جب کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ میں کیا کام کاج کرتا ہوں تو سراسیمگی مجھے جکڑ لیتی ہے۔ میں سرخ لال ہو جاتا ہوں، ہکلاتا ہوں، حالانکہ میں ایک متوازن مزاج آدمی کے طور پر جانا جاتا ہوں۔ میں حسد کرتا ہوں ان لوگوں سے، جو یہ کہہ سکتے ہیں: ’میں معمار ہوں‘ مجھے حسد ہے حجاموں، کتاب فروشوں سے، لکھاریوں سے (جو انتہائی سادگی سے اپنے پیشے کے بارے میں) بتا سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ تمام پیشے اپنے منہ خود بولتے ہیں، انہیں طول طویل وضاحتوں کی ضرورت نہیں پڑتی، جب کہ مجھے ایسے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے اپنے اوپر جبر کرنا ہوتا ہے: ’
’میں ایک خندہ فروش ہوں۔‘
اس طرح کا اعتراف (ایک اور سوال کا) مطالبہ کرتا ہے اور پھر مجھے دوسرے سوال ’’کیا آپ اسی طرح روزگار کماتے ہیں؟‘‘ کا جواب حقیقتاً ’’ہاں!‘‘ میں دینا پڑتا ہے۔ در حقیقت میں اپنی گزر بسر قہقہہ بازی پر ہی کرتا ہوں، اچھی خاصی گزر بسر۔۔ کاروباری انداز میں بات کروں تو میرے قہقہے کی بڑی مانگ ہے۔ میں ایک اچھا قہقہہ باز ہوں۔ تجربہ کار ہوں۔ میرے جیسے قہقہے کوئی لگا ہی نہیں سکتا۔ میرے فن کی سی عمدہ مہارت کسی کے پاس نہیں ہے۔
ایک طویل عرصے تک، بیزار کُن تشریحات سے پہلو تہی کرنے کے لیے، میں اپنے آپ کو فنکار ہی کہتا تھا لیکن میرے جوہر نقالی اور سخن وری کے میدان میں اتنے حقیر تھے کہ میں نے محسوس کیا کہ فنکار کا یہ لقب سچائی سے کوسوں دور ہے۔ میں راست گوئی کا علم بردار ہوں اور سچ یہ ہے کہ میں ایک خندہ فروش ہوں۔ میں مسخرہ ہوں نہ بھانڈ۔۔ میں لوگوں کو مسرت نہیں دیتا، مسرت کی تصویر بناتا ہوں۔ میں قیصرِ روم کی طرح قہقہہ لگاتا ہوں یا اسکول جانے والے زود حِس بچے کی طرح۔۔ میں سترہویں صدی کے قہقہے میں اتنا ہی پر سکون ہوتا ہوں، جتنا انیسویں صدی کے اور ضرورت اٹھنے پر میں تمام دہائیوں کے قہقہے لگا سکتا ہوں۔ سماج کے تمام طبقات کے، عمر کے تمام مدارج کے۔۔ یہ ایک سادہ سی مہارت ہے جو میں نے پیدا کی ہے۔ جیسے کہ جوتا سینے کی مہارت۔ میرے سینے میں بستا ہے امریکہ کا قہقہہ، افریقہ کا قہقہہ، سفید، سرخ، زرد قہقہہ۔۔ اور بھاری معاوضے پر ہدایت کار کی ہدایات کے مطابق میں اسے سینے سے اچھال دیتا ہوں۔
میں ناگزیر بن چکا ہوں۔ میں ریکارڈز پر قہقہہ لگاتا ہوں، میں ٹیپ پر قہقہہ لگاتا ہوں اور ٹیلی ویژن کے ہدایات کار میرے ساتھ عزت سے پیش آتے ہیں۔ میں حزن و ملال سے، ملائمت سے، ہیجان آمیز انداز سے قہقہہ لگاتا ہوں۔ میں لوکل بس کے کنڈکٹر کی طرح ہنستا ہوں یا کریانے کی دکان کے مددگار کی طرح ہنستا ہوں۔ صبح کا قہقہہ، شام کا قہقہہ، شبینہ قہقہہ یا ڈھلتی شام کا قہقہہ۔۔ مختصراً جہاں کہیں، جس طرح کے بھی قہقہے کی ضرورت ہو، میں پیش کر دیتا ہوں۔
یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس طرح کا پیشہ تھکا دینے والا ہے۔ خاص طور پر جیسا کہ میں نے۔۔۔۔، یہ میرا خاصہ بھی ہے۔۔۔، اثر آفریں قہقہے پر بھی عبور حاصل کیا ہے، اس (اثر آفریں قہقہے) نے مجھے تیسرے یا چوتھے درجے کے مسخروں کے لیے بھی ناگزیر بنا دیا ہے جو ڈرتے ہیں اور ڈرنے کی وجہ بھی ہے کہ ان کے ناظرین ان کی نپی تلی جُگت کو سمجھ نہ پائیں گے چنانچہ میں زیادہ تر راتیں شبینہ کلبوں میں ایک طرح کے چوکس ہنسوڑے کے طور پر گزارتا ہوں اور میرا کام پروگرام کے کمزور حصوں میں پر تاثیر انداز میں قہقہہ لگانا ہوتا ہے۔ن لیکن یہ کام ہوشمندی سے وقت کے مطابق کرنا ہوتا ہے۔ میرا پُر جوش، پُر شور قہقہہ نہ وقتِ مقررہ سے پہلے اور نہ ہی بعد میں آنا چاہیے۔ اسے مخصوص مقام پر ہی آنا چاہیے۔ طے شدہ وقت پر میرا قہقہہ پھوٹتا ہے، تمام حاضرین میرے ساتھ ٹھٹھا مارتے ہیں اور جگت (ضائع ہونے سے) بچ جاتی ہے۔
جہاں تک میرا تعلق ہے، میں تھکا ماندہ خود کو گھسیٹتا ہوا اپنے آپ کو توشہ خانے تک لاتا ہوں۔ بالائی کوٹ پہنتا ہوں، خوش ہوتا ہوں کہ آخر کار کام سے جان چھوٹی۔ عموماً گھر پر مجھے تار منتظر ملتے ہیں۔ ’’تمہارے قہقہے کی فوری ضرورت ہے۔ریکارڈنگ منگل والے دِن۔‘‘ اور چند گھنٹوں کے بعد میں بے حد گرم ٹرین میں اپنی قسمت کو کوستا ہوا بیٹھا ہوتا ہوں۔
یہ کہنے کی مجھے قطعاً ضرورت نہیں ہے کہ جب میں کام پر نہیں ہوتا یا چھٹی پر ہوتا ہوں تو مجھے قہقہہ لگانے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ گوالا خوش ہوتا ہے جب وہ گائے کو بھول سکے، معمار خوش ہوتا ہے جب وہ گارے کو بھول جائے، بڑھئی کے گھر میں عموماً ایسے دروازے ہوتے ہیں جو ٹھیک کام نہیں کرتے اور ایسے دراز بھی ہوتے ہیں جو کھلتے نہیں۔ حلوائیوں کو کھٹا اچار پسند ہوتا ہے، قصائیوں کو مٹھائی، طباخ کو نان کی جگہ مصالحے دار گوشت پسند ہوتا ہے۔ سانڈ سے لڑنے والے مشغلے کی خاطر کبوتر پالتے ہیں۔ باکسر اپنے بچوں کی ناک سے خون بہتا دیکھ کر زرد پڑ جاتے ہیں۔ مجھے یہ سب فطری لگتا ہے اس لیے میں ڈیوٹی کے علاوہ قہقہہ نہیں لگاتا ہوں۔ میں ایک بہت سنجیدہ آدمی ہوں اور لوگ مجھے شاید بجا طور پر قنوطی سمجھتے ہیں۔
شادی کے شروع کے دنوں میں میر ی شریکِ حیات مجھے اکثر کہا کرتی تھی: ’’ہنس بھی لیا کرو۔‘‘ لیکن اب تک اس نے سمجھ لیا ہے کہ میں اس کی یہ خواہش پوری نہیں کر سکتا۔ جب میں اپنے چہرے کے تنے ہوئے عضلات کو، اپنی ہنگامہ خیز روح کو ایک عمیق سنجیدگی سے سکون دے سکوں، تب میں خوش ہوتا ہوں۔ حتیٰ کہ دوسرے لوگوں کے قہقہے بھی اعصاب پر سوار ہوجاتے ہیں کہ ان سے مجھے میرا پیشہ یاد آنے لگتا ہے۔ اس لیے ہماری شادی خاموش اور پُر امن ہے کیوں کہ میری شریکِ حیات بھی قہقہہ لگانا بھول چکی ہے۔ بس کبھی کبھی میں اسے مسکراتے ہوئے دیکھتا ہوں اور خود بھی مسکراتا ہوں۔ ہم دھیمی آواز میں باتیں کرتے ہیں کیوں کہ مجھے شبینہ کلبوں کے شور سے نفرت ہے، جو کئی دفعہ ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں بھی بہت ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو مجھے نہیں جانتے، یہ سمجھتے ہیں کہ میں کم گو ہوں۔ شاید میں ایسا ہی ہوں، کیوں کہ مجھے ہنسنے کے لیے اکثر اپنا منہ کھولنا پڑتا ہے۔
میں کبھی کبھی خود کو زیرِ لب مسکرانے کی اجازت دیتے ہوئے اپنی زندگی بے حِس انداز میں گزار رہا ہوں۔ مجھے اکثر تعجب ہوتا ہے کہ کیا میں کبھی ہنسا بھی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ نہیں۔۔ میں اپنے بہن بھائیوں میں ایک سنجیدہ شخص کے طور پر ہی جانا جاتا ہوں۔
تو یوں ہے کہ میں ان گنت طریقوں سے قہقہہ لگا لیتا ہوں، لیکن میرا اپنا قہقہہ میں نے کبھی نہیں سنا۔
English Title : The Laughter
Written by:
Heinrich Theodor Böll