بلوچستان کے شہر وڈھ میں دو مسلح گروہوں کے درمیان تصادم کے باعث علاقے میں کشیدگی برقرار ہے۔ وڈھ میں مینگل قبیلے کے دو مسلح گروپ ایک ماہ سے مورچہ بند ہیں، جب کہ علاقے میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے
صوبائی حکومت اور قبائلی عمائدین دونوں گروہوں کے درمیان مصالحت کے ذریعے تنازعہ حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں
خضدار پولیس کے ایک اہل کار نے بتایا کہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب وڈھ کے علاقوں باڈڑی اور زرچین میں فائرنگ اور دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا اور رات گئے تھم گیا
پولیس کے مطابق جمعرات کی صبح ایک بار پھر سے علاقے میں گشیدگی بڑھ گئی اور فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا
مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ فائرنگ اور گولہ باری سے وڈھ انٹر کالج کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا ہے
آخری اطلاعات تک وڈھ میں جاری گشیدگی کو کم کرنے کے لیے پولیس، فرنٹیئر کور (ایف سی) اور لیویز فورسز کو تعینات کر دیا گیا ہے، جب کہ کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو بھی ہر طرح کی ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے
جمعرات کی شب سوشل میڈیا پر بتایا گیا کہ مختصر وقفہ کے بعد وڈھ میں دوبارہ تصادم شروع ہو گیا ہے اور دونوں طرف سے بھاری ہتھیاروں کا استعمال جاری ہے
زرچین اور کلی صالح محمد کے قریب پہاڑوں سے وقفے وقفے سے فائرنگ کی جا رہی ہے
دوسری جانب حکام نے بتایا کہ وڈھ میں مسلح افراد نے جمعرات کی صبح جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اور صبح 8 بجے کے قریب بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ شروع کر دی، فائرنگ کا تبادلہ تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہا
ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ راکٹ فائر کیے جانے کی وجہ سے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا، انہوں نے مزید کہا کہ مسلسل دوسرے روز بھی خضدار کراچی ہائی وے پر ٹریفک معطل رہا، ایک مارٹر گولہ کالج کی عمارت کو بھی لگا لیکن اس کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن کالج کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا ہے
حکام نے بتایا کہ کمشنر قلات ڈویژن داؤد خلجی، ایف سی کمانڈنٹ کرنل حافظ کاشف، ڈی آئی جی پرویز عمرانی، ڈپٹی کمشنر خضدار اور دیگر اعلیٰ حکام وڈھ میں موجود ہیں اور صورتحال کی بہتری کے لیے بات چیت کر رہے ہیں
ڈپٹی کمشنر خضدار جمیل احمد کے مطابق فائرنگ کے نتیجے میں دو افراد زخمی ہو گئے ہیں، جنہیں خضدار سول اسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ اُن کے بقول قومی شاہراہ کے اطراف قائم دو نجی چیک پوسٹس ہٹا دی گئی ہیں
وڈھ کے عوام نے دونوں گروپوں سے جنگ بندی کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ خدارا یہ لڑائی بند کریں۔
دو لوگوں کی وجہ سے پورا علاقہ تباہ ہو رہا ہے، آخر کتنے مظلوم مارے جائیں گے
ادہر بلوچستان ہائی کورٹ میں وڈھ کی مخدوش صورتحال پر پٹیشن داخل کی گئی ہے۔ درخواست گزار محمد امین مگسی ایڈوکیٹ و دیگر وکلاء برادری کا کہنا ہے کہ وڈھ میں دو مسلح گروپوں میں تصادم کی وجہ سے صورتحال تشویشناک ہے اور تصادم میں تحصیل وڈھ کے شہریوں کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے
پٹیشن کی سماعت چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عامر رانا پر مشتمل بنچ نے کی۔ چیف جسٹس نے پٹیشن سماعت پر سوال اٹھاتے ہوئے درخواست پر سماعت 21 جولائی تک ملتوی کردی
دوسری جانب یہ معاملہ قومی اسمبلی میں بھی اٹھایا گیا، جب کہ سردار اختر مینگل وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کرنے پہنچے اور زور دیا کہ وہ مداخلت کریں
سردار اختر مینگل نے دعویٰ کیا کہ بے امنی میں ملوث مسلح گروپ قوم پرستوں اور ان دیگر سیاسی جماعتوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں، جو بلوچستان میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں
ادھر وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے آج بلوچستان اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس طلب کر لیا ہے، سراوان قبائل کے سربراہ نواب اسلم رئیسانی نے بھی دونوں متحارب فریقوں کے رہنماؤں سردار مینگل اور شفیق مینگل سے بات کی اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنی خدمات کی پیشکش کی۔
وڈھ بلوچستان کے ضلع خضدار کی ایک تحصیل ہے، جو کوئٹہ شہر سے تقریباً 368 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے
وڈھ میں مینگل قبیلے کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے قائد سردار اختر جان مینگل کی آبائی رہائش گاہ ہے
سینئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ وڈھ میں زمین کا تنازع ہے۔ ان کے بقول کاغذات میں یہ زمین اختر مینگل کے والد عطاءاللہ مینگل اور ان کے خاندان کے نام پر ہے، تاہم ان کے مطابق، میر شفیق مینگل اور ان کے قبائل نے وہاں مبینہ طور پر قبضہ کر رکھا ہے
شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ میر شفیق مینگل کے والد میر نصیر مینگل سردار عطاءاللہ مینگل کے اتحادی تھے۔ نصیر مینگل 1988 سے انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق میر شفیق مینگل کے پاس مسلح افراد کی ایک بڑی تعداد ہے اور یہ ریاستی اداروں کو بھی چیلنج کرتے رہے ہیں
سن 2014 میں خضدار میں لیویز چیک پوسٹ پر حملے میں آٹھ اہل کاروں کی ہلاکت کا مقدمہ بھی شفیق مینگل کے خلاف درج کیا گیا تھا۔ واقعے کے کچھ عرصے بعد شفیق مینگل کو اُن کے آبائی علاقے تک محدود رکھا گیا
شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ شفیق مینگل 2018 میں اپنے حلقے سے الیکشن بھی لڑ چکے ہیں اور اُنہیں اختر مینگل مخالف ووٹ ملتا ہے
اُن کے بقول وڈھ میں تصادم کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ الیکشن کی آمد آمد ہے اور اس تنازع کو ہوا دی جا رہی ہے
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق سابق وزیرِ اعلٰی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی دونوں گروہوں کے درمیان فائر بندی کے لیے کوشاں ہیں
دوسری جانب جمعرات کو وڈھ میں جاری گشیدگی کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ وڈھ میں جاری صورتِ حال آج کی نہیں بلکہ یہ مسئلہ عرصہ دراز سے چلا آ رہا ہے
سردار اختر کے بقول گزشتہ بیس برسوں سے یہ گشیدگی صرف وڈھ میں نہیں بلکہ پورے بلوچستان میں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا سینٹر پوائنٹ وڈھ ہے
اختر مینگل کہتے ہیں ”2004 سے بلوچستان میں ہونے والے واقعات اور توتک سے اجتماعی قبروں کے نشانات کس طرف جاتے ہیں، یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے“
اختر مینگل کا الزام ہے کہ ان کے مخالفین نے وڈھ کے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ علاقے میں روزانہ لوگوں کو اغوا کیا جا رہا ہے اور بھتہ خوری عام ہے
سردار اختر مینگل نے کہا کہ ایک ماہ سے وڈھ میں دونوں طرف سے لوگ مورچہ بند تھے، بدھ کی شام سے فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک نوجوان اور ایک بچہ زخمی ہے
ادہر ’جھالان عوامی پینل‘ کے سربراہ میر شفیق الرحمان مینگل نے گزشتہ دنوں خضدار میں مقامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مخالف سردار اختر مینگل نے وڈھ شہر میں ان کی آبائی جائیداوں، دکانوں اور ہوٹلوں پر قبصہ کر رکھا ہے
انہوں نے کہا ”اٹھارہ برس قبل بھی مصالحتی کمیٹی ہمارے پاس آئی اور کامیاب مذاکرات کے بعد جنگ بندی کی گئی، مگر آج اٹھارہ سال گزرنے کے باوجود وہ زبان دے کر بھاگ گئے“
میر شفیق الرحمان مینگل نے الزام عائد کیا ہے کہ 2008 سے سردار اختر مینگل نے مختلف کالعدم تنظیموں کے ذریعے ہمارے لوگوں کو نشانہ بنایا
اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کے ایک سو اسی سے زائد لوگ مارے گئے ہیں، جب کہ سینکڑوں نجی جیلوں میں ہیں۔