پاکستان میں ہر حکومت تعلیم کی بہتری کے بارے میں بلند و بانگ دعوے تو کرتی ہے، لیکن تعلیم کے مسائل دن بدن گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک بھر میں ہزاروں ایسے اسکول ہیں، جن کی نہ چار دیواری ہے، نہ چھت اور نہ ہی بیت الخلا کی سہولت۔ کئی اسکولوں میں تو پانی بھی دستیاب نہیں ہے۔ جب کہ کئی اسکولوں کی عمارتیں اپنی خستہ حالی کی وجہ سے ’موت کا کنواں‘ بنی ہوئی ہیں
اعداد و شمار کے مطابق صوبہ سندھ میں ہزاروں اسکول غیر فعال ہیں، دوسری جانب انہیں فعال کرنے کی سنجیدہ کوششوں کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کی توجہ اصل تعلیمی مسائل پر نہیں ہے اور وہ دوسرے معاملات پر پیسے خرچ کرتی ہے، جس سے وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور پیسہ بھی
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی معروف ماہر تعلیم اور ادارہ تعلیم و آگہی کی سربراہ بیلا رضا جمیل کا کہنا ہے کہ نئے اسکولوں کی عدم تعمیر، معیاری تعلیم کی کمی اور کم تعلیمی بجٹ ان چند وجوہات میں سے ہیں، جن کی وجہ سے بہت سارے بچے اسکولوں سے باہر ہیں
بیلا رضا جمیل کہتی ہیں ”پاکستان میں انرولمنٹ کی شرح بہت کم ہے۔ یہ شرح میٹرک کے لیول پر 27 سے 30 فیصد ہے۔ مڈل کی لیول پر 40 فیصد ہے اور پرائمری کی سطح پر نیٹ انرولمنٹ 65 فیصد ہے۔‘‘
ان کا کہنا ہے ”انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ سندھ میں آٹھ ہزار کے قریب ایسے اسکول ہیں، جنہیں شیلٹر لیس کہا جاتا ہے، ایسے اسکول ایک ٹیچر اور کچھ فرنیچر کی مدد سے کسی بھی جگہ قائم کر دیے گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے کچھ اسکولوں کے لیے چوکیدار بھی متعین کیے گئے ہیں۔‘‘
دنیا کے کئی ممالک میں پرائمری تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور کئی جمہوری ملکوں میں دسویں یا بارہویں گریڈ تک تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے، لیکن کچھ ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ پاکستان میں کسی حد تک اعلیٰ تعلیم پر تو توجہ دی جاتی ہے، لیکن پرائمری اور ثانوی تعلیم کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے
سندھ کے دارالحکومت کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہر تعلیم ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے ”پاکستان میں یونیورسٹیوں کی تعمیر پر بہت توجہ ہے جبکہ اسکولوں پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ 1994 میں پاکستان میں صرف بیس یونیورسٹیز تھی لیکن اب دو سو سے زیادہ یونیورسٹیاں ہیں۔ ایک طرف حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر توجہ نہیں اور دوسری طرف قدرتی آفات نے بھی اسکولوں کے نظام کو بہت متاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے ڈراپ آؤٹ کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ صرف سندھ میں حالیہ سیلابوں کی وجہ سے انیس ہزار کے قریب اسکول متاثر ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی مختلف سیلابوں یا قدرتی آفات میں اسکول متاثر ہوئے اور ان کی بحالی کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا۔‘‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ماہر تعلیم سبین یونس کہتی ہیں ”پاکستان کے نظام تعلیم میں بہت سارے اسٹرکچرل مسائل ہیں، جن کو حل کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ تھوڑے سے پرانے اعداد و شمار ہیں، لیکن ان کے مطابق بلوچستان کے بائیس ہزار دیہات میں سے صرف بارہ ہزار دیہات میں اسکول ہیں اور ان بارہ ہزار دیہات میں بھی سات ہزار اسکول ایک کمرے والے ہیں۔ بالکل اسی طرح سندھ میں پرائمری اسکولوں کی ایک بڑی تعداد صرف دو کمروں پہ مشتمل ہے۔‘‘
سبین یونس کا کہنا ہے ”سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک کمرے اور دو کمرے کے اسکولوں کا خیال پرائمری اسکولوں کے لیے کس کے ذہن میں آیا؟ کیونکہ پرائمری اسکولوں کے لیے بھی کم از کم پانچ کمرے ہونے چاہییں۔ جب اسکول اتنے چھوٹے ہوں گے، تو لازمی بات ہے بہت سارے بچوں کو اسکول میں داخلہ نہیں ملے گا اور بچے آؤٹ اف اسکول ہی رہیں گے۔‘‘
سبین یونس کہتی ہیں ”اساتذہ سے تعلیم کے علاوہ کئی اور کام لیے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے بھی نظام تعلیم خراب ہوتا ہے۔ جب اساتذہ مردم شماری انتخابات اور دوسرے کاموں میں مصروف ہوں گے تو وہ کلاسز نہیں لے سکیں گے، تو اسکولوں میں بچوں کے آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ سے بھی بہت سارے بچے اسکول چھوڑ جاتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ پڑھائی نہیں ہو رہی۔‘‘
پاکستان میں تعلیم کے گرتے ہوئے معیار سے بہت سارے لوگ نا امید ہیں لیکن ماہرین تعلیم کا ماننا ہے کہ اس کو ابھی بھی بہتر کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر جعفر احمد کا خیال ہے کہ پاکستان میں بہت سارے بچے محنت مزدوری کرتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کے گھر والے فاقوں کا شکار ہو جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے بچوں کو اسکولوں کی طرف راغب کرنے کے لیے ان کے والدین کو ماہانہ کچھ وظیفہ دیا جائے اور جو بچے کام کاج کی وجہ سے اسکول چھوڑ دیتے ہیں، ان کو واپس لانے کے لیے بھی مالی ترغیب دی جائے
ماہر تعلیم بیلا رضا جمیل سمجھتی ہیں کہ حکومت کو تعلیمی اداروں میں دوسری اور تیسری شفٹیں شروع کرنا چاہیئں۔ انہوں نے کہا ”برازیل کے ایک وفد نے ہمیں بتایا کہ ان کی حکومت نے تین تین شفٹیں شروع کی ہوئی ہیں، یہاں تک کہ نیپال، جو ہماری طرح ایک غریب ملک ہے، وہاں پر بھی تعلیم کی انرولمنٹ 97 فیصد ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ کم ہو رہی ہے۔‘‘
بچوں کے اسکول سے باہر ہونے کی ایک وجہ موجودہ تعلیمی نظام سے فارغ التحصیل نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع کی عدم دستیابی بھی ہے۔ خاص طور پر غریب طبقے کے والدین جب تعلیم مکمل کرنے والوں کو نوکریوں کے لیے دھکے کھاتے دیکھتے ہیں، تو وہ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ ان کے بچے اسکول جانے کی بجائے کوئی کام اور ہنر ہی سیکھ لیں، تاکہ وہ نوکریوں کے لیے در بہ در بھٹکنے کی بجائے کچھ کمانے کے قابل ہو سکیں
ان سارے عوامل سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ ہماری ترجیحات کا ہے۔ ترجیحات کی اس فہرست میں تعلیم کہیں بہت نیچے موجود ہے۔ اس کا ثبوت ہمارے بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص حصے سے لگایا جا سکتا ہے، جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہے۔