سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط 17)

شہزاد احمد حمید

میں نے جیپ سے اتر کر کمر سیدھی کی ہے جبکہ سندھو دور نیچے اپنے شور سے اپنے بہنے کا احساس دلا رہا ہے۔

جیپ پھر سڑک پر رواں ہے۔پہلے ہی موڑ نے بتا دیا کہ آنے والا راستہ کتنا دشوار ہوگا۔ فور بائی فور سے یہ موڑ مڑا تو اللہ یاد آ گیا۔ تنگ راستے پر کلیجہ منہ کو آتا محسوس ہوا ہے۔ نواز نظریں سڑک پر جمائے، اسٹیرنگ مضبوطی سے تھامے جیپ کے گئیر تیزی سے اپ ڈاؤن کر رہا ہے۔ پہلی چڑھائی کے بعد لمبی ڈھلوان آئی ہے۔ ایسی ڈھلوان پر گاڑی ہمیشہ ڈاؤن گئیر میں ہی چلانی چاہیے، کلچ دبائے بغیر کنٹرول بہتر ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یو ٹرن کی چڑھائی شروع ہو گئی ہے۔ اب کی بار ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی ہے۔ تقریباً آدھ کلو میٹر لمبی چڑھائی کی جانب گھومتا یہ موڑ مڑے تو سڑک سیدھی ہوئی اور ہمارے ساتھ ساتھ جیپ کا سانس بھی سیدھا ہوا ہے۔ نواز کہنے لگا؛ ”جناب! پہلا مرحلہ بخیریت گزر آئے ہیں بس ایک تنگ موڑ اور خطرناک اترائی باقی ہے۔“

سڑک کنارے بہتے پانی کے قریب اُس نے جیپ روکی، بونٹ اٹھایا اور بھاپ کی طرح دھواں اڑاتے گرم انجن کو یخ پانی سے ٹھنڈا کرنے لگا ہے۔ ایک دوسری جیپ کا ڈرائیور پہلے سے ہی ایسے کام میں مصروف ہے لیکن وہ واپس لیہہ کی جانب جا رہا ہے۔ میں بھی جیپ سے اتر آیا ہوں۔ ہوا ٹھنڈی لیکن دھوپ کافی تیز ہے۔ گرم دھوپ میں ٹھنڈے جسم نے جھرجھری لی اور پھر سے توانا ہو گیا ہے۔ یخ ہوا اور پانی کے دو ہی ڈبوں نے جیپ کے انجن کا درجہِ حرارت صفر ڈگری کر دیا ہے۔ نواز اس کام سے فارغ ہوا تو خود کو گرم کرنے کے لئے جیپ سے چائے کا تھرموس نکال لایا ہے اور گرم گرم چائے کپ میں انڈیل کر چسکیاں لینے لگا ہے۔ میں نے بھی اپنا کپ کشمیری چائے سے بھر ا تاکہ جسم کے آر پار ہوتی ٹھنڈ کو کچھ تو کم کر پاؤں۔ چائے کے گرم کپ نے ٹھنڈ کم اور توانائی بڑھا دی ہے۔ سامنے سے گزرتے بھیڑ بکریوں کے بڑے ریوڑ نے صاف ماحول کو گرد آلود اور تعفن زدہ کر دیا ہے۔ ریوڑ گزرا تو ہم بھی چل دئیے۔ استاد جوش نے کہا تھا؛
رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں
آگ سلگاؤ آبگینوں میں۔۔

نہ ہی رات ہے البتہ ٹھنڈ کافی ہے۔ ہمارے روبرو دوپہر ہونے لگی ہے۔ سورج نصف النہار پر ہے۔ سڑک کنارے بہتے چشمے سے ہم نے وضو کر کے ظہر کی قصر نماز ادا کی ہے۔ اتنے ٹھنڈے پانی سے جو بھی وضو کر کے نماز ادا کر ے گا، جنت کا ہی حق دار ہوگا کہ نماز ادا کرنے کے گھنٹہ بھر بعد تک ہاتھ اور پاؤں دوبارہ گرم نہ ہو پائے ہیں۔ ویسے جنت اور اس کے صلے میں ملنے والے انعامات کی خاطر یہ سودا ہر گز مہنگا نہیں ہے۔

مجھے چاچا غلام رسول نے بتایا تھا کہ راستے میں ’لیماین‘ (lamayum) رک کر لنچ ضرور کرنا۔ وہاں اسی نام کا ہوٹل ہے، تم اس کے تندوری دیسی چکن اور تندوری مچھلی کا ذائقہ زندگی بھر بھول نہ پاؤ گے۔ ہم بھی”لیماین ان“ چلے آئے ہیں۔ بھوک بھی بہت لگی ہے اور ہم نے انہی دو چیزوں کا آرڈر دیا ہے۔ میں لان میں بچھی چارپائی پر لیٹ کر آسمان کے شفاف نیلے رنگ کو دیکھتے دیکھتے ہی نیند کی وادی میں اتر گیا ہوں۔ نواز بھی آنکھیں موندے لیٹا ہے۔ بیرے نے آ کر اٹھایا: ”کھانا تیار ہے جناب۔“ یقین کریں کھانا اتنا لذیذ تھا کہ پلیٹ میں ایک نوالہ بھی نہ بچا ہے۔ ہم دونوں سب چٹ کر گئے ہیں۔ ایسا تندوری چکن اور مچھلی زندگی میں پہلے کبھی نہیں کھائی تھی۔ حیرانگی اس بات پر تھی اتنے لذیذ کھانے کا بل بھی مناسب ہی تھا۔ بیشک ہندوستان میں کھانا سستا ہے۔ ایسا کھانا اگر پاکستان میں کھایا جائے تو بل کئی ہزار روپے تو ضرور ہوگا۔ پیٹ کی پوجا سے فارغ ہوئے۔ کشمیری چائے کا لطف لے کر یہاں سے روانہ ہوئے تو دوپہر ڈھلنے کو ہے۔

ہوا ابھی بھی کافی خنک ہے۔ سڑک سے بہت نیچے میرا دوست (عظیم دریائے سندھ) بہہ رہا ہے۔ شور مچاتا، چٹانوں سے ٹکراتا ہے۔ یہ سنسان جگہ ہے۔ میرا گھنٹے بھر کا سفر ابھی بھی باقی ہے۔ راستہ تنگ اور سڑک بالکل نازک سی لڑکی کی کمر کی طرح دبلی ہے۔ میرے سامنے سڑک پہلے بلندی اور پھر لمبے نشیب میں اتر رہی ہے۔ وہی منظر، وہی نظارے۔ فرق یہ ہے کہ اب پہاڑوں کا ننگا پن گھاس اور سبزے نے چھپا لیا ہے۔ نواز نے نصرت فتح علی خاں مرحوم کی گائی قوالیوں کی ٹیپ چلا دی ہے۔ فنکار سبھی کے سانجھے ہوتے ہیں۔ ”نظر بھی نہ آئے جو وہی خدا وہی خدا ہے۔“ بے شک ہم کائنات کے رب کو ایسی ہی نشانیوں سے پہچانتے ہیں۔

اس روٹ پر کارگل سے بٹالک چون (54) کلو میٹر ہے۔ راستے میں دارد یا بورکس کہلانے والے چار آریائی گاؤں گارکون (garkon)، دیہہ (dah) ہانو (hanu) اور دارچک (darchik) سندھو کے کنارے آباد ہیں۔ بورکس تبتی لفظ ہے، جس کے معنی ہیں ”اونچے پہاڑوں کے لوگ۔“ یہ سارا راستہ سندھو کے ساتھ ساتھ ہی ہے۔

سہ پہر اترنے کو ہے۔ مجھے کچھ مکان نظر آرہے ہیں۔ نواز بنا پوچھے ہی بتانے لگا؛ ”جناب! ہم پاک بھارت سرحد پر پہنچ رہے ہیں۔ وہ سامنے جو مکان نظر آرہے ہیں۔ دراصل ہنورمن گاؤں ہے۔71ء کی جنگ سے پہلے پاکستان میں شامل تھا، اب بھارتی علاقہ ہے۔ اس کے قریب ہی پاک بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول ہے۔ 1947ء میں کھنچی جانے والی لائن آف کنٹرول کچھ تبدیلیوں کے ساتھ 1972ء میں دوبارہ سے ڈرا کی گئی تھی۔ سرحد پر نواز سے بغل گیر ہوتے ہم دونوں کی آنکھوں میں نمی اتر آئی ہے۔ لمحوں تک ہم بغل گیر ہی رہے۔ نواز کہنے لگا؛ ”جناب! بہت مدتوں بعد کوئی ایسا اجنبی ملا جو اپنا سا لگا۔“ میں نے کہا؛ ”تمہاری محبت کا شکریہ۔ بھول میں بھی تمہیں نہ سکوں گا۔ یہ شعر تمہیں میری یاد دلا تا رہے گا:ہم مہمان نہیں رونق محفل تھے، مدتوں یاد رکھو گے کوئی آیا تھا۔۔“

یہ باقاعدہ سرحد نہیں۔ جنگ میں جو ملک بھی دوسرے کی زمین پر قبضہ کر لے، لائن آف کنٹرول بھی اسی لحاظ سے بدل جاتی ہے۔ مدتوں بعد آج کوئی شخص یہاں سے سرحد کراس کر کے پاکستان جائے گا۔ میرا دوست، ہم سب کا داستان گو سندھو بنا کسی پرمٹ، پاسپورٹ کے پاکستان میں داخل ہوگا جبکہ مجھے تو سارے سفری کاغذات سرحدی محافظوں کو چیک کروانے ہیں۔ نواز پر الوداعی نظر ڈالی اور بھارتی سرحدی چوکی پہنچ گیا ہوں۔

میں پانچ دن کے ساتھ کے بعد نواز سے جدا ہوا ہوں۔ میں نے کشمیر میں سارا سفر نواز کے ساتھ ہی کیا ہے۔ کہنے کو یہ پانچ دن ہیں مگر شاید یہ سفر برسوں پہ محیط ہے۔ ایک ایک منٹ کئی کئی گھنٹوں کے برابر۔ کئی دنوں کا ساتھ اب انس میں بدل گیا ہے۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس کے دو بھائی، ایک بہن اور چچا اسکردو میں ہیں۔ وہ اکیلا ہی ادھر رہ گیا ہے، گو اب اس کے بیوی بچے ہیں لیکن خون کی محبت اور یاد کبھی اسے اتنا اداس کر دیتی ہے کہ زندگی ہی پھیکی لگنے لگتی ہے۔ کئی بار کی کوشش کے بعد بھی وہ بہن بھائیوں سے نہیں مل سکا۔ میں سوچنے لگا اپنے مفادات کی خاطر بھارتی سامراجی جنون کیسے کشمیریوں کو اپنا غلام بنائے ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی اٹھائی جانے والی آوازیں ہندوستانی حکومت کو سنائی نہیں دیتی ہیں مگر یہ آوازیں اقوام عالم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بھی ہیں۔ دونوں طرف سرحد کے آر پار انسانی رگوں میں بہنے والے خون کا رنگ ایک، آسمان سے برستی بارش ایک سی، دونوں جانب ہوا بھی بے رنگ بے ذائقہ، دریا میں گرے پتھر اور پہاڑ سبھی ایک ہی رنگ کے ہیں پھر یہ انسانی تفریق کیسی؟

ایک لمبے تکلیف دہ مرحلے کے بعد بھارتیوں نے مجھے سرحد پار کرنے کی اجازت دی۔ بیسیوں سوال کئے۔ سوال میں سے سوال۔ سامان اور میری جامہ تلاشی لی گئی۔میرے پاس سے انہیں دو عدد جینز کی پینٹس، ایک پشمینہ کی شال، رات کو پہننے کا سوٹ، دو ٹی شرٹس، دو شرٹس اور چار عدد جراب کے جوڑوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ البتہ راہ کی تصاویر کے حوالے سے انہوں نے خوب سوال کئے۔ انہیں بار بار بتایا کہ ”میرا ہندوستانی کشمیر آنے کا واحد مقصد دریائے سندھ کی کہانی لکھنا ہے۔ یہ تصاویر اسی کی کڑی ہیں۔ میں نے سارے سفر میں حکومتی ہدایات کی کہیں بھی خلاف ورزی نہیں کی۔“ بڑی مشکل سے ہی میں انہیں اپنی بات کا یقین دلا سکا ہوں

ایک گھنٹے کے صبر آزما سوال و جواب کے بعد لائن آف کنٹرول پار کرنے کی اجازت ملی۔ سرحد پار کرکے میں 71ء کے پاکستانی گاؤں ہنورمن سے 2022 ء کے پاکستانی گاؤں وانکو پہنچ گیا ہوں۔ سرحد کے اس پار اپنی جبین اپنی دھرتی کی پاک سرزمین پر جھکا دی کہ اس سے بہتر ملک دنیا میں دوسرا کوئی نہیں۔ وطن کی مٹی ماتھے سے ٹکرائی تو عجیب سا سرور پورے بدن میں اتر گیا۔ وطن کی مٹی کا انسان سے عجیب تعلق ہے یہ دھرتی ماں شے ہی کچھ ایسی ہے۔

انگریز سیاح ’کانوائے‘ اس خطے کے بارے لکھتا ہے؛ ”یہ عظیم بلندیوں اور غاروں جیسی پستیوں کی سرزمین ہے۔ میں نے آج تک ایسی وادی نہیں دیکھی جو حجم اور نوعیت میں اس کا مقابلہ کر سکتی ہو۔ یہ عرب کے خشک دریاؤں کی طرح بنجر ہے۔ یہ عمودی چٹانوں سے گھری ہے۔ یہ چٹانوں اور گہری کھائیوں کا ایسا گورکھ دھندا ہے، جس میں انسانی قدم کم ہی پڑتے ہیں۔ نباتات سے محروم، پتھریلے اونچے راستے جن پر چلنا ایسا ہی ہے جیسے انسان چاند پر چلنے کی کوشش کرے۔ ان بد شکل چٹانوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ گرمیوں میں یہ وادی انگاروں کی طرح دہکتی ہے۔ سردیوں میں یہ برف کی چادر اوڑھ لیتی ہے۔ اس سے عظیم بیابان دنیا کے اور کسی حصے میں ملنا محال ہے۔ اس اجنبی سرزمین پر خوف کا احساس غالب رہتا ہے۔“

کانوائے کے الفاظ حقیقت کے عکاس ہیں۔ یہ ہے وادی اسکردو سے رائے کوٹ برج تک آنے والے سفر کا تعارف۔۔ درحقیت اگر اسے اسکردو سے تھاکوٹ برج تک کا منظرنامہ کہا جائے تو ہر گز غلط نہ ہو گا۔

جیسے ہی سرحد پار کی، دریاؤں کے باپ سندھو کی آواز میرے کانوں میں پڑی؛ ”میں بٹالک سیکٹر کے پہاڑوں کی بھول بھلیوں میں ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑوں کے درمیان آباد چند کچے مکانوں اورکچھ مکینوں پر مشتمل چھوٹی سی بستی ’وانکو‘ کے قریب سے ’مرول ٹاپ‘ کے مقام سے بہتا پاکستان میں داخل ہوتا ہوں۔۔ ’وانکو برج‘ میرے دونوں کناروں کو ملاتا ہے۔ دور اوپر پہاڑوں کی چوٹیوں پر پاکستانی فوجی چوکیاں ہیں، جن کو راستہ اسی بستی کی بغل سے جاتا ہے۔ وانکو سے بھارتی سرحد تقریباً ایک گھنٹے کی پیدل مسافت ہے۔ قدیم زمانے میں یہاں سے لیہہ تک کا پیدل سفر چار ہفتوں میں کئی مراحل میں طے ہوتا تھا۔ قدیم زمانے میں لوگ لکڑی اور چمڑے سے بنی کشتی، جسے لداخی زبان میں ’زخ‘ کہتے ہیں، مجھ سے آر پار آیا جایا کرتے تھے۔

”میں 1971ء کی پاک بھارت جنگ سے پہلے ’ہنورمن‘ گاؤں، جو اُس وقت پاکستان کا حصہ تھا اور اس جنگ کے بعد بھات کے قبضہ میں چلا گیا، پاکستان میں داخل ہوتا تھا۔ اب پہلی پاکستانی آبادی وانکو ہے۔۔ ہنورمن گاؤں کا بھی عجیب قصہ ہے کہ گاؤں تو سارا بھاتی قبضے میں چلا گیا مگر مرول ٹاپ پر واقع حضرت شیخ نجف علی ؒ کی درگاہ پاکستانی علاقے میں ہی رہ گئی ہے۔ یہ زیارت گاہ اپنے عقیدت مندوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے لیکن اب ہنورمن گاؤں کے واسی اس زیارت گاہ تک نہیں آ سکتے جبکہ پاکستانی زائر اس درگاہ تک جانے کے لئے ’بلارگو‘ گاؤں تک جیپ سے پہنچتے ہیں اور وہاں سے تقریباً پنتالیس (45) منٹ کی پیدل مسافت طے کرکے مزار پر حاضری دیتے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور واپس لوٹ جاتے ہیں۔“

ہنورمن گاؤں میں ایک سماجی کارکن واحد اللہ نے مجھے بتایا؛ ”اس باڈر پر بھی پاکستانی اور بھارتی حکومت کو مزار تک آنے جانے کے لئے ویسا ہی بندوبست کرنا چاہیے جیسا ’کرتارپور‘ راہداری پر سکھ زائرین کے لئے کیا گیا ہے۔“ یہ مطالبہ جائز اور وقت کی ضرورت بھی ہے۔ (میں کرتارپور اس دور میں گیا تھا جب ابھی یہ راہداری نہیں تھی۔ گرو گوبند سنگھ جی یہاں گرو تھے۔ ان سے میری اچھی شناسائی تھی کہ ان دنوں میں ڈائریکٹر مقامی حکومت گوجرانوالہ تھا۔)
(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close