وقت کو مرکز بنا کر اگر لوگوں کو اقسام میں تقسیم کیا جائے، تو دو قسم کے لوگ سامنے آتے ہیں۔ ایک وہ، جو کہتے ہیں ’وقت ہی نہیں گزرتا‘ اور دوسرے وہ، جن کا کہنا ہے ’وقت ہی نہیں ملتا‘
جی ہاں، دنیا میں اکثر افراد کو لگتا ہے کہ جیسے وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور جیسے اس کو پر لگ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ سال کے اختتام پر لگتا ہےکہ یہ برس تو بہت تیزی سے گزر گیا۔ یا پھر اس کے برعکس ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ ہفتے یا مہینے کی کسی تقریب یا چھٹی کو گزرے برسوں بیت گئے
تو ایسا کیوں ہوتا ہے یعنی وقت بہت تیزی سے گزرتا ہوا کیوں محسوس ہوتا ہے؟ اس کا جواب بہت دلچسپ ہے
اس حوالے سے ایک بات جاننا دلچسپی سے خالی نہیں، کہ بڑوں کے مقابلے میں بچوں کو وقت بہت سست رفتاری سے گزرنے کا احساس ہوتا ہے
وقت کے تیزی سے سست روی سے گزرنے کے احساس کا راز دراصل ہمارے دماغ میں چھپا ہے
ایک تحقیق کے مطابق، جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے تو ہمارے دماغ کی اندرونی گھڑی کی رفتار سست ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں زندگی تیز رفتار محسوس ہونے لگتی ہے
دیگر تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ وقت گزرنے کے احساس اور نئی ادراکی تفصیلات کے درمیان تعلق موجود ہے
یعنی جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں تو سب کچھ نیا لگتا ہے، جس کے باعث اسے جاننے کے لیے ہمارے دماغ کو زیادہ تجزیہ کرنا پڑتا ہے اور اس کے نتیجے میں وقت گزرنے کی رفتار سست محسوس ہوتی ہے
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کسی منفرد سرگرمی کے نتیجے میں دماغ سے خارج ہونے والے ہارمون ڈوپامائن کے اخراج کی شرح میں بیس سال کی عمر کے بعد کمی آنے لگتی ہے، جس کے باعث ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ وقت بہت تیز رفتاری سے گزر رہا ہے
معمولاتِ زندگی کے اثرات
جب ہماری عمر بڑھتی ہے تو زندگی کے معمولات بھی یکساں ہونے لگتے ہیں اور ہم کچھ نیا سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے
اس کے برعکس بچپن اور نوجوانی میں ہم بہت کچھ پہلی بار کرتے ہیں، جیسے اسکول کا پہلا دن، گرمیوں کی تعطیلات کا پہلا دن، پہلا دوست، پہلی ملازمت وغیرہ۔۔
تو جب زندگی کے شروع میں ہم نئی چیزوں کا حصہ بنتے ہیں تو وقت سست روی سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن جب ہماری زندگی ایک جگہ ٹھہر جاتی ہے اور لگے بندھے معمولات پر مشتمل ہوتی ہے تو وقت بہت تیزی سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے
جب زندگی یکساں انداز سے گزرتی ہے تو ہمارے دماغ کے پاس کرنے کے لیے کچھ زیادہ کام نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے وقت بہت تیزی سے گزرنے کا احساس ہوتا ہے
اس کا مطلب ہے یہ ہے کہ اگر عمر بڑھنے کے باوجود نئی سرگرمیوں کا حصہ بننے کو ترجیح دی جائے تو پھر وقت تیزی سے گزرنے کا احساس نہیں ہوگا
خوشی اور وقت گزرنے کا احساس
جب آپ بہت خوش ہوں اور کسی من پسند سرگرمی کا حصہ بن جائیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقت کو جیسے پر لگ گئے ہیں اور وہ اڑا جا رہا ہے، لیکن جب بیزاری یا اداسی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے تو وقت کاٹے نہیں کٹتا
ایک تحقیق کے مطابق ہمارا دماغ وقت گزرنے کے احساس کو مختلف رفتار سے پیش کرتا ہے اور اس کا انحصار ہماری مصروفیت یا بیزاری پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب آپ کوئی ایسا کام کر رہے ہوں، جو مخصوص وقت میں کرنا ہو یا کسی پیچیدہ مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہوں تو وقت اڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے
اسی طرح گیم کھیلتے ہوئے، کسی اچھی فلم کو دیکھتے ہوئے یا کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی وقت کو پر لگ جاتے ہیں۔ دراصل اس کا تعلق آپ کی دلچسپی کی سرگرمی سے ہے
اس دوران دماغ مختلف منظرناموں کو دیکھتا ہے جس کے نتیجے میں لگتا ہے کہ جیسے وقت کو پر لگ گئے ہیں اور اس کے برعکس جب آپ بیزار ہوتے ہیں تو دماغ کے لیے وقت کی رفتار سست ہو جاتی ہے
دماغ کے مختلف میکنزم
محققین کے مطابق دماغ میں وقت کے حوالے سے مختلف میکنزم ہوتے ہیں، جن میں سے ایک میکنزم رفتار کا ہے جو کہ دماغی خلیات کو متحرک کر کے کسی سرگرمی کے لیے نیٹ ورک کو تشکیل دیتا ہے۔ یہ خلیات جتنی تیزی سے اپنا راستہ بناتے ہیں، اتنا ہی ہمیں وقت تیزی سے گزرتا محسوس ہوتا ہے
تحقیق میں بتایا گیا کہ عمر کے ساتھ وقت کی رفتار زیادہ تیزی سے گزرتی محسوس ہونے لگتی ہے، بچپن میں ہمارا دماغ یادداشت کے گنجان نیٹ ورک کو تشکیل دیتا ہے، تاکہ اس زمانے کے واقعات اور تجربات یاد رہ سکیں۔ جبکہ بڑے ہونے پر لوگ بہت کچھ دیکھ چکے ہوتے ہیں اور اس طرح کے گنجان نیٹ ورک کی ضرورت نہیں ہوتی۔