جزیرہ برطانیہ کے ملک ویلز میں واقع ایک قصبے ایبرہوسن میں ڈیڑھ سال تک انٹرنیٹ کسی نامعلوم اور پراسرار وجہ سے متاثر رہا طویل چھان بین کے بعد اس کی جو وجہ سامنے آئی، اس نے ماہرین کو بھی حیران کر کے رکھ دیا
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایبرہوسن کے قصبے میں انٹرنیٹ سروس تقریباً ڈیڑھ سال تک روزانہ صبح سات بجے سے بند ہو جاتی اور اگلے چند گھنٹوں تک بند رہتی، اس مسئلے کی وجہ کا پتہ لگانے کے لیے کئی کوششوں کے بعد بھی انجینئر اس کی وجہ معلوم نہیں کر سکے
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ قصبے کے باسیوں کی جانب سے تقریباً روزانہ ہی براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنی سے سروس کی بندش کی شکایت کی جاتی تھیں، لیکن اکثر ایسا ہوتا کہ جب تک کمپنی کے ماہرین وہاں پہنچتے، تب تک انٹرنیٹ بحال ہوچکا ہوتا۔
اس طرح مہینوں تلاش کرنے کے باوجود بھی اس کمپنی کے انجینئر ایبرہوسن کے براڈ بینڈ انٹرنیٹ میں کوئی خرابی نہیں ڈھونڈ پائے
احتیاطی تدبیر کے طور پر کمپنی کی طرف سے پورے قصبے میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ کا ایک ایک کیبل، ایک ایک تار بھی بدل دی لیکن اس کے باوجود بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا
تقریباً ڈیڑھ سال کی چھان پھٹک اور ناکامی کے بعد بالآخر اس قصبے کو برانڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنی نے فیصلہ کیا کہ اپنے سب سے زیادہ تجربہ کار ماہرین کو وہاں بھیجا جائے
تجربہ کار ماہرین کی اس ٹیم نے بھی پورے قصبے کا دورہ کیا، لیکن وہ بھی ایسی کسی بات کا پتہ لگانے میں ناکام رہے کہ آخر مسئلہ کہاں ہے ، البتہ اس ٹیم کے سربراہ مائیکل جونز کو شبہ ہوا کہ صبح ٹھیک سات بجے انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ ’’شائن‘‘ (سنگل ہائی لیول امپلس نوائس) کہلانے والا ایک مظہر ہوسکتا ہے
اس میں کسی الیکٹرونک ڈیوائس سے بے ہنگم اور شدید قسم کا برقی مقناطیسی میدان پیدا ہوتا ہے، جو چاروں طرف پھیل جاتا ہے۔ اگر اس ’’شور‘‘ (نوائس) کی فریکوئنسی ویسی ہی ہوگی جیسی براڈ بینڈ کی فریکوینسی ہے، تو دونوں ایک دوسرے میں دخل اندازی کریں گی، جس کی وجہ سے براڈ بینڈ سروس بند بھی ہو سکتی ہے۔ ’’شائن‘‘ کے ایسے ذرائع میں اسٹریٹ لائٹ، سی سی ٹی وی کیمرا اور مائیکرو ویو اوون تک شامل ہیں۔
اپنے اس خیال کی تصدیق کے لیے ٹیم کے سربراہ مائیکل جونز اور ان کے ساتھی ’’شائن‘‘ کا سراغ لگانے والے آلات سے لیس ہوئے اور صبح سویرے تیار ہو کر سات بجنے کا انتظار کرنے لگے. صبح ٹھیک سات بجے ’’شائن‘‘ کی سرگرمی شروع ہو گئی اور انہوں نے دیگر آلات کی مدد سے وہ مقام تلاش کرنا شروع کیا جہاں سے یہ برقی مقناطیسی شور پیدا ہورہا تھا
جلد ہی وہ ایک مکان تک پہنچ گئے جہاں ایک پرانا ٹی وی آن تھا… اور وہی اس ’’شائن‘‘ کا مرکز بھی تھا۔
مزید چھان بین پر معلوم ہوا کہ یہ پرانا ٹی وی اس خاندان کے ایک فرد نے ڈیڑھ سال پہلے مرمت کر کے استعمال کرنا شروع کیا تھا۔
وہ فرد روزانہ صبح ٹھیک سات بجے بی بی سی نیٹ ورک کا پروگرام ’’ہومز انڈر دی ہیمر‘‘ دیکھنے کےلیے یہ ٹی وی آن کر دیا کرتا تھا اور جب تک وہ پروگرام ختم نہ ہوجاتا، تب تک وہ ٹی وی کے سامنے ہی بیٹھا رہتا۔
چونکہ اس خاندان کو خود بھی معلوم نہیں تھا کہ اس مسئلے کی وجہ ان کے گھر میں استعمال ہونے والا ٹی وی ہے، اس لیے انہوں نے فوراً ہی اپنی غلطی مانتے ہوئے معافی مانگی اور آئندہ یہ پرانا ٹی وی استعمال نہ کرنے کا وعدہ بھی کیا۔
اس طرح آخرکار قصبے میں انٹرنیٹ کا مسئلہ حل ہوگیا اور اس مسئلے کی وجہ بھی معلوم ہوگئی، جو اتنی غیر متوقع تھی کہ اس جان کر ماہرین اور انجینئر بھی حیران رہ گئے.