امریکی قومی مرکز برائے ماحولیاتی پیش گوئی (یو ایس این سی ای پی) کے اعداد و شمار کے مطابق پیر کا دن عالمی سطح پر ریکارڈ کیا گیا اب تک کا گرم ترین دن تھا، جبکہ برطانیہ میں بلند ترین درجہ حرارت کے دس ریکارڈ سن 2003 میں قائم ہوئے ہیں
دنیا بھر میں گرم لہروں کی وجہ سے پیر کے روز اوسط عالمی درجہ حرارت 17.01 ڈگری سینٹی گریڈ یعنی 62.62 ڈگری فارن ہائٹ تک پہنچ گیا، جس نے اگست 2016 کے 62.46 ڈگری فارن ہائٹ کے ریکارڈ کو پیچھے چھوڑ دیا
جنوبی امریکہ حالیہ ہفتوں میں شدید گرمی کی لپیٹ میں رہا ہے۔ چین میں 35 ڈگری سینٹی گریڈ یعنی 95 ڈگری فارن ہائٹ درجہ حرارت کے ساتھ لو بھی چل رہی ہے۔ شمالی افریقہ میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ یعنی 122 ڈگری فارن ہائٹ کے قریب پہنچ گیا ہے، یہی صورتحال بیشتر ایشیائی ممالک بشمول پاکستان اور بھارت میں ہے
ادہر آب و ہوا کی تبدیلی کے نتیجے میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں اس سال گرمیوں کی شدت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور موسم کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ادارے نے پیر کے روز بتایا کہ برطانیہ میں 1884 میں قائم ہونے والا بلند ترین درجہ حرارت کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے
اس سال جو ن میں برطانیہ کا اوسط درجہ حرارت 15 اعشاریہ 8 ڈگری سینٹی گریڈ یعنی 60 اعشاریہ 4 ڈگری فارن ہائیٹ رہا جو اس سے پہلے 1940 اور 1976 کے ریکارڈ 14 عشاریہ 9 ڈگری سینٹی گریڈ سے اعشاریہ 9 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہے
موسمیات کے ادارے کا یہ بھی کہنا تھا کہ گرمی میں اضافے کی زیادہ تر وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں جو عالمی حدت میں مسلسل اضافہ کر رہی ہیں
موسمیات کے ماہرین کے مطابق آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث 1940 کے بعد سے گرمی کے ریکارڈ ٹوٹنے کے امکانات کم ازکم دو گنا بڑھ گئے ہیں
حتٰی کہ انٹارکٹکا میں، جہاں اس وقت موسم سرما ہے، بھی غیر معمولی طور پر زیادہ درجہ حرارت درج کیا جا رہا ہے۔ سفید براعظم کے نام سے مشہور انٹارکٹکا میں قائم یوکرین کے ورنادسکی ریسرچ سینٹر نے حال ہی میں درجہ حرارت 8.7 ڈگری سینٹی گریڈ یعنی 47.6 ڈگری فارن ہائٹ درج کیا، جو کہ وہاں سب سے زیادہ درجہ حرارت کا نیا ریکارڈ ہے
“یہ لوگوں کے لیے سزائے موت ہے“
امپیریل کالج لندن میں گرانتھم انسٹیٹیوٹ برائے تبدیلی موسمیات اور ماحولیات میں موسمیاتی امور کے ماہر فریڈرک اوٹو کا کہنا تھا ”یہ کوئی ایسا سنگ میل نہیں ہے جس پر ہمیں خوش ہونا چاہئے۔ یہ لوگوں اور ماحولیاتی نظام کے لیے سزائے موت ہے۔“
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ابھرتے ہوئے ال نینو پیٹرن کے ساتھ مل کر موسمیاتی تبدیلی اس صورت حال کے لیے ذمہ دار ہے
برکلے ارتھ سے وابستہ سائنس داں زیکے ہاس فادر کا کہنا تھا، ”بدقسمتی سے یہ اس سال پیش آنے والے ممکنہ نئے ریکارڈوں کے سلسلے کا پہلا ریکارڈ ہے۔ کیونکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور گرین ہاوس گیسوں کے بڑھتے ہوئے اخراج کے ساتھ ساتھ ال نینو کے بڑھتے ہوئے واقعات درجہ حرارت کو نئی بلندیوں پر لے جاتے ہیں۔“
برطانیہ میں موسمیات کے دفتر کے ایک ماہر پال ڈیوس کہتے ہیں کہ قدرتی تغیر و تبدل کے ساتھ ساتھ زمین کے ماحول میں انسانی سرگرمیوں کے باعث رونما ہونے والی آب و ہوا کی تبدیلی بھی اونچے درجہ حرارت کے ریکارڈ توڑنے کا سبب بن رہی ہے
وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ صورت حال برقرار رہنے کی صورت میں 2050 کے عشرے تک 14 اعشاریہ 9 ڈگری سینٹی گریڈ کے ریکارڈ ٹوٹنے کا امکان تقریباً ہر دوسرے سال ہوا کرے گا
شمالی اسکاٹ لینڈ کے علاقے آرکینی آئی لینڈز سے جنوب مغربی انگلینڈ کے کورنوال تک، ملک کے وسیع علاقے میں اس سال جون میں بلند درجہ حرارت کے علاقائی ریکارڈ قائم ہوئے ہیں اور بہت سے حصوں میں یہ درجہ حرارت معمول کے اوسط سے ڈھائی درجے سینٹی گریڈ تک زیادہ تھا
برطانیہ میں جون کے دوران زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 32 اعشاریہ 2 ڈگری سینٹی گریڈ، یعنی 90 ڈگری فارن ہائیٹ تک ریکارڈ کیا گیا جو کہ معمول کے اوسط سے کہیں زیادہ ہے
ماہی گیری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بلند درجہ حرارت اور گرم موسم کے نتیجے میں نہروں اور دریاؤں میں ہزاروں مچھلیاں ہلاک ہو گئیں
ماحولیات کے ماہرین نے بتایا ہے کہ گرم موسم فضائی آلودگی اور بادو باراں کے طوفانوں کا بھی سبب بنا
ماحولیات کے ادارے میں ماہی گیری شعبے کے مینیجر گریم اسٹوری کے مطابق ان کی ٹیمیں ملک بھر سے مچھلیوں کی ہلاکتوں سے متعلق موصول ہونے والی رپورٹس پر فوری کارروائی کر رہی ہیں
موسمیات کے ادارے کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سال 2022 برطانیہ کی تاریخ کا گرم ترین سال تھا جس میں سال بھر کا اوسط درجہ حرارت 10 اعشاریہ 03 ڈگری سینٹی گریڈ یا 50 ڈگری فارن ہائیٹ رہا، جو 1991 سے 2020 تک کے سال بھر کے اوسط درجہ حرارت سے اعشاریہ 89 ڈگری سینٹی گریڈ یا 1 اعشاریہ 6 ڈگری فارن ہائیٹ زیادہ تھا۔ فرانس اور جرمنی سمیت دوسرے یورپی ملکوں میں بھی موسم کی یہی کیفیت ریکارڈ کی گئی
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایک صدی قبل، جب سے موسم کے ریکارڈ رکھنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے، برطانیہ میں بلند ترین درجہ حرارت کے دس ریکارڈ سن 2003 کے بعد قائم ہوئے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گلوبل وارمنگ کس طرح برطانیہ اور یورپ کے موسموں کو متاثر کر رہی ہے۔