تاریخ کی کتابوں میں قدیم زرعی معاشروں کے کچھ حصوں میں تالا بندی کا ذکر ملتا ہے ـ ماہرین نے تالا بندی کے پیچھے کار فرما سیاسی، سماجی اور معاشی عوامل کا بھی عمیق جائزہ لیا ہے ـ یہ رواج البتہ تمام قدیم زرعی معاشروں میں نہ تھا، جیسے قبل از اسلام تمام عرب بیٹیوں کو زندہ دفن نہیں کرتے تھے ـ تاریخ کو فکشن بنانے والوں نے بعد میں زیبِ داستاں کے لئے چند ایک قبائل/خِطوں کی رسوم کو سنسنی خیز انداز میں پوری دنیا کا مسئلہ بنا دیا ـ
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی بھی چٹخارے دار اور سنسنی خیز کہانیاں گھڑنے میں ماہر ہیں ـ ڈاکٹر صاحبہ نے پہلے ایک فسانہ تراشا، جب ان کے فسانے پر اعتراض ہوا تو فوراً چند پراسرار فیمیل آئی ڈیز نے عینی شاہدہ ہونے کا اعلان کر دیا ـ بعض کاسمیٹکس فیمنسٹ فوراً لپکے اور انہوں نے حق و سچ کے مینار پر چڑھ کر ڈاکٹر کو مزاحمتی فیمنسٹ کا خطاب عطا کر دیاـ حیرت انگیز طور پر بعض معقول افراد بھی اس ڈر سے ہاں میں ہاں ملاتے پائے گئے کہ مبادا ہمیں عورت دشمن نہ قرار دے دیا جائےـ باقی منطق گئی تیل لینےـ
دلیل دی گئی محترمہ ڈاکٹر ہیں، پھر ان کی تائید میں دیگر ڈاکٹرز بھی آ چکی ہیں لامحالہ بات میں دم ہےـ اول کسی شعبے سے متعلق ہونا درست ہونے کی دلیل ہی نہیں ہے ـ تاریخ اپنے شعبے میں مہارت کی سند رکھنے والے متعدد افراد کی رائے کو غلط ثابت کر چکی ہے ـ اسی طرح کسی احمقانہ دعویٰ کی تائید دو کریں یا دو ہزار، وہ احمقانہ ہی رہے گا ـ مثلاً ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں بعض بلوچ خواتین جھاڑو پر سوار ہوکر مسقط جاتی ہیں ـ ان خواتین کو بلوچی میں ’جاتیگ‘ کہا جاتا ہے، مشہور ہے یہ بچوں کا دل نکال کر کھا جاتی ہیں ـ آپ کو درجنوں ایسے بلوچ ملیں گے جنہوں نے نہ صرف ان خواتین کو اڑتے دیکھا ہے بلکہ دل بھی ان کے سامنے کھایا ہے ـ تو کیا آپ تسلیم کریں گے؟ ـ جن، بھوت اور چڑیلوں کو دیکھنے والے بھی درجنوں موجود ہیں، تو؟ ـ ایسے سائنس دان بھی گزرے ہیں جنہوں نے اڑن کھٹولہ دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے ـ
ڈاکٹر صاحبہ نے تالا بندی کی رسم کو قبائلی علاقوں، سندھ، ملتان اور ژوب سے متعلق قرار دیا ہے ـ یہ پاکستان کے جغرافیے کا کم از کم بھی پچاس فیصد بنتا ہے ـ یعنی بقول کاظمی صاحبہ و ان کے ہم نوا پاکستان کے پچاس فیصد علاقے میں تالا بندی کا رواج موجود ہے ـ یقیناً یہ رواج گزشتہ چند سالوں میں تو ایجاد نہ ہوا ہوگا، دہائیوں سے یہ رسم چلی آرہی ہوگی ـ پھر کیا وجہ ہے جہاں کاروکاری، ونی، وٹہ سٹہ، ریپ، قرآن سے شادی، جبری مذہب تبدیلی وغیرہ وغیرہ کے خلاف ٹنوں کے حساب سے مواد ملتا ہے جب کہ اس رسم پر چہار جانب خاموشی ہے ـ کیا اس رسم پر بلوچ، پشتون، سندھی و سرائیکی اقوام کا خاموش اتفاق ہے؟
اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح قابلِ تشویش ہے ـ زچگی کے دوران سب سے زیادہ اموات دیہی علاقوں میں ریکارڈ کی گئی ہیں ـ ماہرین کے مطابق دیہی علاقوں میں زچگی کی سہولیات نہ ہونے کے باعث عورتیں نا تجربہ کار دائیوں کے ذریعے ماں بنتی ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہو جاتی ہے ـ بلند ترین شرح بلوچستان اور سابق فاٹا میں ہے ـ ایک ایٹمی ریاست ماں بننے کی سہولت تک دینے سے معذور ہے جو بلاشبہ ناقابلِ معافی جرم ہے ـ ان بدنصیب خواتین کو ان کا حق دلانے اور ریاست کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے تالا بندی کے فسانے تراشے جا رہے ہیں ـ چٹخارے لے لے کر ان بدقسمت ماؤں کی اندام نہانی سے جنسی تلذذ حاصل وصول کیا جا رہا ہے ـ جن حرماں نصیب عورتوں کو تجربہ کار دائی نہیں ملتی، انہیں کاسمیٹکس و سوشل میڈیا اسٹار گائناکالوجسٹ مل گئی ـ ہے نا دلچسپ ـ
ان نام نہاد فیمنسٹ ڈاکٹرز کی ’رحم دلی‘ بھی سوالیہ ہے ـ انہوں نے لہولہان تالا دیکھا، تالے کے نتیجے میں عورت کی تکلیف دیکھی مگر متعلقہ حکام کو اس سنگین جرم کی اطلاع دینا ضروری نہ سمجھا ـ جواز تراشا جارہا ہے یہ ڈاکٹر کی اخلاقیات کے خلاف ہے، اسے ہر صورت رازداری کو برقرار رکھنا ہے ـ یہ کیسی رازداری ہے جو سوشل میڈیا پر چٹخارے دار خبر کی صورت پھیلی ہوئی ہے مگر متعلقہ حکام کو بتانے سے حرف آتا ہے ـ مذکورہ ڈاکٹروں نے ڈاکٹر کاظمی کو بتانا ضروری سمجھا تاکہ وہ سوشل میڈیا پر لائک بٹور سکیں مگر اس ’ظلم‘ کو درج کرکے ’ظالم‘ کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی کوئی کوشش نہیں کی ـ
اس میں دو رائے نہیں ہیں محنت کش عورت جبر تلے دبی ہوئی ہے ـ وہ صنفی، طبقاتی اور نوآبادیاتی جبر کی چکی میں پس رہی ہے ـ یہ جبر مگر عورت بمقابلہ مرد نہیں ہے، جیسا کہ ’پاکستانی فیمن اسٹ‘ تاثر دیتے ہیں ـ یہ عورت بمقابلہ سماج ہے ـ سماجی نظام کو بدلے بغیر عورت پر جاری جبر کا خاتمہ ممکن ہی نہیں ہے ـ سماجی نظام کے خلاف یہ جنگ عورت کو اپنے ہم خیال مرد سے مل کر لڑنی ہے نہ کہ مرد کے خلاف لڑ کر اپنی توانائی ضائع کرنی ہے ـ
عموماً دیکھا گیا ہے ’پاکستانی ملحد‘ ردعمل کا شکار جاہل ہوتا ہے ـ وہ اٹھتے بیٹھتے اسلام و اس کے عقائد کے خلاف ہرزہ سرائی کر کے اپنی دانست میں سچے ملحد ہونے کا اثبات کرتا ہے ـ یہ الحاد نہیں ’اسلام بیزاری‘ ہے ـ ایسے ملحدین نے الحاد کو بھی مذہب بنا دیا ہے ـ اسی طرح ’پاکستانی فیمنسٹ‘ بھی جہالت کی اندھی کھائی میں گری نظر آتی ہے ـ وہ اپنی مرد بے زاری اور فرسٹریشن کو فیمن ازم کا نام دے کر مرد، مرد چِلّاتی رہتی ہے ـ وہ عورت کے سوال کو محدود اور تنگ کرکے درحقیقت عورت دشمنی کا مرتکب ہوتی ہے ـ وہ سماج اور اس کے جملہ اقتصادی معاملات پر غور و فکر کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتی عمل دور کی بات ہے ـ
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی اور ان کے ہم نوا بھی ’پاکستانی فیمنسٹ‘ ہیں ـ کھوکھلے اور جعلی ـ یہ اپنی مرد بے زاری کو عورت دوستی کے جھوٹے لبادے میں چھپا کر محنت کش عورت کے سوال کو مسخ کرتی ہیں ـ یہ سوشل میڈیا کے نشئی ہیں، جن کا مقصد بقول وصی بابا صرف چند لائیکس، شیئر اور کمنٹس کا حصول ہے ـ انہوں نے شاید ہی محنت کش عورت کے مصائب کو قریب سے دیکھا ہو ـ
نام نہاد لبرل جریدہ ’ہم سب‘ تو گٹر بن چکا ہے ـ ان کا دعویٰ ہے وہ ہر تحریر کو کراس چیک کرتے ہیں مگر دراصل وہ اس تحریر کو کبھی کراس چیک نہیں کرتے، جو ریٹنگ بڑھائے ـ چاہے اس کا نتیجہ نواز و بھومیکا کی حالیہ ہندی فلم ’افواہ‘ جیسا ہی کیوں نہ نکلے ـ وہ تو ماضی میں کاسترو کا سیکڑوں عورتوں سے سیکس تک کروا چکے ہیں ـ میڈم نورجہاں کا ازاربند ہو یا چے گویرا کی انقلابی شخصیت، ان کے شر سے کوئی نہیں بچاـ
ایسے جعلی لبرل و فیمنسٹوں سے پناہ مانگنا چاہیے ـ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)