غیر معمولی یادداشت والا شخص (سوئس ادب سے منتخب افسانہ)

پیٹر بخسل (مترجم: منیر الدین احمد)

میں ایک شخص کو جانتا تھا، جسے سارا ٹائم ٹیبل زبانی یاد تھا۔ کیونکہ واحد شے جو اس کی خوشی کا سبب تھی، وہ ریل گاڑی تھی۔ وہ اپنا وقت ریلوے اسٹیشن پر گاڑیوں کو آتے اور جاتے ہوئے دیکھنے میں گزارا کرتا تھا۔ وہ حیرت بھری نظروں سے ڈبوں، انجنوں کی طاقت اور پہیوں کے سائز کو اور چلتی گاڑی پر چھلانگ لگا کر سوار ہونے والے گارڈوں اور اسٹیشن ماسٹر کو دیکھا کرتا تھا۔

وہ ہر گاڑی کو جانتا تھا اور اس امر کو، کہ وہ کہاں سے آئی ہے اور کہاں گئی ہے اور کب کس جگہ پہنچے گی اور کب وہاں سے دوسری گاڑیاں چلیں گی اور کب اپنی منزل پر پہنچیں گی

اسے گاڑیوں کے نمبر معلوم تھے اور یہ بات کہ وہ کن دنوں میں چلتی ہیں اور کیا ان میں ڈائننگ کار ہوتی ہے اور کیا (جنکشنوں پر وہ دوسری گاڑیوں سے اترنے والی) سواریوں کا انتظار کرتی ہیں یا نہیں۔ اسے پتہ تھا کہ کن گاڑیوں میں ڈاک ڈبہ ہوتا ہے اور گاڑی کے ٹکٹ کی قیمت کس جگہ کے لیے کتنی ہے؟

وہ کسی شراب خانے اور سینیما نہیں جاتا تھا اور نہ ہی سیر کرتا تھا۔ اس کے پاس بائیسکل تھی نہ ریڈیو یا ٹیلی وژن۔ وہ اخباریں پڑھتا تھا نہ کتابیں۔۔ اور اگر بالفرض اسے خط آ جاتے تو یہ امر یقینی ہے کہ وہ انہیں بھی نہ پڑھتا۔ اس کام کے لیے اس کے پاس وقت نہیں تھا، کیونکہ وہ سارا دن ریلوے اسٹیشن پر گزارتا تھا اور صرف ان دنوں میں جب ٹائم ٹیبل بدلتا تھا، مئی اور اکتوبر میں، تو وہ چند دنوں کے لیے نظر نہ آتا تھا۔

تب وہ اپنے گھر میں میز پر بیٹھا ہوا زبانی یاد کر رہا ہوتا تھا۔ وہ نئے ٹائم ٹیبل کو پہلے صفحے سے آخری صفحے تک پڑھتا اور تمام تبدیلیوں کو ازبر کر لیتا تھا اور ان تبدیلیوں پر خوشی سے پھولے نہ سماتا تھا۔

یوں بھی ہوا کہ کسی نے اس سے گاڑی کے چھوٹنے کا وقت پوچھ لیا۔ اس پر اس کا چہرہ کِھل جاتا تھا اور وہ یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ سفر کی منزل کیا ہے اور جو کوئی اس سے پوچھ لیتا تھا، وہ یقیناً اپنی گاڑی کھو بیٹھتا تھا کیونکہ وہ سوال کرنے والے کی جان خلاصی نہیں کرتا تھا۔ یہ بات اسے مطمئن نہیں کر سکتی تھی کہ وہ صرف گاڑی چلنے کا وقت بتائے۔ وہ ساتھ کے ساتھ گاڑی کا نمبر، ڈبوں کی تعداد، دوسری گاڑیوں کے ساتھ اس کا میل اور ان گاڑیوں کے چھوٹنے کے اوقات بھی بتاتا تھا۔ یہ امر بھی کہ انسان اس گاڑی سے پیرس کا سفر کر سکتا تھا، جہاں پر گاڑی بدلنی ہوگی اور یہ کہ گاڑی وہاں پر کس وقت پہنچے گی۔ یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آتی تھی کہ لوگوں کو ان معلومات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اگر کوئی اسے کھڑا چھوڑ کر آگے چل دیتا تھا، پیشتر اس کے کہ وہ اپنا سارا علم بے نقاب کر چکا ہو، تو وہ اس بات پر سخت برہم ہو جاتا تھا۔ وہ انہیں سخت سست کہتا اور اونچی آواز سے پکارتا تھا، ’’آپ ریل گاڑیوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں!‘‘

مگر وہ خود کبھی کسی گاڑی میں سوار نہ ہوتا تھا۔۔ یہ بات یوں بھی بے مقصد ہے، اس کا کہنا ہے، کیونکہ اسے پہلے سے علم ہے کہ گاڑی کب منزل مقصود پر پہنچے سگی؟

’’گاڑیوں میں صرف ایسے لوگ سفر کرتے ہیں، جن کا حافظہ کمزور ہوتا ہے‘‘ وہ کہتا تھا، ’’کیونکہ اگر ان کی یادداشت اچھی ہوتی تو وہ میری طرح گاڑیوں کے چھوٹنے اور پہنچنے کے اوقات ازبر کر لیتے اور انہیں ان اوقات کو معلوم کرنے کے لیے سفر کرنے کی حاجت پیش نہ آتی‘‘

میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ باز لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو سفر کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ وہ چاؤ سے ریل گاڑی کا سفر کرتے ہیں اور کھڑکی میں سے باہر جھانکتے اور جن جگہوں سے گزرتے ہیں، انہیں دیکھتے ہیں۔

اس پر وہ طیش میں آ گیا، کیونکہ اسے خیال پیدا ہوا کہ میں اس کا مذاق اڑاناچاہتا تھا۔ اس نے کہا، ’’یہ بات بھی ٹائم ٹیبل میں درج ہے کہ آپ لوتھر باخ، ڈائینگٹن، وانگن، نیڈر بپ، اوبر بخسٹن، ایگر گنگن اور ہیگنڈروف سے گزریں گے‘‘

’’ممکن ہے کہ لوگ گاڑی کا سفر اس وجہ سے کرتے ہیں کہ انہیں کہیں پر جانا ہوتا ہے‘‘ میں نے کہا

’’یہ بات بھی درست نہیں‘‘ اس نے کہا، ’’کیونکہ تقریباً سبھی لوگ کبھی نہ کبھی واپس لوٹ آتے ہیں۔ بعض تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر صبح گاڑی میں سوار ہوتے ہیں اور شام کو واپس لوٹ آتے ہیں۔۔۔ ان کی یادداشت اس قدر ناقص ہے۔‘‘

اس نے اسٹیشن پر لوگوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ وہ انہیں پکار پکار کے کہتا، ’’الو کے پٹھو! تمہاری یادداشت ہے ہی نہیں۔۔“ وہ انہیں آواز دیتا، ’’ہیگنڈورف سے گزرو گے۔‘‘

وہ پکار کر کہتا، ’’بے وقوفو، تم نے کل بھی سفر کیا تھا‘‘ اور جب لوگ یہ سن کر ہنسنے لگے تو وہ انہیں پائیدانوں سے کھینچ کھینچ کر نیچے اتارنے کی کوشش کرنے لگا اور انہیں دہائی دینے لگا کہ گاڑی کا سفر نہ کریں
’’میں تمہیں سب کچھ بتا سکتا ہوں‘‘ اس نہ چیخ کر کہا، ’’ تم دو بج کر ستائیس منٹ پر ہیگنڈروف سے گزرو گے۔ مجھے اس بات کا یقینی علم ہے۔ تم دیکھ لو گے کہ تم اپنے پیسے فضول خرچ کر رہے ہو۔ ٹائم ٹیبل میں سب کچھ درج ہے‘‘

وہ لوگوں کو پیٹنے کی کوشش کرنے لگا، ”جو کوئی میری نصیحت پر عمل نہیں کرتا، اسے اس کا مزہ چکھنا ہو گا‘‘۔ اس نے چلا کر کہا

اسٹیشن ماسٹر کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا کہ اسے کہے کہ اگر اس نے شریفانہ طرزِ عمل نہ اپنایا تو وہ اس کا داخلہ اسٹیشن پر بند کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس پر وہ شخص گھبرا گیا ،کیونکہ وہ اسٹیشن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کے بعد اس نے کوئی لفظ تک نہ کہا۔ وہ سارا دن ایک بینچ پر بیٹھا رہتا، گاڑیوں کو آتے اور ان کو روانہ ہوتے دیکھتا اور صرف کبھی کبھار چند ہندسے دھیرے سے بڑبڑاتا تھا۔ وہ لوگوں کی طرف دیکھتا تھا اور ان کے طرزِ عمل کو سمجھنے سے قاصر تھا۔

کہانی دراصل یہاں پر ختم ہو جانی چاہیے۔۔۔
مگر سالہا سال کے بعد اسٹیشن پر ایک دفترِ معلومات کھولا گیا، جس میں ایک کلرک یونیفارم پہنے ایک کھڑکی کے پیچھے بیٹھا ہوتا تھا۔ وہ گاڑیوں کے بارے میں تمام سوالات کا جواب دے سکتا تھا۔ اس بات پر اس یادداشت والے شخص کو یقین نہیں آتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ ہر روز دفترِ معلومات میں جاتا اور کلرک کا امتحان لینے کے لیے کوئی پیچیدہ سی بات پوچھتا تھا۔

اس نے پوچھا، ’’اس گاڑی کا نمبر کیا ہے، جو چار بج کر چوبیس منٹ بعد از دوپہر اتوار کے روز گرمیوں کے مہینوں میں لیوبک پہنچتی ہے؟‘‘

کلرک نے ایک کتاب کھولی اور مطلوبہ نمبر بتا دیا۔

اس نے پوچھا، ’’میں موسکو کب پہنچوں گا، اگر میں یہاں سے نو بج کر انچاس منٹ کی گاڑی لوں؟‘‘ اور کلرک نے اسے بتا دیا۔

تب وہ یادداشت والا شخص گھر گیا۔ اس نے تمام ٹائم ٹیبلوں کو جلا ڈالا اور ہر بات کو بھلا دیا، جسے وہ جانتا تھا۔

دوسرے روز اس نے کلرک سے پوچھا، ’’اسٹیشن کے باہر والی سیڑھیوں کے زینے کتنے ہیں؟‘‘

اور کلرک نے جواب دیا، ’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘

اب وہ شخص اسٹیشن کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھاگتا اور خوشی کے مارے چھلانگیں لگاتا اور پکارتا گیا، ’’اسے معلوم نہیں، اسے معلوم نہیں۔۔‘‘

وہ گیا اور اس نے اسٹیشن کی سیڑھی کے زینے گنے اور ان کی تعداد کو اپنی یادداشت میں محفوظ کر لیا، جس میں اب گاڑیوں کی روانگی کے اوقات موجود نہ تھے۔

اس کے بعد کسی نے اسے ریلوے اسٹیشن پر نہیں دیکھا۔

اب وہ شہر میں باری باری ہر گھر گیا اور اس کے زینوں کو گنا اور ان کی تعداد کو محفوظ کر لیا۔ اب اسے ایسے ہندسوں کا علم تھا، جو دنیا کی کسی کتاب میں درج نہیں تھے۔

جب اس نے سارے شہر کے زینوں کی تعداد کو جان لیا تو وہ ریلوے اسٹیشن پر آیا اور ٹکٹ گھر کی کھڑکی پر گیا۔ اس نے ایک ٹکٹ خریدا اور اپنی زندگی میں پہلی بار ایک دوسرے شہر جانے کے لیے ایک گاڑی میں سوار ہوا، وہاں پر زینوں کی تعداد کو گننے کی خاطر۔۔ اور اس کے بعد آگے سفر کرنے اور دنیا بھر کے زینوں کو گننے اور ایک ایسی چیز کو جاننے کے لیے، جس کا علم کسی دوسرے شخص کو نہیں اور جسے کوئی کلرک کسی کتاب میں معلوم نہیں کر سکتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close