جنرل محمد ضیاءالحق کے طویل مارشل لا کے دوران جمہوریت پسند راہنماؤں نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ایم آر ڈی کے نام سے ایک تحریک کی بنیاد رکھی۔ سخت پابندیوں کے دور میں، جب خفیہ اداروں کی نگاہیں ہر لیڈر کا تعاقب کر رہی تھیں، بیگم نصرت بھٹو نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ تحریک کو منظم کرنے اور چلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس تحریک میں سندھ کی خواتین نے ایک ایسا بھرپور کردار ادا کیا، جسے پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا
بیگم نصرت بھٹو کی کار میں چھپنے کی کوشش ناکام ہو گئی
یہ پاکستان میں فوجی حکمران، جنرل محمد ضیاءالحق کے سخت ترین مارشل لا کا زمانہ تھا، تو دوسری طرف ملک میں تحریکِ بحالی جمہوریت کی داغ بیل ڈالی جا رہی تھی۔ کراچی میں معزول اور پھانسی پانے والے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی رہائش گاہ 70۔ کلفٹن سے لے کر دو تلوار اور تین تلوار، کلفٹن پل اور کالا پل کورنگی روڈ کے ارد گرد اور ہر طرف ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار چوکنا اور چوکس تھے۔ تو ایسے میں کلفٹن پل کے قریب خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے ایک مزدا کار کو روکا، جسے پیپلزپارٹی سندھ کے لیڈر عبدالستار بچانی چلا رہے تھے۔ کار کی پچھلی سیٹ نکلی ہوئی تھی اور جب کار کی ڈگی کھلوائی گئی تو اس میں سے بیگم نصرت بھٹو برآمد ہوئیں، جو ایم آر ڈی یا تحریک بحالی جمہوریت کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے جا رہی تھیں
یہ واقعہ اب سندھ اور ملک کے کئی سیاسی حلقوں میں ایک لوک داستاں بنا ہوا ہے جس کو خود عبدالستار بچانی یوں یاد کرتے ہیں: ”چچا زاد بھائی (عبدالستار بچانی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو کزن کہتے ہیں) 70۔کلفٹن کے اندر اور وہاں سے باہر آنے جانے والے ہر شخص پر سخت نظر رکھے ہوئے تھے۔ وہاں ہر آنے جانے والی گاڑی کے نمبر نوٹ کر رہے تھے۔ اور ان ہی دنوں ایک شام 70۔کلفٹن کے لان میں پیپلزپارٹی کی اس وقت کی چیئر پرسن بیگم نصرت بھٹو، میں، این ڈی خان، حسین شاہ بخاری، پارٹی کے لیڈر اور رفیق کاچھیلو چائے پر محوِ گفتگو تھے۔ تو ایسے میں بیگم نصرت بھٹو نے ہمیں بتایا کہ انہیں کے۔ ڈی۔ اے اسکیم کراچی کے ایک بنگلے میں ایم آر ڈی یا تحریکِ بحالیِ جمہوریت کے ہونے والے اجلاس میں شرکت کرنی ہے تو وہاں وہ کیسے پہنچیں؟ وہاں موجود پارٹی احباب نے کہا کہ یہ نا ممکن ہے کیوں کہ ہر جگہ جاسوسی کی ایجنسیوں کی چوکسی ہے۔ میں نے ان دنوں مزدا ایئر کنڈیشنڈ کار نئی نئی خریدی ہوئی تھی۔ میں نے بیگم صاحبہ سے کہا اگر وہ چاہیں تو میری کار کی ڈگی میں چھپ کر جا سکتی ہیں۔ میں کار کی پچھلی سیٹ نکال دیتا ہوں، جس سے ایئر کنڈیشنر کی ہوا انہیں ڈگی تک آتی رہے گی۔ تو اسی طرح میں 70۔کلفٹن سے تو بیگم صاحبہ کو چھپا کر نکل گیا لیکن کلفٹن پل پر ہمیں روکا گیا۔ انہیں پتہ لگ گیا تھا۔“
ستار بچانی بتاتے ہیں، ”بیگم صاحبہ تو بہرحال ایم آ ر ڈی کے اس اجلاس میں شرکت کرنے کسی نہ کسی طرح پھر بھی پہنچ گئی تھیں۔“ میں نے عبدالستار بچانی سے پوچھا پھر کیا ہوا تو انہوں نے کہا ”پھر میں چار مہینوں کے لیے مچھ جیل کاٹ کر آیا۔“
70۔ کلفٹن سے لیاری تک ’بی بی کا سفر‘
14 اگست 1986ع کو جب ایم آر ڈی تحریک کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو کی رہائش گاہ 70۔کلفٹن سے تمام تر پولیس و دیگر ایجنسیوں، باوردی اور بے وردی، کی تمام رکاوٹیں توڑ کر بینظیر بھٹو اپنی پیجارو پر سوار ہوئیں اور ان کی منزل لیاری تھی۔ اس دن کراچی میں ان کے 70۔کلفٹن سے لے کر لیاری، جو ان کی پاکستان پیپلزپارٹی کا گڑھ کہلاتا تھا، کے درمیان تمام راستے اور ان سے ملحق گلیاں پولیس اور ایم آر ڈی کے حامیوں کے درمیان میدانِ جنگ بنے ہوئے تھے۔ آنسو گیس کے شیلز سے تمام راستہ دھواں دھواں تھا۔ اور بہت سی جگہوں پر ہوائی فائرنگ بھی ہوئی۔ لیکن آخر کار بینظیر بھٹو لیاری کے چاکیواڑہ چوک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔ جہاں انہوں نے خطاب بھی کیا۔ اگرچہ ملکی پریس یا میڈیا پر زیادہ قدغن تھی لیکن غیر ملکی پریس نے بینظیر کے اس عمل کو نہایت بہادرانہ عمل قرار دیتے ہوئے اسے بڑی کوریج دی تھی، خاص طور پر ان دنوں لائف میگزین کا اگست کا شمارہ بینظیر بھٹو کے فوٹو پروفائل سے مزین تھا، جو میں نے خود امریکن سینٹر حیدرآباد کی لائبریری میں پڑھا تھا۔ یہ لائف میگزین کا یادگار شمارہ تھا۔ لیاری کے اس انتہائی ہنگامہ خیز یا بہت جگہوں پر بلوہ انگیز سفر پر ان کی ریڈ کلف کے دنوں کی دوست لائف میگزین کی صحافی این فیڈیمین اور فوٹو گرافر ایلن مارک بھی بینظیر کے ساتھ ان کی پیجارو پر سوار تھے۔
ایم آ ر ڈی، جس کی بنیاد 1980 میں بیگم نصرت بھٹو کی ہی کاوشوں سے پڑ چکی تھی، جو پیپلزپارٹی سمیت ملک میں کئی چھوٹی بڑی حزب مخالف کی سیاسی پارٹیوں کا اتحاد تھا۔ اس کا مقصد تین نکاتی تھا، ملک میں مارشل لاء کا خاتمہ، عام انتخابات کا انعقاد اور جمہوریت کی بحالی
14 اگست 1983 کو تحریکِ بحالیِ جمہوریت ملک میں اور خاص طور سے صوبہ سندھ میں ضیاء الحق مارشل لاء کے خلاف ایک بڑی عوامی احتجاجی لہر یا جوار بھاٹا کی طرح ابھر چکی تھی۔ سندھ کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، جس طرح سندھ کے عوام نے کسی حکومت کے خلاف ایسی مزاحمت اختیار کی ہو۔ نیز جس میں اہم کردار خواتین اور یہاں تک کہ چھوٹی بچیوں کا بھی رہا ہو
سندھی ادیب اور افسانہ نگار بدر ابڑو جو ان برسوں کے دوران جیل میں تھے، جنہوں نے سندھ میں ایم آر ڈی تحریک پر ’جب سندھ میں آگ لگی- ايم آرڈی کی کہانی‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے، کہتے ہیں ”اگرچہ ایم آر ڈی تحریک کی شروعات 14 اگست 1983 کو ہوئی لیکن یہ تحریک فروری 1984 تک چلتی رہی تھی۔“
ایم آر ڈی نے اس اتحاد میں شامل تمام پارٹیوں کے لیڈروں اور کارکنوں کو ملک بھر میں گرفتاریاں پیش کرنے کے لیے ’جیل بھرو تحریک‘ کی کال دی۔ اسی طرح ان دنوں کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قید معروف سندھی دانشور و سیاسی رہنما رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک کے علاوہ ان کی پارٹی سے وابستہ خواتین کی تنظیم سندھیانی تحریک کی خواتین بھی انتہائی منظم اور سرگرم ہو کر ایم آر ڈی کے مرد کارکنوں اور رہنماؤں کے شانہ بشانہ تھیں
لیکن جن حقائق کا ذکر ایم آ ر ڈی تحریک کے متعلق کسی کتاب یا تحقیق و تحریر میں نہیں، وہ ہے اس تحریک میں خواتین کا کردار یا حصہ ۔ جس میں مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والی خواتین سینکڑوں کی تعداد میں جیل بھی گئیں، گرفتاریاں بھی پیش کیں، لاٹھیاں اور تشدد بھی سہتی رہیں۔ انتہائی دلچسپ امر یہ ہے کہ خواتین تحریک کو منظم بھی کرتی رہیں، ساتھی مردوں کو چھپاتی بھی رہیں، پیغام رسانی بھی کرتی رہیں اور کھانے پکانے سمیت کئی کام رضاکارانہ طور کرتی رہی تھیں
سندھیانی تحریک اور ریشم گلی
6 ستمبر 1983 کو حیدرآباد سندھ کے مشہور بازار ریشم گلی میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ۔ یہاں زیادہ تر خواتین خریداری کرتی ہیں۔ پولیس کی نفری بھی آج کچھ خلاف معمول زیادہ ہے کہ اچانک ریشم گلی کی اس بھیڑ میں سے کچھ خواتین نعرے لگاتی ایک بینر ’جمہوریت بحال کرو۔ مارشل لاء مردہ آباد‘ ہوا میں لہراتی ہیں۔ دکانوں میں سے بظاہر خریداری کرتی عورتیں اور بچیاں جو جدا جدا ٹولیوں میں ہیں، اپنے سامان میں چھپائے پھولوں کے ہار اور اجرکیں لے کر ان عورتوں کی طرف بڑھتی نعروں میں شامل ہو جاتی ہیں۔ مسلح مرد پولیس والے آگے بڑھتے ہیں لیکن یہ عورتیں ان کو روک لیتی ہیں کہ وہ گرفتاری دینے کو آئی ہیں لیکن ان کے لیے لیڈیز پولیس طلب کی جائے۔ جب تک لیڈیز پولیس موقع پر پہنچے تب تک یہ سندھیانی تحریک کی خواتین مارشل لاء مخالف اور جمہوریت کے حق میں تقریریں کرتی اور نعرے لگاتی کوہ نور سینیما چوک تک پہنچتی ہیں۔ اس دن سندھیانی تحریک کی غلام فاطمہ پلیجو رسول بخش پلیجو کی بہن اور کلثوم کیڑانو پہلی خواتین ہیں، جنہوں نے گرفتاریاں پیش کیں۔ دو دن بعد گرفتاریاں پیش کرنے کی جگہ بدل دی جاتی ہے۔ پھر 8 ستمبر 1983 کو حیدرآباد سندھ مدرستہ البنات شہاب سنیما کے علاقے سے مریم راہوجو ایم آر ڈی کے مقتول رہنما فاضل راہو کی بہن تھی اور رسول بخش پلیجو کی کم عمر بھانجی شبنم پلیجو گرفتاریاں پیش کرتی ہیں۔ شبنم پلیجو جو اب ڈاکٹر ہیں، بتاتی ہیں کہ اس وقت وہ چھٹی جماعت کی طالبہ تھیں۔ ”مجھے گرفتار کر کے کراچی سینٹرل جیل بھیجا گیا تھا، جہاں نو ماہ تک نظربند رکھا گیا تھا۔“
آخر سندھیانی تحریک کا قیام کیسے اور کیونکر عمل میں آیا؟ میں نے پچھلے دنوں یہ سوال سندھیانی تحریک کی رہنما حور النسا پلیجو سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جب ٹھٹہ میں مارشل لاء حکام نے ہمیں بلا کر ان کی تحویل میں قید ہمارے سیاسی کارکن بھائیوں کی تصاویر دکھلائیں کہ جن کے سر کے بال اور مونچھیں انہوں نے مونڈھ دی تھیں اور ان کی تذلیل کی گئی تھی۔ تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ میدان عمل میں نکل کر ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ تو اسی طرح سندھیانی تحریک کا قیام عمل میں آیا
سندھیانی تحریک کی بانی رکن شہناز راہو بتاتی ہیں کہ 1982 میں ان کے آبائی گاؤں راہوکی میں عوامی تحریک کی جانب سے عورت کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ عوامی تحریک سے وابستہ عورتوں کو بھی ایم آرڈی کا ساتھ دینا چاہئیے۔ اس ضمن میں پھر ایک خفیہ ’مائی کمیٹی‘ بنائی گئی تھی۔ حور النسا پلیجو اور شہناز راہو کا کام گرفتار ہوئے بغیر تحریک کو جاری رکھنا تھا، جس میں ٹھٹہ بدین اور دیگر اضلاع سے سندھیانی تحریک کی خواتین کو لا کر ان کی گرفتاریاں دلوانا بھی تھا۔
رسول بخش پلیجو کی بھتیجی مارئی پلیجو اب تک سیاست سے منسلک ہوتے ہوئے ’عوامی پورھیت تحریک‘ کی سیکرٹری جنرل ہیں، بتاتی ہیں کہ وہ اور ان کی ساتھی لڑکیاں تب بارہ تیرہ سال کی بچیاں تھیں، لیکن ان کا کام گرفتاری دینے والی بڑی خواتین کا سامان جو کہ گٹھڑیوں کے صورت میں ہوتا وہ اٹھا کر چلتیں ۔ انہوں نے اپنے نیفوں میں پارٹی کے جھنڈے چھپائے ہوتے۔ ریشم گلی میں چوڑیوں اور منیار کے سامان کی خریداروں کا روپ دھارے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ کر اس جگہ کے ارد گرد دکانوں پر موجود ہوتیں، جہاں قریب بڑی عمر کی عورتوں کو گرفتاری پیش کرنا ہوتی۔ جب وہ گرفتاریاں پیش کر کے پولیس پک اپس میں چڑھائی جاتیں تو ہم لوگ ایک دم دوڑ کر ان کا سامان ان کی گود میں پھینکتے۔ ان گٹھڑیوں میں ان دیہاتی عورتوں کا عجیب و غریب سامان ہوتا۔ پتے کی بیڑیاں، سگرٹیں، پھٹے پرانے کپڑے وغیرہ۔ ’سجاگ بار‘ (بیدار بچے) تنظیم کے بچوں کی ڈیوٹی یہ معلوم کرنا ہوتی کہ یہ گرفتار عورتیں کن تھانوں اور لاکپ میں پہنچائی گئی ہیں۔ اور ’سجاگ بار تنظیم‘ کے بچے ان قیدی خواتین کو بستر وغیرہ پہنچاتے۔“
مارئی پلیجو بتاتی ہیں ”ایم آر ڈی تحریک کے دوران ہم بارہ تیرہ سال کی بچیاں ایک دفعہ خفیہ پولیس کے ہتھے چڑھ گئیں، جب انہوں نے ہمیں روک کر پوچھ گچھ کی کہ ہم بازاروں میں کیا کرنے آتی ہیں تو ہم نے انہیں بتایا کہ خریداری کرنے، لیکن انہوں نے کہا کہ، ”نہیں تم خریداری کرنے نہیں آتیں۔ تم گرفتاریاں پیش کرنے والی عورتوں کی مدد کرنے آتی ہو۔ ہم تمہیں کئی دنوں سے دیکھ رہے ہیں۔“ ۔ ہمیں گرفتار کرلیا گیا اور پھر سٹی پولیس تھانے لایا گیا۔ جہاں ہم نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ ہم نے کہا ہمیں سینٹرل جیل بھیجا جائے وگرنہ ہم بھوک ہڑتال کرتی ہیں۔ ہمیں کراچی سینٹرل جیل بھیج دیا گیا جہاں ہم آٹھ ماہ تک قید رہیں
ایم آر ڈی تحریک میں قید ہونے والی ان خواتین اور بچیوں کی جیل کی عجب کہانیاں ہیں۔ مارئی پلیجو بتاتی ہیں کہ کراچی سینٹرل جیل میں ہماری سینئر ساتھیوں نے اسٹڈی سرکل قائم کیے، جہاں ’چراغ جلتا رہا‘ اور ’سرخ لالٹین‘ جیسے روسی اور چینی ادب کے تراجم پڑھے جاتے۔ وہاں پیپلزپارٹی کی رقیہ خانم ہماری انگریزی کی کلاسیں لیتی تھیں۔ ہم بنگالی قیدی عورتوں کے ساتھ مل کر بنگالی گیت بھی گاتی تھیں۔ سندھی گیت بھی گاتی تھیں
شبنم پلیجو ان دنوں کا قصہ بیان کرتی ہیں ”ایک وقت ایسا بھی آیا جب رسول بخش پلیجو سمیت خاندان کے تمام مرد جیلوں میں تھے۔ جب میں گرفتار ہوئی تو میں چھٹی جماعت کی طالبہ تھی۔ خوف ڈر بالکل بھی نہیں تھا۔ میرا ابا پولیس میں تھا اسی لیے جب گرفتاری کے بعد پولیس والے پوچھتے کہ تمہارے والد کا نام کیا ہے تو میں بتاتی وہ کسان ہے۔ گھر کا پتہ نہیں بتاتی تھی۔ وہ مجھ سے کہتے اگر تمہیں مار دیں تو تمہاری لاش کہاں بھیجیں؟ میں کہتی سڑک پر پھینک دینا۔“
ڈی ایس ایف کی اکیلی قیدی
حمیدہ گل حیدرآباد سندھ میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں تھیں، جب 1983 میں وہ ایم آر ڈی تحریک کے دوران سیشن کورٹ حیدرآباد سے گرفتار ہو کر چھ ماہ تک جیل گئیں تھیں۔ ”مجھے فوجی عدالت نے چھ ماہ کی سزا سنائی تھی۔ میری عمر چودہ پندرہ سال تھی۔ پہلے لانڈھی کراچی جیل میں بچوں کے وارڈ اور پھر کراچی سینٹرل جیل بھیجا گیا۔ کراچی سینٹرل جیل میں سندھیانی تحریک کی کوئی تیس عورتوں، اور پیپلزپارٹی کی خواتین کے علاوہ بغیر دستاویز سرحد پار کرتے گرفتار ہوکر آنے والی بنگالی عورتیں بھی بچوں کے ساتھ قید تھیں۔ قیدی تو پھر قیدی ہوتا ہے۔“ وہ ان دنوں کو ”سیاست کا ایک سنہری دور“ کہہ کر یاد کرتی ہیں
ٹھری میر واہ کی عورتیں
یہ 5 جولائی 1983 کا دن تھا جب خیرپور میرس کے شہر ٹھری میرواہ میں عورتیں اور مرد سیاسی کارکن ایم آر ڈی کی طرف سے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے خلاف یومِ احتجاج منانے کی اپیل پر اکٹھے ہوئے تھے، جن میں ایک بڑی تعداد عورتوں کی تھی۔ جن میں قریبی گاؤں مینگھو فقیر شر کی عورتوں کی اکثریت تھی۔ اس گاؤں سے کچھ عورتیں سابقہ سوویت یونین کے وقت ماسکو تک پڑھنے بھی گئی تھیں۔ اور اس گاؤں کا تعلق زیادہ تر بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے لوگوں سے تھا۔
مردوں کو جب فوج نے بظاہر ’مذاکرات‘ کے لیے بلا کر فوجی ٹرکوں میں ڈالنے کی کوشش کی تو عورتوں نے سخت مزاحمت کر کے انہیں چھڑا لیا تھا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ اور اس واقعے کی پولیس کی طرف سے کاٹی گئی ایف آئی آر کے مطابق ”ایم آرڈی کی آج کی تاریخ پر دی ہوئی کال پر مظاہرین کے ہاتھوں میں گتوں اور بینر پر لکھے نعرے تھے: مارشل لاء مردہ آباد، جنرل ضیاء مردہ آباد۔“
گاؤں مینگھو فقیر شر اور اس خاندان سے تعلق رکھنے والے حیدر شر جو آج کل امریکی ریاست ورجینیا میں مقیم ہیں، کہتے ہیں ”اگرچہ میں اس زمانے میں چھوٹی عمر کا تھا لیکن مجھے یہ جلوس یاد ہے، جس میں بھاری تعداد میں پولیس اور فوج موجود تھی۔ بلکہ فوج شہر میں توپ خانہ لے آئی تھی۔ مذاکرات کے بہانے فوج نے جب میرے ابا کامریڈ غلام حسین شر و دیگر مردوں کو زبردستی اپنے ٹرکوں میں ڈالنا چاہا تو میری دادی ملوکاں اور ممانی کمال خاتون نے زبردست مزاحمت کر کے انہیں چھڑایا تھا۔“ گوٹھ مینگھو فقیر شر اور ٹھری میر واہ کی عورتوں کی ایسی مزاحمت آج تک سندھ میں سیاسی لوک داستان بنی ہوئی ہے
خیرپور میرس میں رانی پور سمیت کئی شہر اور گاؤں ایم آر ڈی میں اگلے مورچوں پر تھے۔ خیرپور میرس شہر میں ان دنوں پاکستان پیپلزپارٹی کی ارشاد جیلانی کی قیادت میں عورتیں سرگرم تھیں
ٹنڈو جام کی گمشدہ عورتیں
ٹنڈو جام سے چھ میل کے فاصلے پر گاؤں عثمان انڑ میں میں ایم آر ڈی یا تحریک بحالی جمہوریت 1986 کے دوران مظاہرین نے جب درخت کاٹ کر روڈ بلاک کرنے کی کوشش کی تو پولیس اور گاؤں والوں کے درمیان تصادم ہوا، جس میں دو کارکن گل محمد انڑ اور حاکم علی وسان ہلاک اور کچھ پولیس والے زخمی اور دو ہلاک ہوئے تھے۔ پولیس نے گاؤں میں بڑا آپریشن کر کے وہاں عورتوں کو بھی اٹھا کر غائب کر دیا تھا۔ قریب کے گاؤں کے باسی مجید حاجانو ان واقعات کو یوں یاد کرتے ہیں: ”پولیس نے کوئی 19 عورتیں گرفتار کی تھیں۔ جن میں سے 10 عورتیں گاؤں درگاہ رکن کی تھیں، پانچ عورتیں گاؤں جہان خان کاٹھیو کی، ایک عورت مریم سولنگی گاؤں پیر زمان شاہ سے، ایک عورت گاؤں اکبر خاصخیلی سے گرفتار کی گئی تھی۔ پولیس تشدد میں دو حاملہ عورتوں مسمات صدوری اور راجل کے حمل ضائع ہو گئے۔ جب کہ مقامی پی پی پی عہدیدار اور کارکن اکبر خاصخیلی کی اہلیہ کو کئی دنوں تک تھانے پر رکھا گیا۔ خود اکبر خاصخیلی پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا“
گوٹھ طیب تھہیم کی نور خاتون
سندھ میں تحریکِ بحالیِ جمہوریت کے دونوں مرحلوں 1983۔ اور 1986 میں دادو، مورو، میہڑ، خیرپور ناتھن شاہ، نوشہرو فیروز، سکرنڈ کا گاؤں پنہل خان چانڈیو، لاکھاٹ، بھان سعیدآباد کے قریب احمد خان برہمانی شدید ریاستی تشدد کا نشانہ رہے تھے۔ جہاں گاؤں لاکھاٹ، پنہل خان چانڈیو، احمد خان برہمانی، خیرپور ناتھن شاہ میں نہتے پُرامن مظاہرین کو مشین گنوں سے بھون دیا گیا تھا۔ شہداد پور میں گاؤں طیب تھہیم میں فوج کے فائر کھولنے سے ایک عورت نور خاتون بھی ہلاک ہوئی۔
عمر لین لیاری کی ماسی سکینہ
لیاری کراچی کے میوہ شاہ روڈ پر واقع چاکیواڑہ، کلاکوٹ پولیس کوارٹرز کے سامنے والی گلی کے نکڑ پر عمر لین میں رہنے والی اس دراز قد اور تنومند خاتون ماسی سکینہ کا ذکر ضرور آئے گا، جب جب لیاری میں ایم آرڈی تحریک کے حوالے سے ‘ہنگامہء روچاں’ (ہنگاموں والے دنوں) کا ذکر آئے گا۔ ماسی سکینہ مظاہرین اور پولیس سے ‘آنکھ مچولی کھیلنے والے ’بچوں اور نوجوانوں پر تشدد کرنے والے پولیس والوں کو ڈانٹتی ڈپٹتی، ان کی مردانگی کو کوستی اور ان کے درمیان ایک ڈھال بن کر کھڑی ہو جاتی۔ تب تک ہنگامہ کرنے والوں کو موقعہ مل جاتا اور وہ وہاں سے نو دو گیارہ ہوجاتے۔
صحافی رزاق سربازی جو اسی پڑوس میں رہتے تھے، آج کل سویڈن میں آباد ہیں، ان دنوں کو یاد کرتے کہتے ہیں ”ہنگامہ کرنے والا تو پولیس کو شاذ و نادر ہی ملتا پر کوئی راہ گیر دھر لیا جاتا۔ جمہوریت تو کبھی واپس نہیں لوٹی پر اس کے بحال کروانے کے پُرتشدد دنوں میں ماسی سکینہ نے اپنا خون بہایا۔ بینظیر بھٹو کے اقتدار کے دنوں میں ہنگامہ آرائی والی اس سڑک پر وہ بچوں کے ساتھ اپنی ریڑھی پر بچوں کی چیزیں بیچنے میں مشغول نظر آتی۔“
رزاق سربازی کہتے ہیں ”ان دنوں لیاری پولیس کے پاس ابھی بکتر بند گاڑیاں نہیں پہنچی تھیں ورنہ ماسی سکینہ بکتر بند کہلاتیں۔“
سعید بلوچ جو لیاری سے سول سوسائٹی اور ماہی گیروں کی تحریک کا سرگرم رکن ہے، بتاتا ہے، ”ان دنوں میرے محلے کلاکوٹ اور لیاری کی دیگر گلیوں میں عورتیں پانی کی بالٹیاں بھر کر رکھتیں اور نمک کی ڈلیاں بانٹتیں کہ ہم لڑکے آنسو گیس کا مقابلہ کر سکیں۔ پولیس سے ’آنکھ مچولی‘ میں وہ ہمیں گھروں میں چھپاتیں۔ لیاری کی پتلی گلیاں ہیں جن میں اگر ایک گلی کے گھر میں داخل ہو تو دوسری گلی سے جا نکلو۔“
قمبر کے بہن بھائی
سندھیانی تحریک کی سابق اور سول سوسائٹی میں سرگرم کارکن، ریحانہ شیخ، جو کہ آج کل اسلام آباد میں ہوتی ہیں، ان کا تعلق لاڑکانہ ڈویژن کے تاریخی شہر قمبر سے ہے، جن کے تین بھائی مارشل لاء حکام کو سیاست کی وجہ سے انتہائی مطلوب تھے اور وہ ایم آر ڈی میں سرگرم رہے تھے۔ ان کے ایک بھائی نذیر شیخ کا ’جرم‘ لاڑکانہ چانڈکا میڈیکل کالج میں صوفی شاہ عنایت کی برسی منانا تھا۔ ریحانہ شیخ کا کہنا تھا ”ہمارے گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ ان کی گرفتاریوں اور گھر پر فوجی چڑھائی کے خوف سے ہم نے انہیں گھر میں نہیں رہنے دیا تھا۔ میرے بھائیوں کے عوض میرے والد کو ایک ماہ تک تھانے میں رکھا گیا تھا۔ گھر میں ہم صرف عورتیں رہ گئی تھیں۔ ہم نے انقلابی لٹریچر جو زیادہ تر روسی اور چینی سے اردو سندھی میں تراجم تھے، گھر سے نکال دیا تھا کیوں وہ بھی ’تخریبی مواد‘ کے زمرے میں آتا تھا۔ مارشل لاء حکام نے ایک دن والد کو تھانے بلایا اور انہیں کہا کہ ہم قرآن پر حلفیہ کہتے ہیں کہ اپنے لڑکے پیش کرو ہم انہیں کوئی بھی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ والد تقریباً تیار ہو گئے تھے۔ جب انہوں نے میری والدہ سے گھر آ کر بات کی تو والدہ نے کہا ان پر اعتبار کر رہے ہو جنہوں نے حلف لے کر بھٹو کو پھانسی دی ہے۔ میں ہر گز اپنے لڑکے ان کو پیش نہیں کراؤں گی۔“
ریحانہ شیخ کہتی ہیں ”ہمارے بھائی روپوش تھے، دوسرے سیاسی ساتھی مہمان ہوا کرتے۔ گھر میں پیسے ہوتے نہ ہوتے لیکن دس دس افراد کا کھانا بھی ہمیں بنانا پڑتا۔“ ریحانہ شیخ کی ایک عزیزہ زاہدہ شیخ رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک کی انتہائی سرگرم کارکن اور ان کی سیاست میں دست راست تھیں
اگرچہ سندھ 1983 اور 1986 میں ملک میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک میں ہر اول کردار ادا کر ر ہا تھا، لیکن پنجاب سمیت ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ایم آر ڈی میں شامل پارٹیوں کے کارکن و رہنما خواتین سمیت سڑکوں پر تھے۔ جیلیں اور شاہی قلعہ ان سے آباد تھا۔
پاکستان کی ہر جیل ہر موسم کی قیدی، شاہدہ جیبن
’جیل کی روٹی جیل کی دال، بھٹو جیوے ہزاروں سال‘ یہ وہ نعرہ تھا، جو پاکستان پیپلزپارٹی کی معروف سرگرم کارکن اور ایگزیکٹو کمیٹی کی رکن شاہدہ جبین کو آج بھی یاد ہے۔ وہ کہتی ہیں پاکستان کا کون سا بڑا جیل ہے جہاں میں نہیں گئی۔ 5 جولائی 1977 سے لیکر 17 اگست 1988 تک جب تک ضیاء الحق زندہ تھا، میں ہمیشہ قید و بند اور ریاستی تشدد میں رہی۔ جمہوریت کی بحالی کی تحریک میں رہی۔ کیا مرد کیا عورتیں ہم لوگ شانہ بشانہ رہے۔” شاہی قلعہ تھا کہ کوٹ لکھپت جیل، ملتان جیل کہ راولپنڈی جیل یا کراچی سینٹرل جیل شاہدہ جبین اور ان کے اہل خانہ لمبی معیاد کی جیلوں اور عقوبت خانوں میں رہے
”بچے کو جنم دے کر میں جیل چلی گئی تھی۔ شاہی قلعے میں قید رزاق جھرنا سے میں نے کہا تھا اپنے بیٹے کا نام تمہارے نام پر رکھوں گی۔ بھٹو اور بینظیر پر نام تو بہت سے کارکن رکھیں گے لیکن رزاق جھرنا نام میں رکھوں گی۔“ شاہدہ جبیں مجھے بتا رہی تھیں۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء میں پی پی پی کارکن رزاق جھرنا کو بعد میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ شاہدہ جبین کے اپنے بھائی عثمان غنی کو بھی پھانسی دے دی گئی تھی۔ شاہدہ جبین اس وقت بھی جلوسوں اور مظاہروں موجود تھیں، جب پیپلزپارٹی کے چار کارکنوں نے خود سوزی کی تھی۔ ”مجھے ثریا سلطانہ کے ساتھ پکڑا گیا تھا اور دونوں کو الگ الگ کمروں میں رکھا گیا۔ مجھے کمرے سے باہر بلوا کر ایس ایچ او کہتا کہ تمہاری ساتھی ثریا سلطانہ نے سب کچھ بتا دیا ہے۔ اب تم بھی اعتراف کرو بیگم بھٹو نے تمہیں پیسے دیے ہیں۔ میرے انکار پر اس نے میز پر سے ایک موٹا رول اٹھا لیا اور مجھے مارنا شروع کیا۔ میں اسے کہتی تمہاری ڈیوٹی مارنا ہے اور میری ڈیوٹی مار کھانا ہے۔“
وہ کہتی ہیں ”مجھے 28 فروری 1982 کا وہ دن یاد ہے، جب بیگم نصرت بھٹو ایم آر ڈی تحریک کے سلسلے میں میاں محمود علی قصوری کی کوٹھی پر آئی تھیں۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایم آر ڈی تحریک میں سب سے پہلے مزدور، کسان، طلبہ گرفتاریاں پیش کریں گے۔ پولیس نے میاں محمود علی قصوری کی کوٹھی کے باہر کارکنوں پر دھاوا بولا تھا۔ ملک اعجاز اور دیگر کارکنوں کو گرفتار کیا۔ لاٹھی چارج اور تشدد ہوا۔“ شاہدہ جبین نے پھر کہا ”ہم نے لاٹھیاں کھائیں، آنسو گیس اور پانی کے کین چلائے گئے۔ بدترین تشدد برداشت کیا۔ لیکن کسی عمارت کو آگ نہیں لگائی، کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی۔ کسی پولیس والے کو کوئی زک نہیں پہنچائی۔ کیونکہ ہم جانتے تھے کہ پولیس والا بھی کسی ماں کا لال ہے اور وہ یہاں اپنی ڈیوٹی دینے آیا ہوا ہے۔“ ایم آر ڈی میں لاہور سے شاہدہ جبین کے علاوہ پیپلزپارٹی کی بیگم خاکوانی، ریحانہ سرور، اور بائیں بازو کی معروف انسانی حقوق کی کارکن طاہرہ مظہر علی خان کا بھی قابل ذکر کردار رہا تھا۔
میں نے شاعرہ اور خواتین کے انسانی حقوق کی سرگرم کارکن عطیہ داؤد سے پوچھا، کیا خواتین کی تنظیمیں بھی ایم آر ڈی تحریک میں سرگرم تھیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ایم آرڈی تحریک میں براہ راست تو نہیں لیکن ویمن ایکشن فورم یا ویف کا قیام ہی مارشل لاکے دنوں میں عورتوں کے خلاف جابرانہ اور امتیازی قوانین کے خلاف عمل میں آیا تھا۔ اور ویف کراچی اور لاہور میں ریپ کی شکار عورتوں کو کوڑوں کی سزاؤں کے خلاف سرگرم عمل تھی
کراچی میں ریگل چوک پر ایم آر ڈی مظاہروں میں کئی خواتین شریک ہوتیں، جن میں انسانی حقوق کی ہر دور میں سرگرم کارکن انیس ہارون انجمن جمہوریت پسند خواتین کی بیگم ممتاز نورانی اور تحریکِ نسواں کی بانی اور معروف رقاصہ شیما کرمانی بھی ایم آر ڈی تحریک کے ساتھ یکجہتی میں تھیں
لیکن ایم آرڈی کی تحریک میں خواتین جو مصائب اور قید و بند اور تشدد سے گزریں اور اس تحریک کی ریڑھ کی ہڈی یا انجن کی حیثیت رکھتی تھیں، ان کا اتنا ذکر کیوں نہیں؟ میں نے یہ سوال لاہور سے ملک میں سول سوسائٹی کی سرگرم کارکن سیدہ دیپ سے پوچھا ”ایم آر ڈی کیا، کوئی بھی تحریک ہو، اس میں عورت کے بھرپور کردار کے باوجود اس کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ میں بھارت کے مشرقی پنجاب گئی تھی، وہاں آزادی کی تحریک کے عجائب گھر میں ایک عورت کردار گلاب کور کا فوٹو تک نہیں تھا۔ جب میں نے عجائب گھر والوں سے پوچھا تو بتایا گیا وہ گم ہو چکا ہے۔“ سیدہ دیپ میری اس بات سے متفق تھیں کہ برصغیر جنوبی ایشیا میں عورت کو سیاسی تحریکوں نے محض اپنی ’پوسٹر گرل‘ کے طور برتا ہے۔ ”حالانکہ سیاسی تحاریک میں پولیس کو مطلوب اپنے مرد ساتھیوں اور گھروالوں کو چھپانے سے لے کر کھانے پکانے تک کے کام عورت سیاسی کارکن سرانجام دیتی ہیں۔“
لیاری کی ماسی سکینہ سے لاہور کی شاہدہ جبین یا ٹنڈو اللہ یار کی صاحبزادی میرجت تک، ملک میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک کی یادیں دھندھلکے میں چاہے کہیں کھو گئی ہوں، لیکن وقت کا غیرجانبدار مورخ جب بھی ایم آر ڈی کی تاریخ لکھے گا تو اس میں خواتین کی قید و بند کی بپتا کے بغیر یہ تاریخ ادھوری ہوگی۔
بشکریہ: وائس آف امریکہ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)