے اندر لے گئے۔۔ جب عورت باہر نکلی، اس کے سر سے ٹوکری غائب تھی۔۔ بھوکے بچے اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس عورتیں اسے پہاڑی تک چھوڑنے آئیں۔۔ واپسی سے پہلے انہوں نے اسے چھوا جیسے وہ اسے شاید دربارہ نہ دیکھ سکیں۔۔

وہ اس کا پیچھا کرتا رہا، جب تک سپاہی دریا تک نہ پہنچ گئے۔ وہ ایسے چل رہی تھی، جیسے کوئی ان دیکھی طاقت اسے اپنی طرف کھینچ رہی ہو۔۔ اموو نے کالے پانی میں الٹی کشتیاں اور کیچڑ سے اٹے کپڑے دیکھے۔۔ اس نے روٹیاں کوکاکولا کے ڈبے اور کھانے پینے کی دوسری اشیاء پانی میں تیرتی دیکھیں۔۔۔ جب اس نے کشتی کی طرف دیکھا اسے لگا یہ کشتی نہیں مرے ہوئے جانور تھے۔۔ اس نے دریا کنارے پرانے نوٹ دیکھیں۔۔

ہوا میں بدبو پھیلی ہوئی تھی۔۔ اس نے اپنے پیچھے، سانس لینے، کھانسے اور تھوکنے کی آواز سنی۔۔ اس نے ایک سپاہی کی آواز پہچان لی، جو دوسروں کو تیز چلنے کے لئے کہہ رہا تھا۔۔ اموو درخت کے نیچے چھپ گیا، فوجی اس کے قریب سے گزر گئے۔۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک چیخ سنی۔۔ انہوں نے عورت کو پکڑ لیا تھا اور اسے گھیرا ہوا تھا۔۔

”دوسرے کہاں ہیں؟“ ایک نے اونچی آواز میں پوچھا

عورت چپ رہی۔۔۔

”چڑیل تم مرنا چاہتی ہو!؟ وہ کہاں ہیں؟“

وہ چپ رہی، اس کا سر جھکا ہوا تھا، ایک سپاہی کھانسا اور دریا کی جانب تھوک دیا۔۔

”بات کرو، بات کرو“ اس نے اسے تھپڑ رسید کر دیا۔۔

موٹے سپاہی نے اس کا برقع پھاڑ کے زمین پر پھینک دیا، وہ برقع اٹھانے نیچے ہوئی تو گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا۔۔ اس کا سر گنجا اور زخموں سے چور تھا۔۔ اس کے چہرے پر بھی زخموں کے نشانات تھے۔۔ سپاہی نے اسے دھکا دے دیا اور وہ منہ کے بل گر پڑی۔۔

سورج نے اپنا رخ تبدیل کر لیا تھا۔۔ اموو نے دیکھا دریا میں مرے جانور نہیں لاشیں تھیں۔۔ یہ گھاس میں پھنسی ہوئی تھیں اور ان کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی تھیں۔۔ اس کے سوچنے اور کچھ کرنے سے پہلے اس نے ایک اور چیخ سنی۔۔ عورت اوپر اٹھ رہی تھی۔۔ اس کے ہاتھ میں برقع تھا وہ موٹے سپاہی کی طرف مڑی اور پوری طاقت سے اس کے چہرے پر تھوک دیا۔۔ موٹے سپاہی نے چہرہ صاف کیا اور بندوق اٹھا لی۔۔ اموو نے فائر کی آواز سننے سے پہلے اپنے سر پر پروں کی پھڑپھڑانے کی ڈرؤانی آواز سنی۔۔ وہ چیختا ہوا جنگل سے باہر دوڑ پڑا۔۔ سپاہی اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔۔ وہ مٹی اور دھول میں دوڑتا رہا۔۔ جب وہ دوڑ رہا تھا، اس نے پتوں میں بیٹھا الو دیکھا، جو اسے تاڑ رہا تھا۔۔ وہ درخت کی جڑوں میں گر پڑا، جب اس کا سر زمین پر لگا تو اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔۔

جب اسے ہوش آیا تو اس کے اردگرد تاریکی چھا چکی تھی۔۔ اس نے اپنی آنکھوں کے آگے انگلیاں لہرائیں پر اسے کچھ نظر نہیں آیا۔۔ اس نے سمجھا وہ اندھا ہوگیا ہے۔۔ وہ چیخا اور دروازے کے طرف دوڑ پڑا۔۔۔ جب اس کی طبعیت ذرا سنبھلی اس نے باہر آوازیں اور ریڈیو پر لگی جنگ کے بارے میں خبریں سنیں۔۔ وہ کھڑکی میں آ گیا اور حیران ہوا کہ اس کی نظر لوٹ آئی ہے۔۔۔

وہ یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا کہ اس کا باپ کرسی پر بیٹھا ان تین سپاہیوں کے ساتھ کھجور کی شراب پی رہا تھا۔۔ اموو دوڑتا ہوا باپ کے پاس گیا اور پاگلوں کی طرح سپاہیوں کے بارے میں اسے بتایا۔۔۔

”تمہیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے“ اس کے باپ نے کہا، ”یہ تمہیں جنگل سے اٹھا کے یہاں لائے ہیں۔۔“

اموو نے اپنے آپ کو سنھبالا اور باپ کو وہ سارا کچھ بتانا شروع کر دیا، جو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔ پر اس کا باپ سپاہیوں کی طرف دیکھ کر معذرت خواہانہ انداز میں مسکرایا پھر اس نے بیٹے کو اٹھایا اور اندر لے گیا۔!!

Original Tilte : In the shadow of war
Written by:
Ben Okri

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close