ایوان دمتریچ ایک مڈل کلاس آدمی تھا۔ اپنے خاندان کے ساتھ رہتا تھا۔ کُل بارہ سو سالانہ آمدنی تھی، جس پر وہ صابر و شاکر تھا۔ شام کا ہلکا پھلکا کھانا کھانے کے بعد صوفے پر اخبار پڑھنے بیٹھ گیا۔
”میں تو آج صبح اخبار پڑھنا بھول ہی گئی۔“ اس کی بیوی نے اسے میز صاف کرتے ہوئے مخاطب کیا
”دیکھو کیا قرعہ اندازی کی لسٹ آئی ہے؟“
”او،ہ اں رے۔۔۔ لیکن کیا تمہارے ٹکٹ کا وقت ختم نہیں ہو گیا؟“
”نہیں، میں نے منگل ہی کو منافع لیا ہے۔“
”نمبر کیا ہے؟“
”سیریز 9,499 نمبر 26“
”ٹھیک ہے۔۔ دیکھتے ہیں۔۔۔“
ایوان دمتریچ لاٹری پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اصولاً وہ لسٹ دیکھنے پر راضی نہ ہوتا لیکن اس وقت وہ بالکل فارغ تھا اور اخبار اس کی آنکھوں کے سامنے۔۔ اس نے نمبروں کے کالم پر اوپر سے نیچے انگلی پھیری۔ فوراً ہی جیسے اس کے شکوک و شبہات کا تمسخر اڑانے کے لئے اوپر سے دوسری لائین پر اس کی نگاہیں 9,499 پر رک گئیں۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔۔ اخبار اس کے گھٹنوں پر سے پھسل گیا۔۔ ٹکٹ کا نمبر دیکھے بغیر، جیسے اسے کسی نے ٹھنڈے پانی کی پھوار سے نہلا دیا ہو، اس نے معدے میں خوشگوار سی ٹھنڈک محسوس کی، ”ماشا! 9,499 تو یہاں ہے۔۔“ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بالکل خالی خالی تھی۔
اس کی بیوی نے اس کے حیرت زدہ اور گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھا اور سمجھ گئی کہ وہ مذاق نہیں کر رہا۔
زرد پڑتے ہوئے تہہ کیا ہوا میز پوش واپس میز پر گراتے ہوئے اس نے پوچھا، ”9,499؟“
”ہاں۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔ واقعی۔۔۔!“
”اور ٹکٹ نمبر؟“
”او۔۔ہاں۔۔۔ ٹکٹ کا نمبر بھی لکھا ہے۔۔ لیکن رکو۔۔ ذرا انتظار کرو۔۔ سیریز نمبر تو ہمارا ہی ہے۔۔ بہرحال۔۔۔۔۔۔“
بیوی کو دیکھتے ہوئے ایوان دمتریچ مسکرایا، اس بچے کی طرح جسے کوئی روشن چمکدار چیز مل گئی ہو۔ اس کی بیوی بھی مسکرائی، دونوں ٹکٹ نمبر دیکھے بغیر خوش تھے۔ مستقبل کی خوش بختی کی امید تھی ہی اتنی مزے کی اور سنسنی خیز۔۔
کافی دیر خاموش رہنے کے بعد دمتریچ نے پھر کہا، ”سیریز تو ہماری ہی ہے۔ اس لئے امید ہے ہم جیتیں ہیں۔ یہ محض امید ہی ہے، پر ہے تو سہی۔۔“
”اچھا۔۔ اب دیکھو بھی!“
"ذرا صبر کرو۔۔ ناامید ہونے کے لئے کافی وقت پڑا ہے، اوپر سے دوسری لائین ہے۔ انعام پچھتر ہزار ہے۔ یہ رقم نہیں، طاقت اور سرمایہ ہے۔۔ ایک منٹ۔۔۔ میں لسٹ دیکھوں گا۔پھر۔۔۔۔ 26۔۔ آہا۔۔!
میں کہتا ہوں اگر ہم واقعی جیت گئے تو۔۔۔۔۔۔۔“
میاں بیوی ہنسنے لگے اور ایک دوسرے کو خاموشی سے گھورنے لگے۔ جیتنے کی امید نے انہیں حیران و پریشان کر دیا تھا۔
وہ نہ کہہ سکتے تھے نہ خواب دیکھ سکتے تھے کہ انہیں یہ پچھتر ہزار کس لئے چاہییں؟ وہ کیا خریدیں گے؟ وہ کہاں جائیں گے؟ وہ صرف 9,499 اور پچھتر ہزار کے بارے میں ہی سوچ رہے تھے۔ چشمِ تصور سے دیکھ رہے تھے لیکن اس خوشی کے بارے میں نہیں سوچ رہے تھے، جو ممکن ہو سکتی تھی۔
ایوان دمتریچ اخبار ہاتھ میں پکڑے ایک سرے سے دوسرے تک ٹہل رہا تھا۔۔ اور جب وہ پہلے جھٹکے سے نکلا تو اس نے خواب دیکھنے شروع کئے۔
”اگر ہم جیت گئے“ اس نے کہا، ”یہ ایک نئی زندگی ہوگی، مکمل کایا پلٹ۔۔ ٹکٹ تمھارا ہے، اگر یہ میرا ہوتا تو میں سب سے پہلے پچیس ہزار کی جائیداد خریدتا۔ دس ہزار فوری اخراجات کے لئے، جیسے گھر کی نئی سجاوٹ۔۔۔ سیروتفریح۔۔۔۔ قرض کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ۔۔ باقی چالیس ہزار بنک میں رکھ دیتا اور منافع لیتا۔“
”ہاں۔۔ جائیداد۔۔۔ اچھا خیال ہے۔“ اس کی بیوی نے بیٹھتے ہوئے کہا اور ہاتھ اپنی گود میں رکھ کر بیٹھ گئی۔
”تولا یا اوریول صوبوں میں کہیں۔۔۔۔ سب سے پہلی بات ہمیں دیہاتی بنگلہ نہیں چاہیے، بلکہ آمدنی میں اضافہ کا سوچنا چاہیے۔“
اس طرح کے خیالات اس کے دماغ پر چھانے لگے۔ ہر ایک پہلے سے زیادہ دلفریب اور شاعرانہ۔۔ ان تمام تصورات میں وہ اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ پلا ہوا، پُرسکون، صحت مند اور گرم محسوس کرتا۔۔
گرمیوں کا برف کی طرح ٹھنڈا مشروب پی کر وہ اپنی پشت کے بل ندی کنارے گرم ریت پر یا کسی باغ میں لیموں کے درخت کے نیچے لیٹ گیا۔ اس کا چھوٹا بیٹا اور بیٹی پاس ہی رینگ رہے ہیں۔۔ یا تو وہ ریت کھود رہے ہیں یا باغ میں تتلیاں پکڑ رہے ہیں۔ وہ پرسکون اونگھ رہا ہے، ان احساسات کے ساتھ کہ اسے آج، کل یا پرسوں بھی دفتر نہیں جانا۔۔ یا بے کار لیٹے رہنے سے اکتا کر وہ خشک گھاس کے میدان یا کھمبیوں کے جنگل چلا جاتا ہے۔۔ یا پھر کسانوں کو جال سے مچھلیاں پکڑتے دیکھتا۔۔ جب سورج غروب ہوتا، وہ تولیہ اور صابن لے کر ٹہلتا ٹہلتا غسل کے لئے چلا جاتا۔جہاں آرام سے کپڑے اتارتا، آہستہ آہستہ اپنے ننگے سینے کو ہاتھوں سے ملتا اور پانی میں گھس جاتا۔۔ پانی میں شفاف صابن کے دائروں کے قریب چھوٹی مچھلیاں متحرک رہتیں ۔ اور آبی پودے سر اٹھائے ہوتے ۔ نہانے کے بعد بالائی والی چائے کے ساتھ ملک رول کا دور چلتا۔۔۔ شام میں چہل قدمی یا ہمسایوں کے ساتھ گپ شپ۔۔
”ہاں، جائیداد خریدنا اچھا رہے گا۔“بیوی نے کہا۔ وہ بھی خواب دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ اپنے خیالات سے خوش ہے۔
ایوان دمتریچ نے خزاں کی بارشوں کا تصور کیا۔ سرد شانوں کا اور سینٹ مارٹن کی گرمیوں کا۔۔ اس موسم میں وہ باغ میں یا دریا کے ساتھ زیادہ لمبی چہل قدمی کرے گا تا کہ وہ مکمل طور پر ٹھنڈا ہونے کے بعد ووڈکا کا بھرا ہوا گلاس پیئے۔۔ اس کے ساتھ نمکین مشروم لذیذ کھیرا کھائے گا اور پھر ایک اور گلاس۔۔۔۔۔۔۔
بچے کچن گارڈن سے تازہ مولی اور گاجر لئے بھاگتے آئیں گے، جن سے تازہ مٹی کی مہک آرہی ہو گی۔۔۔۔۔۔ پھر وہ صوفے پر جسم پھیلا کر لیٹ جائے گا۔۔ اور وقت گزاری کے لئے کوئی تصویری رسالہ دیکھے گا یا اس سے اپنا چہرہ چھپا کر اپنی واسکٹ کے بٹن کھول کر اپنے آپ کو نیند کے حوالے کر دے گا۔
سینٹ مارٹن کی گرمیوں کے بعد بادلوں والا اداس موسم شروع ہوتا ہے۔ دن رات بارشیں ہوتی ہیں۔ ننگے درخت رو رہے ہوتے ہیں۔ ہوا نم آلود ٹھنڈی ہوتی ہے ۔ کتے گھوڑے ، پرندے سب گیلے ہوتے ہیں ، افسردہ اور غمگین۔۔
کہیں گھومنا پھرنا نہیں ہوتا، کئی کئی دن باہر نہیں جا سکتے ۔ کمرے کے اندر ہی ٹہلنا پڑتا ہے ۔ مایوسی سے کھڑکی کو دیکھتے رہو ۔
ایوان دمتریچ رکا اور بیوی کو دیکھنے لگا، ”جانتی ہو، میں بیرونِ ملک جاؤں گا ماشا۔۔“ اس نے کہا۔
اس نے دوبارہ سوچنا شروع کردیا کہ خزاں کے آخر میں ملک سے باہر جانا ، جنوبی فرانس۔۔۔ یا اٹلی۔۔۔۔۔۔ یا انڈیا۔۔۔ کتنا اچھا لگے گا۔۔
”میں بھی یقیناً باہر جاؤں گی“ اس کی بیوی بولی، ”لیکن ٹکٹ کا نمبر تو دیکھو۔“
”صبر ، صبر۔۔۔“
وہ پھر کمرے میں چکر لگانے لگا ،اور سوچنے لگا، اگر اس کی بیوی واقعی باہر ملک گئی تو کیا ہوگا؟
اکیلے سفر کرنا زیادہ بہتر ہے۔یا پھر ایسی عورت کے ساتھ، جو لاپرواہ سی ہو ، حال میں زندہ رہے، نہ کہ ایسی جو سارے سفر کے دوران بچوں کے بارے میں بولتی رہے۔۔ ہر دھیلے کے خرچنے پر آہیں بھرے۔۔
ایوان دمتریچ نے اپنی بیوی کا ٹرین میں بہت سارے پارسلوں ٹوکریوں اور بیگوں کے ساتھ تصور کیا۔ کسی نہ کسی چیز پر افسوس کرتی، شکایت کرتی کہ ٹرین سے اس کے سر میں درد ہو رہا ہے، بہت زیادہ رقم خرچ ہو چکی ہے۔ اسٹیشن پر اسے مستقل ابلے ہوئے پانی، بریڈ، مکھن کے لئے بھاگنا پڑے گا۔۔ وہ کھانا بھی نہیں کھائے گی کہ مہنگا بہت ہے۔ ہر دھیلے کے لئے مجھ سے بھیک منگوائے گی۔ اس نے بیوی پر نگاہ دوڑانے ہوئے سوچا، ’لاٹری ٹکٹ اس کا ہے، اس کے بیرونِ ملک جانے کا فائدہ۔۔ اس نے باہر کیا کرنا ہے۔ وہ ہوٹل میں بند ہو جائے گی۔ مجھے بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دے گی۔۔“
زندگی میں پہلی بار اس نے سوچا کہ اس کی بیوی کی عمر ڈھل رہی ہے۔ عام سی دکھائی دیتی ہے۔ کھانے پکانے کی بُو سے بھری رہتی ہے۔ جب کہ وہ خود ابھی تک جوان تروتازہ اور صحت مند ہے۔ دوبارہ شادی کر سکتا ہے۔
’بے شک یہ بیوقوفانہ سوچ ہے پر وہ ملک سے باہر جائے کیوں؟ اس نے کرنا کیا ہے؟ لیکن وہ جائے گی ضرور۔۔۔ مجھے معلوم ہے۔۔۔ اس کے لئے سب برابر ہے، چاہے وہ نیپلس ہو یا کلن۔۔ وہ ضرور میرے رستے میں رہے گی۔ میں اس کا محتاج رہوں گا۔۔ مجھے معلوم ہے، جونہی رقم ملے گی، وہ عام عورتوں کی طرح رقم کو تالے لگا کر رکھے گی۔۔ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرے گی اور مجھے ہمیشہ رقم کے لئے ترسائے گی‘
ایوان دمتریچ نے اس کے رشتہ داروں کے بارے میں سوچا۔ تمام کمینے بہن بھائی، خالائیں، ماموں، چچا سب گھسٹتے پہنچ جائیں گے، جونہی انہیں ٹکٹ کی خبر ملے گی، بھکاریوں کی طرح روتے پیٹتے، خوشامدیں کرتے چہروں پر منافقانہ مسکراہٹیں سجائے۔۔۔ قابلِ نفرت لوگ۔۔۔۔ اگر انہیں کچھ دیا جائے تو مزید مانگیں گے اور اگر انکار کرو تو آپ پر لعنت بھیجیں گے اور غیبتیں کریں گے، آپ کو بد دعائیں دیں گے۔۔
ایوان دمتریچ نے اپنے رشتہ داروں اور ان کے چہروں کو یاد کیا۔ جن کو ماضی میں وہ غیر جانبداری سے دیکھتا تھا، اب اسے قابلِ نفرت اور گھناؤنے لگے۔۔ اس نے سوچا یہ سب سانپ اور بچھو ہیں۔
اسے اپنی بیوی کا چہرہ بھی قابلِ نفرت لگا۔۔ اس کا دل و دماغ غصے سے بھر گئے۔ اس نے کینے بھرے دل سے سوچا، ’اسے رقم کی کچھ سوجھ بوجھ نہیں۔۔ پھر کنجوس بھی ہے۔۔ اگر وہ جیت گئی تو مجھے سو روبل پر ٹرخا دے گی۔۔ اور باقی کہیں تالا لگا کر بند کردے گی۔ اس نے بیوی کی طرف دیکھا مسکراہٹ کے ساتھ نہیں، بلکہ نفرت سے۔۔۔
بیوی نے بھی اسے نفرت اور غصے سے دیکھا، اس کے اپنے خیالی پلاؤ اور پروگرام تھے۔۔ وہ مکمل طور پر خاوند کے خوابوں کو سمجھ رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ کون سب سے پہلے اس کی جیت کو ہڑپ کرنے کی کوشش کرے گا۔
’دوسروں کے پیسے پر خیالی پلاؤ پکانا کتنا اچھا لگتا ہے..‘ اس کی آنکھوں میں صاف پڑھا جا سکتا تھا، ’نہ۔۔۔ نہ۔۔کوشش بھی نہ کرنا۔۔‘
اس کے خاوند نے اس کی نظریں پڑھیں۔ اس کے دل میں دوبارہ نفرت نے سر اٹھایا۔ بیوی کو غصہ دلانے کے لئے اس نے اخبار کے صفحہ چار پر جلدی سے نگاہ دوڑائی اور فاتحانہ انداز سے پڑھا، ”سیریز نمبر 9,4990 ٹکٹ نمر چھبیس /26 نہیں چھیالیس /46۔۔“
فوراً نفرت اور امید دونوں غائب ہو گئے۔ دونوں میاں بیوی کو اپنے کمرے تاریک چھوٹے لگنے لگے اور شام کا جو کھانا کھایا تھا، وہ ان کے معدے پر بوجھ ڈالنے لگا۔ شام لمبی اور تھکا دینے والی محسوس ہونے لگی۔۔
”یہ کیا شیطانی فعل ہے؟“
ایوان دمتریچ بدمزاجی اور چڑچڑاہٹ سے بولا، ”جہاں قدم رکھو، ہر قدم کے نیچے کاغذ کے پرزے اور کوڑے کے ذرے آتے ہیں، کمروں کو کبھی صاف نہیں کیا جاتا۔۔ بندہ گھر سے باہر جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔۔ ہر دم روح اذیت میں رہتی ہے۔۔ میں باہر نکل کر پہلے ہی درخت سے اپنے آپ کو لٹکا لوں گا۔۔“
English Title: The Lottery Ticket
Written by: Anton Chekhov