پاکستان کا ’سب سے بڑا قبضہ گیر‘ قانون کے شکنجے میں۔۔۔

ویب ڈیسک

یہ کہانی ہے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی فیصل مسجد کے سامنے برسوں سے ریڑھی لگانے والے فرمان اللہ کی۔۔ جنہیں اسلام آباد کے ترقیاتی محکمے (سی ڈی اے) نے گرفتار کیا، اس پر قبضے کی دفعات کے تحت مقدمہ چلایا اور غیرمعمولی ’تیزتر انصاف‘ فراہم کرتے ہوئے 24 گھنٹوں کے اندر فیصلہ سنایا اور جیل بھجوا دیا

فرمان اللہ گزشتہ تیس برس سے اسلام آباد میں فیصل مسجد کے سامنے قلفی کی ریڑھی لگاتے رہے ہیں، یہی ریڑھی سردیوں میں چھلی کی ریڑھی میں تبدیل ہو جاتی، جس سے وہ اپنے پانچ بچوں کا پیٹ پالتے ہیں

فرمان کے پانچ بچوں میں سے چار جسمانی طور پر معذور ہیں اور ان کے علاج کا خرچہ بھی اسی کمائی سے نکلتا ہے، جو ماہانہ لگ بھگ آٹھ ہزار روپے بنتے ہیں

اسلام آباد کی لہتراڑ روڈ پر ایک کچے مکان کے رہائشی فرمان اللہ اب ’ناجائز قبضے‘ کے جرم میں اڈیالا جیل میں قید ہیں

وفاقی دارالحکومت کے ادارے سی ڈے اے کے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے اہلکاروں نے انہیں 11 جولائی کو گرفتار کیا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ ”وہ فیصل مسجد کے گرد و نواح میں بلا اجازت ریڑھی لگا کر تجاوزات کے مرتکب ہوئے“

صرف ایک دن بعد فرمان اللہ کو سی ڈی اے کے سینیئر سپیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا، جہاں ملزم نے ’اعترافِ جرم‘ کیا اور درخواست کی کہ ان کو معاف کر دیا جائے

بیان کے مطابق فرمان اللہ کا کہنا تھا ”میں یہ غلطی دوبارہ نہیں کروں گا۔ میں غریب آدمی ہوں، مجھے اپنے خاندان کا پیٹ پالنا ہے۔ میرے علاوہ ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہے“

تاہم سینئر اسپیشل مجسٹریٹ سردار محمد آصف نے سی ڈی اے آرڈیننس 1960 کے سیکشن 46 اے اور مارشل لا ریگولیشن نمبر 63 کے تحت پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور تین ماہ قیدِ بامشقت کی سزا سناتے ہوئے حکم دیا کہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں فرمان اللہ کو ایک ماہ کی اضافی قید کاٹنا ہوگی

رابطہ کرنے پر سی ڈی اے کے ڈائریکٹر محمد کامران نے پہلے تو اس کیس کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا، تاہم ان کا کہنا تھا ”دیکھیں ہمارا ادارہ قانون کی پیروی کرتا ہے۔ اگر ہمارے ادارے کے لا ڈپارٹمنٹ نے گرفتار کیا ہے تو کچھ دیکھ کر کیا ہوگا“

سی ڈی کے ایک اور افسر کا کہنا تھا ”فرمان اللہ بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں اور اب اس فیصلے پر مزید جو بھی بات چیت ہوگی، وہ عدالت میں ہوگی“

دوسری جانب فرمان اللہ کے وکیل عمر اعجاز گیلانی کہتے ہیں ”ایک قلفی کی ریڑھی کو تجاوزات قرار دینا اور فرمان اللہ کو اس جرم میں جیل بھجوانا سی ڈی اے کی جانب سے بے حسی کی انتہا ظاہر کرتا ہے“

عمر اعجاز کو فرمان اللہ کے علاقے کے نزدیک بنی کچّی آبادی کے لوگوں سے ان کی گرفتاری کا پتا چلا۔ انہوں نے سب سے پہلے ٹوئٹر پر اس کیس کے بارے میں پوسٹ کیا اور پوچھا کہ ’کس قانون کے تحت ایک ریڑھی لگانے والے فرد سے اس قسم کا برتاؤ کیا جارہا ہے؟‘

انہیں مزید دستاویزات نکلوانے کے بعد پتا چلا کہ فرمان اللہ کو سی ڈی اے آرڈیننس 1960 کی شِق A-46 کے تحت بغیر لائسنس کے ریڑھی لگانے پر سزا سنائی گئی ہے، جس کے بعد انہوں نے فرمان اللہ کے مقدمے کی پیروی کرنے کی حامی بھری

اب عمر اعجاز نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اسپیشل مجسٹریٹ سی ڈی اے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے

عمر اعجاز کہتے ہیں ”ایک غریب آدمی کو صرف قلفی بیچنے کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ پھر اس سے ’تفتیش‘ کے دوران بیان لیا جاتا ہے، جس میں وہ ’قبول‘ کرتا ہے کہ اس نے ریڑھی لگائی ہے۔ اور ان چوبیس گھنٹوں کے دوران نہ اسے وکیل کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ ہی فیئر ٹرائل کی امید ملتی ہے“

عمر اعجاز نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ فرمان اللہ کا مبینہ اعترافِ جرم انہیں اپنے لیے وکیل کرنے کا موقع فراہم کیے بغیر لیا گیا

انہوں نے درخواست میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’ریڑھی زمین پر قبضہ یا تجاوزات شمار نہیں کی جا سکتی، کیوں کہ ریڑھی کھوکا نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی چلتی پھرتی گاڑی کی طرح ہے، جو فیصل مسجد کی اطراف میں کافی تعداد میں موجود ہوتی ہیں“

وکلا کے مطابق قانوناً کسی بھی ممنوعہ جگہ پر ریڑھی لگانے کا زیادہ سے زیادہ جرمانہ چار سو روپے ہوتا ہے۔ لیکن فرمان اللہ پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ لگایا گیا ہے

عمر اعجاز کے مطابق ”اسلام آباد کی تاریخ میں کبھی سی ڈی اے نے کسی گاڑی والے کو اسی جرم میں تین ماہ قید اور پانچ لاکھ جرمانے کی سزا نہیں کی، لیکن ریڑھی والوں کے ساتھ باقاعدگی سے ایسا کیا جاتا ہے، جو غریبوں کے خلاف سی ڈی اے کے امتیازی سلوک کی مثال ہے“

واضح رہے کہ پچھلے کچھ سال سے اسلام آباد میں تجاوزات کے خلاف کارروائی میں اضافہ دیکھا گیا ہے

اسلام آباد سے ہی تعلق رکھنے والی سماجی کارکن شہلا رضا کہتی ہیں ”پچھلے پندرہ سال میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں مزدور پیشہ افراد کی ایک بڑی تعداد نے ملک بھر میں نقل مکانی کی۔ ایسے لوگوں کو کبھی کچی آبادیاں ہٹائے جانے یا پھر محنت مزدوری کرنے کے نتیجے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ سرکار کا مزدور پیشہ افراد کے لیے نہ تو کوئی واضح پروگرام ہے اور نہ ہی برداشت“

شہلا کا کہنا ہے ”مزدوروں اور محنت کش افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنا قدرے آسان ہے لیکن اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں ہونے والی امیر لوگوں کے پراپرٹی میں غبن کرنے کے اور تجاوزات کے واقعات کو دبا دیا جاتا ہے“

عمر گیلانی کہتے ہیں ”اسلام آباد صرف امرا کے لیے نہیں بلکہ ہر طبقے کے لوگوں کے لیے ہے اور ان کا بھی اتنا ہی حق ہے ان سڑکوں پرمحنت مزدوری کرنے کا جتنا کہ کسی اور کا“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close