چاند کی خوبصورتی پر بہت شاعری کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں کسی کی خوبصورتی کی تعریف کرنی ہو تو اکثر اسے ’چاند کا ٹکڑا‘ کہا جاتا ہے۔۔ لیکن اگر آپ کو واقعی چاند کا ٹکڑا دیکھنا ہے تو آپ کراچی میوزیم میں اسے دیکھ سکتے ہیں، جس کے بعد امید ہے کہ آپ کسی کے حسن کی تعریف ’چاند کا ٹکڑا‘ جیسے الفاظ کے ساتھ نہیں کریں گے
کیوں کہ جس چاند کو ہم زمین سے دیکھتے ہیں وہ سفید اور چمکدار نظر آتا ہے، لیکن میوزیم میں رکھا چاند کا ٹکڑا کالے رنگ کا ہے۔ دراصل سورج کی روشنی کے باعث چاند چمکتا ہے اور سفید رنگ کا نظر آتا ہے، مگر چاند پر آکسیجن نہیں ہے اور چاند کی زمین سیاہ رنگ کی ہے
کراچی میں واقع نیشنل میوزیم آف پاکستان میں ’موہن جو دڑو‘ سمیت مختلف قدیم تہذیبوں سے ملنے والے نوادرات کے ساتھ ساتھ چاند کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی رکھا ہوا ہے، جو 1972 میں امریکی خلاباز چاند سے لائے تھے اور بعد میں پاکستان کو تحفے کے طور پر دیا گیا
چاند کا یہ ٹکڑا ایک فٹ لمبے لکڑی کی تختی پر کرکٹ کی گیند سے تھوڑے چھوٹے ایکریلک کے ایک ٹرانسپیرنٹ گولے کے اندر رکھا گیا ہے۔ تختی پر چاند کے ٹکڑے کے ساتھ پاکستان کا قومی پرچم اور کاغذ پر چند تفصیلات درج ہیں
نیشنل میوزیم آف پاکستان کے کیوریٹر محمد یعقوب خان کنور کا کہنا ہے ”70 کی دہائی میں امریکہ نے مختلف مشن چاند پر بھیجے، جو وہاں تحقیقات کے بعد بڑی تعداد میں چاند کے پتھر بھی اپنے ساتھ لاتے تھے۔ دسمبر 1972 میں جب امریکی خلاباز یوجین سرنن اور ہیریسن شمٹ اپولو 17 مشن کے ذریعے چاند پر گئے تو وہ اپنے ساتھ کچھ پتھر لائے تھے۔“
”ان پتھروں میں چاند کے تمام مقامات کے پتھر شامل تھے۔ اپولو 17 مشن کے امریکی خلاباز اپنے ساتھ 135 ممالک کے قومی پرچم بھی لے گئے تھے، جن میں پاکستان کا پرچم بھی شامل تھا“
”جب چاند سے یہ پتھر آئے تو اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن نے فیصلہ کیا کہ ان پتھروں کو نہ صرف امریکہ کی پچاس ریاستوں بلکہ ان تمام 135 ممالک کو بھیجا جائے، جن کے قومی پرچم مشن پر لے جائے گئے تھے“
محمد یعقوب خان نے مزید بتایا ”امریکہ نے یہ چاند کا ٹکڑا اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو دیا تھا۔ اس کے بعد جب قومی نوادرات کو مختلف اداروں کے حوالے کیا گیا تو اس ٹکڑے کو نیشنل میوزیم کو دے دیا گیا، تب سے یہ نیشنل میوزیم آف پاکستان، کراچی میں رکھا ہوا ہے“
یوں 1973 میں اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن کی طرف سے پیش کیا گیا پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو چاند کا ٹکڑا اور چاند پر لہرایا گیا قومی پرچم اب کراچی میں واقع نیشنل میوزیم آف پاکستان کی زینب بنا ہوا ہے
یاد رہے کہ اپالو مشن کے خلابازوں کی ٹیم جولائی 1973 میں پاکستان بھی آئی تھی اور عوام نے ٹیم کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا تھا
اپالو 11 مشن اس امریکی مہم کو کہتے ہیں جس میں 16 جولائی 1969ء میں تین انسان ہزاروں دیگر انسانوں کی مدد سے تاریخ میں پہلی بار زمین کے علاوہ کسی اور سیارے پر قدم رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ تینوں خلانورد نیل آرم اسٹرانگ، مائیکل کولنز، ایڈون ایلڈرن اپالو 11 کے تاریخ ساز مشن کے ذریعے چاند تک پہنچے، یہ پورا مشن 8 دن جاری رہا، جبکہ چاند کی سطح پر گزارا گیا عرصہ ایک دن سے بھی کم تھا
اسی طرح چاند پر چہل قدمی بمشکل ڈھائی گھنٹے پر محیط ہونے کے باوجود یادگار تھی، اس مختصر عرصہ کہ دوران ان خلانوردوں نے کئی تاریخ ساز سائنسی تجربے کیے اور تصاویر کھینچیں، جنہیں آج تک انسانی تاریخ کے چند یادگار ترین تصاویر کی حیثیت حاصل ہے
محمد یعقوب خان کنور کے مطابق لوگ جب بھی میوزیم آتے ہیں تو اسے ضرور دیکھتے ہیں۔ اس کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ غیر ملکی سفیر بھی آتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان میں امریکی سفیر نے میوزیم کا دورہ کیا اور اس ٹکڑے کو دیکھا
انہوں نے تعریف کی کہ دنیا کے دیگر ملکوں سے، جنہیں ایسے ٹکڑے دیے گئے تھے، تو چاند کے ٹکڑے کھو گئے ہیں یا چوری کر لیے گئے ہیں لیکن پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے، جہاں اس ٹکڑے کو سنبھال کر رکھا گیا ہے
واضح رہے کہ چاند کا یہ ٹکڑا اپنی اہمیت کے پیش نظر اس قدر قیمتی ہے کہ مختلف ممالک میں یہ چوری کیا جاچکا ہے لیکن پاکستان میں یہ ابھی بھی محفوظ ہے اس کے علاوہ اسے تحقیقی معاملات میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔