کیا آپ کے بڑوں نے آپ کو یہ ہی تربیت دی ہے؟ اوہو! بھئی یہ تو کسی اچھے خاندان سے نہیں لگتا یا لگتی۔ اس طرح کے اور اس سے ملتے جلتے بہت سے جملے آپ سے کئی بار کہے گئے ہوں گے اور آپ نے بھی بہت دفعہ اوروں سے کہے ہوں گے۔ اور اس طرح کی بات کے ردعمل میں اکثر ہم غصہ کرتے ہیں یا اگلا فریق ناراضی کا اظہار کرتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
اس لیے کہ بات آ جاتی ہے والدین پر یا خاندان کی اس تربیت پر جس کا خیال رکھتے ہوئے ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم کسی اچھے شہری اور سلجھے ہوئے انسان کی طرح پیش آئیں۔ اب ہوتا کچھ یوں ہے کہ ہم مد مقابل شخص کی توقعات پر پورا نہیں اتر پاتے اور اس طرح کے تبصروں کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔
وہ رویے کوئی بھی ہو سکتے ہیں کسی بھی طرح کے ہو سکتے ہیں مثال کے طور پر چیخ کے بات کرنا، گالی دینا، حقارت سے بات کرنا، بات بات پر الجھنا، بات کا بتنگڑ بنانا، کام کی جگہ پر فساد برپا کرنے کی کوشش کرنا، جھوٹ، مکر، عیاری، دھوکا دہی، باڈی شیمنگ، راہ چلتی عورتوں کو ہراس کرنا اور اس طرح کے بہت سے کج رو معاملات جو آپ سوچ سکتے ہیں یا کر سکتے ہیں، اس فہرست میں شامل کر لیں اور تھوڑی دیر کو ملزم نہیں بن سکتے تو جج بن جائیے کہ یہ زیادہ آسان کام ہے اور ساری دنیا یہ کام بہت خوش اسلوبی سے نبھاتی ہے۔
اب سوچیے کہ لوگ ان حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں اور معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں ان میں سے بہت سے لوگوں کو ہم ذاتی طور پر جانتے بھی ہیں۔ اب غور کریں کہ ہمارے گھروں میں تربیت کے نام پر بچوں کے ساتھ کیا رویہ رکھا جاتا ہے۔
ہم چاہتے ہیں ہمارے بچے نیک ہوں فرمانبردار ہوں، پڑھائی میں اچھے ہوں، پانچ وقت کے نمازی ہوں، سکول، کالج اور یونیورسٹی میں جائیں تو ادھر ادھر دیکھے بغیر ناک کی سیدھ میں جائیں پڑھائی مکمل کریں اور سیدھے کوئی بڑے سے افسر بن کے گھر لوٹیں اور واپس آ کر ہماری پسند سے شادی کریں، ہماری مرضی سے بچے پیدا کریں اور پھر ان کی تربیت بھی ہماری مرضی سے کریں۔
لیکن ہم بہ طور والدین یا قریبی رشتے دار بچوں کے سامنے مثالی نمونہ کیا پیش کرتے ہیں؟
ان کے سامنے آپس میں لڑتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، بڑوں کا احترام نہیں کرتے اور چھوٹوں سے بات کرتے وقت شفقت اور اخلاق کا دامن نہیں تھامتے، ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کے پڑھنے لکھنے کے شوق کو سنجیدہ نہیں لیتے، انہیں بچہ سمجھ کر ان کے سامنے ہی آتی جاتی خواتین کو چھیڑنا تفریح سمجھتے ہیں، اپنے دوستوں سے اخلاق باختہ گفتگو کرتے ہیں، کھانے پینے کے آداب کو ملحوظ نہیں رکھتے، ایک دوسرے کی پرسنل اسپیس کا خیال نہیں رکھتے، موبائل اور ٹی وی کے استعمال میں محتاط نہیں ہوتے اور ایسی ہی بہت سی اخلاقی باتیں جنہیں ہم خود اختیار نہیں کر پاتے لیکن چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے، رشتے داروں کے بچے، ہمارے شاگرد، کولیگز، محلے دار اور سب ملنے جلنے والے ان سب باتوں سے گریز کریں اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں۔
آپ سوچیے کہ تربیت صرف ڈانٹ ڈپٹ کے سرکس کا شیر بنا دینے سے ہی ممکن ہو سکتی ہے کیا؟
جب آپ بچوں کو گالی دے کر گالی دینے سے روکنے کی کوشش کریں گے تو وہ کیوں رکے گا۔ جب آپ جھوٹ نہ بولنے کی تلقین کرتے رہیں گے لیکن اس کے سامنے ہی کبھی فون پر، کبھی کاروبار میں، کبھی رشتے داری میں تو کبھی گھر والوں سے جھوٹ بولتے رہیں گے تو وہ تلقین نہیں آپ کے عمل سے سیکھے گا۔
آپ لاکھ کہتے رہیں کہ دوسروں کی بہنوں اور بیٹیوں کا احترام کرتے ہیں لیکن وہ جب آپ کو عورتیں دیکھ کر للچاتا ہوا پائے گا تو اس بات کو جائز سمجھے گا۔
ہم نے بہت سے لوگوں کو یہ شکایت کرتے بھی پایا ہے کہ بچہ فلاں مہنگے ادارے میں داخل کروا رکھا ہے لیکن وہ کچھ اچھی باتیں سیکھ نہیں پا رہا یا استادوں کا کام تربیت کرنا ہے وہاں کے اساتذہ تربیت نہیں کر پارہے۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ موجودہ تعلیمی نظام میں ہم بچے کو صبح اسکول یا کالج بھیجتے ہیں تو پانچ یا چھ گھنٹے کے لیے وہ وہاں موجود رہتا ہے۔ اس وقت میں اساتذہ کا زیادہ تر وقت انہیں نصاب بروقت مکمل کروانے اور اچھے نمبر لانے کی کوشش میں ہی گزر جاتا ہے۔ ایک استاد کے پاس چالیس سے پچاس منٹ کا ایک پیریڈ ہوتا ہے۔اس میں تربیت کا کون سا وقت ملتا ہے؟
یہ پرانا تعلیمی نظام نہیں ہے کہ بچے گھروں سے دور کسی درس گاہ میں تعلیم و تربیت کی نیت سے بھرتی کروا دیئے جاتے ہوں گے اور چوبیس گھنٹے میں ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی وہاں کے استادوں کے ذمے لگائی جا سکے۔
لہٰذا والدین کو اس ضمن میں معلوم ہونا چاہیے کہ تعلیم، گریڈز، اچھے نمبر اور مزید کسی اچھے ادارے میں میرٹ کے مطابق داخلہ تو آپ کسی تعلیمی ادارے کی جھولی میں ڈال سکتے ہیں لیکن بچوں کے رویے، ان کے اخلاقی اور سماجی معاملات ہر طرح سے آپ کی ہی ذمہ داری ہے۔
اب اس ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے سب سے پہلے آپ کو اور ہمیں اپنے رویوں پر محنت کی ضرورت ہے۔ ہم ان کے سامنے جب تک عملی مثالیں نہیں پیش کریں گے وہ کبھی بھی اچھے، تمیز دار اور سلجھے ہوئے شہری نہیں بن پائیں گے، بالکل ایسے ہی جیسے ہم دوسروں کو بگڑا ہوا سمجھتے ہیں اور دوسرے ہمارے گھروں کی تربیت پر انگلی اٹھاتے ہیں یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے اندر سرایت ہو چکے بگاڑ کو شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش کریں اور اسے اگلی نسل تک منتقل ہونے سے روکیں، تاکہ انہیں ہمارے جیسے حالات و معاملات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)