مجھے اپنے دوست کی آواز سنائی دی؛ ”راستے میں بہت سی جگہوں کے پرانے لداخی طرز کے نام اب تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔ مثلاً ’پرکوٹا‘ اب ’مہدی آباد‘ ہے، ’گڈی کاسڈو‘ اب ’گڈی خاد‘ ہے اسی طرح ’وداشا‘ اب ’چٹانگ‘ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اولڈنگ بھی نیا نام ہے پرانا نام ’اول ٹھنگ تھانگ‘ olthingthang ہے۔ قدیم زمانے میں اس مقام پر بارٹر نظام کے تحت تجارت ہوتی تھی۔ بلتستان، لداخ، کارگل، گونکس اور لیہہ کے تاجر یہاں خوبانی اور میوہ جات کا تبادلہ کرتے اور تجارتی ٹیکس ادا کرکے اپنے اپنے وطن کو ہو لیتے تھے۔ کبھی اس جگہ کی ثقافت میں بھی کیلاش وادی کی ثقافت کی بڑی واضح جھلک نظر آتی تھی۔ یہاں آریائی قوم سے بھی پرانی نسل آباد تھی، جو سر پہ پھولوں سے بنائی گئی گول ٹوپی پہنتی تھی۔ (جیسی کیلاشی عورت آج بھی پہنتی ہے۔ ایسی ہی پھولوں کی بنی گول ٹوپیاں مری اور دیگر تفریح مقامات پر مقامی بچے سڑک کنارے بیچتے نظر آتے ہیں)۔ سترھویں صدی عیسوی میں جب بلتستان میں علی شیر خاں آنچن کی حکومت قائم ہوئی تو بلتی افراد کی اکثریت اسلام کی طرف راغب ہوئی اور اگلے چند برسوں میں یہ علاقہ اسلام کے نور سے منور ہو گیا۔“
ان پہاڑوں میں بہتے سندھو کی چوڑائی زیادہ نہیں۔ کسی کسی جگہ بس ہاتھ ملانے کی دوری ہے مگر انتہائی گہرائی میں بہتا پانی بہت شور مچاتا ہے
”سرحد کے اُس پار بدھ کے پجاری آباد ہیں تو اس پارحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والے۔۔ بھارتی گاؤں سیاحت کے مراکز ہیں تو پاکستانی گاؤں میں کوئی آتا ہی نہیں۔“
شام ڈھلنے کو ہے۔ سورج کی چمک اور حرارت دونوں ہی نرم پڑ گئے ہیں۔ شام کی ٹھنڈی ہوا خوش گوار ہے۔ فوجی بھائیوں کی چائے اور وطن کی خوشبو نے راستے کی تھکن اور بھارتیوں کی طرف سے دی گئی اعصابی و ذہنی اذیت بھلا دی ہے۔ میں اپنے دوست کو پاکستان میں داخل ہوتے اور 2 دریاؤں کا سنگم دیکھ آیا ہوں۔ ابھی کچھ دیر میں ایک اور سنگم میرا منتظر ہے۔ سندھو اور شیوک کا سنگم۔ سڑک اولڈنگ سے اس مقام تک کہیں سندھو کے متوازی اور کہیں بلندی سے گزرتی مگر انتہائی سنسان ہے۔ بقول ہمارے دوست اور نامور شاعر قمر رضا شہزاد؛
اتنی اداس بھی نہ کوئی ر ہ گزر ہو،
ہر پل مسافروں کا جسے انتظار ہو۔۔
غمدس پیچھے رہ گیا ہے۔ اگلی منزل کھرمنگ یہاں سے پندرہ (15) کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔ سندھو بھی سڑک کے ساتھ ساتھ بہہ رہا ہے۔ اس کا شور ہی اس کے بہنے کی شہادت ہے ورنہ وہ دکھائی کم کم ہی دیتا ہے وجہ گہرائی ہے سلیمانی ٹوپی نہیں۔
لیجیے جناب؛ ہم کھرمنگ پہنچے ہیں۔ ’کھر‘ اور ’منگ‘ بلتی زبان کے دو الفاظ ہیں، کھر مطلب قلعہ اور منگ مطلب زیادہ یعنی زیادہ قلعوں کی زمین۔ کبھی یہاں راجاؤں کے بہت قلعے تھے۔ مہدی آباد اور کھرمنگ اب جڑواں بستیاں ہیں۔ کھرمنگ کو کچھ عرصہ پہلے ہی ضلع کا درجہ ملا ہے، جس کا ضلعی صدر مقام مہدی آباد سندھو کے بائیں کنارے آباد ہے۔
یہاں آنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اس خطے کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں، جن کی روح ویرانوں میں سکون پاتی ہو۔ شور شرابے سے انہیں کوفت اور سکون سے محبت ہو۔ ان راستوں میں تین باتیں نمایاں ہیں، کشش، ہیبت اور بے یقینی۔ ان راہوں کے راہی ان گزرگاہوں کے سحر سے انکار نہیں کر سکتے۔ یہ آف روڈ راستے مجھ جیسے آوارہ گردوں کے پسندیدہ ہیں کہ ان کی کشش، خوف اور سنسنی مل کر سفر کرنے والوں کومحو حیرت رکھتے ہیں۔
”وہ دیکھو“ سندھو کہنے لگا؛ ”تمہارے سامنے ’چھومندو‘ پولیس چیک پوسٹ اور ساتھ میں مجھ پر تعمیر کیا گیا نیا پل ہے۔ چھومندو جنکشن کی حیثیت رکھتا ہے، یہاں سے ایک راستہ ہمالیہ کے پہاڑوں اور دریائے شیوک کے ساتھ ساتھ ’کریس وادی‘ سے ہوتا خپلو جاتا ہے، قدیم خپلو ریاست بھی اپنی قدرتی خوبصورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ہے۔ جبکہ دوسرا قراقرم اور میرے ساتھ ساتھ اولڈنگ کو جدھر سے تم آئے ہو جاتا ہے۔ بلتی زبان کے لفظ چھومندر کا مطلب ’دو دریاؤں کا ملن‘ اور یہ ملن ہے دریائے شیوک کا اور میرا۔“
کریس بھی کبھی ریاست تھی۔ شیوک کنارے شاندار وادی۔ سرسبز، پھولوں اور پھل دار درختوں سے لدی۔۔
اگر آپ کا منہ مغرب کی سمت ہے تو شیوک دائیں ہاتھ اور سندھو بائیں ہاتھ سے بہتے آتے ہیں۔ شیوک پاکستان میں جنم لے کر سیاچن سے ہوتا بھارت کی جانب بہتا ہے اور پھر دوبارہ پاکستان میں داخل ہو کر چھومندو کے مقام پر سندھو میں مل جاتا ہے۔ پانی کے بہاؤ کے اعتبار سے شیوک بڑا دریا ہے۔ شیوک کے سندھو میں گرنے کے بعد سندھو میں پانی کی مقدار اور بہاؤ دونوں میں نمایاں اضافہ ہو تا ہے۔ یوں سمجھو سندھو جوان ہو گیا ہے۔پاکستان میں داخل ہونے کے بعد یہاں تک کے سفر میں یہ سندھو کا سب سے بڑا معاون دریا ہے۔
ہم چھو مندو سے سکردو کی جانب مڑ گئے ہیں۔ عمدہ سڑک فلک بوس پہاڑوں کے دامن سے گزرتی ہے۔ سندھو اور دونوں جانب کے پہاڑ سڑک سے دور ہٹ گئے ہیں۔ سڑک اور سندھو کے درمیان ریت کا میدان ہے۔ سفید ریت کا میدان۔ یہ ’تھور گو بالا‘ کی آمد ہے، کھرمنگ سکردو شاہراہ پر ایک بڑی اور سرسبز بستی۔
مجھے داستان گو کی آواز سنائی دی، ”تمہاری نظر سے گزرنے والی سفید رنگ کی یادگار ’تھورگو معرکہ‘ کے شہداء کی ہے۔ یہ معرکہ سکھ فوج اور مقامی مجاہدین (جن کی تعداد 100 تھی) کے درمیان 1948ء میں لڑا گیا تھا، جس میں مجاہدین کو فتح ہوئی اور یہ علاقہ سکھ تسلط سے آزاد ہو گیا۔ تھورگو کی بڑی اور شاداب بستی سڑک کے دونوں جانب آباد ہے۔
”میرے گرد سفید ریت کا جو صحرا دکھائی دے رہا ہے۔ دراصل ’سفرنگا‘ یا سفید ریت کا صحرا ہے۔ سکردو کا مشہور ’سفرنگا ڈیزرٹ۔ سکردو کا ٹھنڈا صحرا‘ قدرت کا انمول شہکار۔۔ سنگلاخ برف پوش پہاڑ، درمیان میں سے گزرتا میں اور میرے گرد گھیرا ڈالے سفید ریت کا یہ صحرا۔۔ سبحان اللہ۔“
تھورگو گاؤں سے ذرا پہلے شروع ہونے والا یہ صحرا سندھو پر بنے جدید ’کچورا پل‘ تک پھیلا ہے
میری نظر کے کینوس میں سفیدے، زیتون، میوہ جات اور پھلوں کے باغات نمودار ہو رہے ہیں۔یہ ’تھورگو‘ بستی ہے۔ سکردو یہاں سے تقریباً سات (7)کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ اسی بستی میں درختوں کے جھنڈ سے دائیں ہاتھ راستہ سندھو پر بنے جدید اقبال شہید سسپنشن پل سے گزرتا یہاں سے تقریباً پندرہ (15) کلو میٹر دور جنوب میں واقع ماضی کی خوبصورت ریاست اور آج کے ضلع ’شگر‘ جاتا ہے۔ سفرنگا یا سفید ریت کا صحرا شگر جانے والے راستے پر پہاڑوں کے دامن میں دور دور تک پھیلا شاندار نظارہ پیش کرتا ہے، جبکہ اس صحرا کے درمیان سے بہتے سندھو کا نظارہ نہایت دلفریب ہے۔ 2017ء سے ہر سال جولائی / اگست میں یہاں جیپ ریلی منعقد کی جارہی ہے۔ پچاس (50) کلو میٹر لمبی اس ریس میں پاکستان بھر سے جیپ ڈرائیور شرکت کرتے ہیں۔ اسی جیپ ریلی نے اس صحرا کو پاکستان بھر میں متعارف کروایا ہے
”شگر وادی اپنے قدرتی حسن، جھرنوں اور ندی نالوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ شگر کا ’فونک کھر‘ یعنی ’چٹان محل‘ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ کبھی یہ محل شگر کے راجہ کی رہائش گاہ تھی۔ دو دہائیاں قبل اسے پرنس کریم آغا خاں فاؤنڈیشن نے راجہ سے خرید کر ہوٹل میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ رہنے اور ماحول سے لطف اٹھانے کی شاندار جگہ ہے۔ قراقرم کی برف پوش چوٹیوں اور بکھری چٹانوں، بید مجنوں اور پاپولر کے جنگل میں گھری شگر وادی دھوپ میں دلفریب منظر پیش کرتی ہے جبکہ موسم بہار میں مکئی، جو اور گندم کی فصلوں سے لدے کھیت شاندار نظارہ دیتے ہیں۔ شیریں خوبانی، عمدہ خربوزہ اور اعلیٰ قسم کا سیب یہاں کی سوغات ہیں۔ سب سے بڑھ کر دنیا کا بہترین شہد بھی یہیں پیدا ہوتا ہے۔ اس وادی سے بہنے والا ’دریائے شگر‘ بھی میرا ذیلی دریا ہے، جو اقبال شہید پل سے پانچ (5) کلو میٹر ڈاؤن اسٹریم مجھ میں گر کر مجھے اور جوان کر دیتا ہے۔ شیوک کی نسبت یہ چھوٹا اور کم تند خو دریا ہے۔ شگر وادی اپنے شاندار نظاروں اور برف سے ڈھکی چوٹیوں کے دامن میں آباد، آنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔“
مجھے داستان گو کی باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں، مجھے تو بس سکردو پہنچنے کی جلدی ہے کہ میرے نین اپنی نین کو دیکھنے کے انتظار میں بے چین ہوئے جا رہے ہیں۔ جو آج دوپہر ہی پی آئی اے کی فلائیٹ سے سکردو پہنچی ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.